حضرت اُمِّ ایوب انصاریہؓ …(میزبانِ رسولﷺ)

ہجرتِ نبوی تاریخ کا اہم ترین باب ہے۔ مکہ کے دشوار حالات اور شدید مخالفت کے ماحول سے نکل کر مدینہ کی خوشگوار فضائوں میں پہنچ جانا ایک عظیم نعمت تھی۔ اس کے باوجود اپنا گھر بار چھوڑنا اور پھر بیت اللہ شریف سے دوری بھی ایک بہت دل فگار حقیقت تھی۔ اللہ والوں نے اللہ کی رضا کے لیے ہر مشکل مرحلہ نہایت پامردی اور بھرپور استقامت کے ساتھ طے کیا۔ آنحضورﷺ کے مدینہ پہنچنے پر ہر خاندان اور گھرانے کی خواہش تھی کہ آپﷺ انہی کے ہاں قیام فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ آپ کا قیام کہاں ہو گا، اس کا فیصلہ اللہ خود فرمائے گا۔
روایات میں آتا ہے کہ مدینہ کے ہر مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ آنحضورﷺ اس کے ہاں مہمان بن کر آئیں۔ کئی لوگوں کے بڑے بڑے مکانات بھی تھے مگر آپﷺ نے فرمایا ''میری اونٹنی کو چھوڑ دو، اللہ نے اس کے لیے منزل متعین کر رکھی ہے۔ جب وہ منزل آ جائے گی تو یہ خود بخود بیٹھ جائے گی‘‘۔ آنحضورﷺ کی اونٹنی مدینہ کی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے اس چھوٹے سے مکان کے دروازے پر آ بیٹھی جو دو منزلوں پر مشتمل تھا۔ اس میں آپﷺ کے جاں نثار صحابی اور صحابیہ ابو ایوبؓ اور اُمِّ ایوبؓ مقیم تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ جب آپﷺ اس گھر میں تشریف لائے تو ضیافت کے لیے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ حضرت اُمِّ ایوبؓ گھر پر تھیں اور ابو ایوبؓ گھر کے سامنے اپنے کھجوروں کے باغ میں تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ آنحضورﷺ ان کے ہاں تشریف لائے ہیں تو فوراً کھجوروں کا ایک تازہ خوشہ کاٹا اور آنحضورﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے پاس اس وقت ایک ہی بکری تھی مگر ان کا دل بہت بڑا تھا۔ مسرت و انبساط کے اس دن جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا‘ وہ قربان کر نے کو تیار تھے۔ انہوں نے فوراً بکری ذبح کی اور گوشت تیار کر کے گھر لے آئے۔ اُمِّ ایوبؓ نے اس دوران آٹا گوندھا۔ جونہی گوشت آیا تو انہوں نے سالن بھی پکایا اور تکہ کباب بھی۔ پھر روٹی پکا کر آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ آنحضورﷺ کے ساتھ جتنے بھی صحابہ کرامؓ اس وقت موجود تھے‘ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا جبکہ نبی پاکﷺ نے کچھ گوشت سالن اپنے دیگر صحابہ کے لیے بھی روانہ کیا۔
بعض مؤرخین کے نزدیک یہ واقعہ پہلے روز آمد کے موقع کا ہے جبکہ بعض دیگر مؤرخین اسے بعد کے ادوار میں آنحضورﷺ کے خانۂ ایوب پر آنے سے منسوب کرتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ اس طرح کی میزبانی کا شرف اس خاندان کو ایک سے زیادہ مواقع پر نصیب ہوا ہو۔ آپﷺ سات مہینے یہاں رہائش پذیر رہے تو یہ خوش بخت خاتون بڑی خوشی سے آپﷺ کی خدمت کرتی رہیں۔ کچھ دنوں کے قیام کے بعد آنحضورﷺ نے اپنے کھانے کا الگ انتظام بھی فرما لیا اور مسجد کے ساتھ اپنے حجرے کی تعمیر بھی شروع کر دی لیکن سات مہینے کے اس قیام میں کئی مرتبہ اُمِّ ایوبؓ اصرار کے ساتھ آنحضورﷺ کی دعوت کرتیں اور جو کچھ ہوتا پیش کر دیتیں۔ اس گھر میں قیام کے دوران کئی بار آنحضورﷺ پر وحی نازل ہوئی۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جب طومارِ افک باندھا گیا تو آنحضورﷺ بے حد پریشان ہوئے۔ قرآن مجید میں سورہ نور میں جہاں سیدہ صدیقہؓ کی پاک دامنی کی گواہی ہے‘ وہیں اس وقت کے اسلامی معاشرے کو جھنجھوڑکر یہ بھی کہا گیا ہے؛ ترجمہ: جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔ (سورۃ النور: 12) اسی سورۃ میں آگے چل کر فرمایا: (ذرا غور تو کرو، اس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ''ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہتان عظیم ہے‘‘۔ (سورۃ النور: 15تا 16)
