رسولِ رحمتﷺ اور نصرتِ خداوندی! …(3)

آنحضورﷺ کی بشارت اور پیش گوئی کے مطابق غزوۂ احزاب کے بعد کفار کی کسی طاقت کو مدینہ پر حملے کی ہمت نہ پڑی۔ اس کے تین سال بعد نبی پاکﷺ نے مکے پر چڑھائی کی اور اسے بغیر خون ریزی کے فتح کر لیا۔ غزوۂ احزاب میں متحدہ لشکروں کی ہزیمت اور نامرادی کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یوں پیش کیا ہے۔ ''اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے‘‘۔ (الاحزاب: 25)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان اﷲ تعالیٰ کی رہنمائی اور ہدایت کے تابع تھا۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ سردارِ قریش اپنے چیلنج کے باوجود پھر کبھی مدینہ کا رخ نہ کر سکا۔ عرب کی پوری قوت جنگِ احزاب میں مدینہ کی اسلامی ریاست کے خلاف استعمال ہو چکی تھی۔ اس سے زیادہ قوت جمع کرنا جزیرہ نمائے عرب میں کسی کے بس میں نہیں تھا۔
ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد مکہ کے راستے سے سردارِ قریش ابوسفیان نے آنحضورﷺ کو ایک خط لکھا۔ یہ خط ابوسلمیٰ خشنی کے ہاتھ بھیجا گیا جو آنحضورﷺ کے سامنے سیدنا ابی بن کعبؓ نے پڑھا۔ ہم یہ پور اخط اور آنحضورﷺ کی طرف سے اس کا جواب محمد احمد باشمیل کی کتاب ''غزوۃ الاحزاب‘‘ سے نقل کر رہے ہیں جو جنابِ موصوف نے عہد نبوی اور خلافت راشدہ کے سیاسی و ثائق کے حوالے سے اپنی کتاب کے صفحہ 269 اور 270 پر نقل کیے ہیں۔ یہی مضمون سیرت الحلبیہ میں بھی بیان ہوا۔ ابوسفیان کے خط سے قارئین واضح طور پر یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے جبکہ رسول اکرمﷺ کا خط توکل و رضا، جرأت و ہمت اور تدبر و حکمت کا بہترین نمونہ ہے۔
ابوسفیان نے لکھا: ''باسمک اللّٰھم۔ میں لات ، عزیٰ، اساف، نائلہ اور ہبل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک بڑا لشکر جمع کرکے مدینہ اوپر حملہ کیا تھا اور ہمارا پختہ ارادہ تھا کہ تم لوگوں کے مکمل خاتمے کے بغیر واپس نہیں پلٹیں گے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ تم لوگ مردانہ وار ہمارا مقابلہ کرنے سے کنی کترا گئے، تم نے خندق کھود کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔ تم نے اپنی جان بچانے کے لیے ایسی چال چلی جس سے عرب کبھی واقف نہ تھے۔ عرب خندقوں اور کھائیوں کو نہیں جانتے۔ وہ تو نیزوں کی چھاؤں اور تلواروں کی دھار سے واقف ہیں۔ ہماری تلواروں کے خوف سے تم لوگوں نے یہ راہِ فرار اختیار کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ چال کس نے سجھائی۔ آج اگر ہم محاصرہ اٹھا کر جا رہے ہیں تو اپنے آپ کو محفوظ و مامون مت خیال کرنا، ہم پھر پلٹیں گے اور ایک بار یوم احد کی تاریخ کو دہرا دیں گے۔ اس روز ہم خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے بلکہ تمہاری عورتوں کو باندیاں بنا کر لے جائیں گے‘‘۔
یہ تھا ابوسفیان کا بے مغز مکتوب! اہلِ باطل کی ہر دور میں ایک ہی جیسی ذہنیت رہی ہے۔ وہ اپنی اندھی قوت کے زعم میں بالکل اندھے ہو جاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں تو ظاہری طور پر ٹھیک ہوتی ہیں، مگر دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: ''کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔ (سورۃ الحج: 46)
آج کے دور میں اسرائیل اپنے شیطانی منصوبوں اور عالمی شیطانی قوتوں کی مدد اور شہ پر غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے، اسے بہادری نہیں درندگی کہا جا سکتا ہے۔ کفرکی متحدہ قوتیں آنحضورﷺ کے خلاف اپنے سارے لائولشکر کے باوجود خائب و خاسر ہو کر گھروں کو بھاگ گئیں۔ غزہ سے بھی اسلام دشمن ایک دن ان شاء اللہ یوں ہی بھاگیں گے۔ اسرائیل کے دعووں اور پروپیگنڈے کو ساری دنیا جھوٹ قرار دے رہی ہے۔ یہ اسرائیل کی شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔
ابوسفیان نے جو خط لکھا وہ ذہنی شکست کی علامت ہے۔ آنحضورﷺ نے خط ملتے ہی اس کا مندرجہ ذیل جواب بھجوایا:
''بسم اﷲ الرحمن الرحیم، محمد رسول اﷲﷺ کی طرف سے ابوسفیان بن حرب کے نام! امابعد! تمہارا خط مجھے مل گیا ہے۔ دھوکا دینے والے نے تجھے اﷲ کے بارے میں ہمیشہ دھوکے میں رکھا۔ اے بنو غالب کے نادان و بے دانش سردار! تیرے ناپاک عزائم کے راستے میں اﷲ تعالیٰ خود حائل ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ انجام کار ہمارے حق میں فیصلہ صادر کرے گا۔ تو نے جو یہ ڈینگ ہانکی ہے کہ تو اپنے لشکروں کی مدد سے ہمارا کام تمام کرنے کے لیے آیا تھا تو جان لے کہ تیرے اس ارادے کو اﷲ تعالیٰ نے خود خاک میں ملایا ہے اور ہماری سلامتی اسی ذات کی مرہونِ منت ہے۔ اے عقل سے عاری سردارِ قریش! تجھے وہ دن ضرور دیکھنا پڑے گا جس دن (تیرے سب جھوٹے معبود) لات، عزیٰ، اساف، نائلہ اور ہبل توڑ دیے جائیں گے۔ اس دن میں تجھے تیرا خط بھی یاد دلاؤں گا اور اپنی اس بات کو بھی دہراؤں گا۔ جہاں تک تیرے اس قول کا تعلق ہے کہ مجھے یہ جنگی چال کس نے سکھائی تو جان لے کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے یہ ہدایت اور رہنمائی عطا فرمائی‘‘۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج: 2، دارالکتب العلمیہ بیروت، ص: 440)
متحدہ لشکروں اور مدینہ کے یہودیوں کی ذلت و رسوائی کا تذکرہ سورۃ الاحزاب میں اللہ نے یوں فرمایا ہے: ''اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا، اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لایا اور ان کے دلوں میں اس نے ایسا رعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب: 25 تا 27)
قریش اور بنو غطفان وغیرہ کے قبائل تو راتوں رات بھاگ گئے تھے، البتہ بنوقریظہ مدینہ میں اپنے قلعوں کے اندر موجود تھے۔ جب آنحضورﷺ لشکروں کے بھاگ جانے کے بعد گھر میں آ کر اپنا اسلحہ کھولنے لگے تو جبریل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ اسلحہ کیوں اتار رہے ہیں، فرشتوں نے تو ابھی