یہ معاشرے کے عمومی حالات پر قرآن کا تبصرہ ہے۔ گویا اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں کہ پورے اسلامی معاشرے کو بیک زبان اپنی پاک دامن ماں کی پاک دامنی کا اعلان کر دینا چاہیے تھا اور جھوٹ کے تابوت میں خود ہی آخری کیل ٹھونک دینی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے مدینہ منورہ کا یہ گھرانہ استثنائی تصویر پیش کرتا ہے جسے آنحضورﷺ کی مدینہ آمد پر آپﷺ کی میزبانی کا سات مہینے تک شرف حاصل رہا۔ فتنے کے ان دنوں میں ایک روز حضرت ابو ایوب انصاریؓ مسجد نبوی سے گھر آئے۔ دیگر مخلص اہلِ ایمان کی طرح وہ بھی منافقین کے اٹھائے گئے طوفانِ بدتمیزی سے سخت پریشان تھے۔ غم زدہ حالت میں گھر میں داخل ہوئے تو اپنی بیوی کو دیکھا اور ان کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ''ایوب کی ماں! اگر تم عائشہؓ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ''خدا کی قسم! میں یہ حرکت ہرگز نہ کرتی‘‘۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے کہا: ''ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بدرجہا بہتر ہیں اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوانؓ کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا اور صفوانؓ تو مجھ سے کہیں اچھا مسلمان ہے‘‘۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں سورۃالنور کی آیات 12 اور 15 تا 16 میں جو بات کہی گئی ہے‘ اس پر اس گھرانے نے قرآن کے حکم کے عین مطابق مثالی طرزِ عمل اپنایا تھا۔ یہ دونوں میاں بیوی تاریخ میں عظیم مقام کے حامل ہیں۔ فخرِ موجودات سید المرسلینﷺ کی میزبانی کا شرف کوئی معمولی بات نہیں۔
ایک دن بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ مؤرخین کے بقول شروع میں آنحضورﷺ نچلی منزل میں مقیم تھے اور حضرت ابو ایوبؓ کا خاندان بالائی حصے میں رہائش پذیر تھا۔ سردیوں کی ایک رات کو اچانک ایک مٹکے کے ٹوٹ جانے سے پانی فرش پر بہہ گیا۔ میاں بیوی کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی کہ پانی نیچے جائے گا اور آنحضورﷺ کو دقت ہو گی۔ انہوں نے فوراً گھر کا واحد لحاف اس پانی کے اوپر ڈال کر پانی کو نیچے جانے سے روکا اور خود معمولی چادروں میں رات بسر کی۔ آخر ایک دن انہوں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم آپ کے غلام اوپر مقیم ہیں اور آپ ہمارے آقا نیچے۔ یہ بات ہمارے لیے بڑی پریشانی کا باعث رہتی ہے۔ آپﷺ اوپر تشریف لے چلیں اور ہم آپ کے قدموں کے نیچے آسودگی محسوس کریں گے۔ اہلِ خانہ کی خواہش پر حضور نبی کریمﷺ نچلی منزل سے اوپر کی منزل پر تشریف لے گئے۔
کئی منزلوں پر مشتمل مکانات کی ہر منزل کے کچھ پہلو مثبت ہوتے ہیں اور کچھ منفی۔ نچلی منزل میں کچھ زیادہ ہی سہولتیں ہوتی ہیں لیکن آنحضورﷺ نے اپنے میزبان میاں بیوی کی خواہش کی تکمیل میں ان کا مطالبہ منظور کر لیا اور باقی ماندہ عرصہ آپﷺ بالا خانے میں مقیم رہے اور اہلِ خانہ نیچے منتقل ہو گئے۔ آپﷺ کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور ان کے اہل و عیال سے بڑا گہرا تعلق اور محبت تھی۔ جب آپﷺ اپنے حجرے میں منتقل ہوئے تو اس کے بعد بھی اس گھر میں قیام کے حسین دنوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار آپﷺ دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان کے ہاں تشریف لاتے تو گھر والوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا۔ ایسے ہر موقع پر وہ آنحضورﷺ کو کھانا کھلائے بغیر کبھی نہ جانے دیتے۔ انصار کی بے شمار خوبیوں میں سے مہمان نوازی تو بالخصوص نمایاں صفت ہے جو آج بھی اہلِ مدینہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ میاں بیوی تو مفلسی میں بھی دریا دل تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور حضرت اُمِ ایوبؓ کے کردار کی جو جھلک سامنے آتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی گھر کی عظمت اس کی عالی شان عمارت اور وسیع وعریض دالانوں، ایوانوں، کمروں اور ہالوں کی بدولت متعین نہیں ہوتی۔ گھر کا مقام اہلِ خانہ کے اخلاق و کردار سے ناپا جاتا ہے۔ کچھ بڑے گھروں میں نہایت چھوٹے انسان مقیم ہوتے ہیں جبکہ بہت سے چھوٹے چھوٹے گھروں اور جھونپڑوں میں عظیم لوگوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ مکان کی قدر و قیمت درو دیوار اور برج و مینار سے نہیں اس کے مکین کی شخصیت اور معمولات سے ہی متعین ہوا کرتی ہے۔ آج کے دور میں گھروں کی وسعت اور رقبہ پھیلتا جاتا ہے مگر گھر والوں کے دل تنگ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں میں وسعت کے لیے ہمارے دلوں کو بڑا کر دے۔ آخر میں نبی پاک کی ایک دعا کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے دربارِ عالی میں اپنی دعا ان الفاظ میں پیش کی:
''اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلیِ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ لِیْ فِیْ دَارِیْ وَبَارِکْ فِیْما رِزْقِتنیْ‘‘
ترجمہ: اے اللہ! میرے گناہ بخش دے، میرے گھر میں وسعت عطا فرما، اور جو رزق مجھے عطا فرمایا ہے‘ اس میں برکت عنایت فرما۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں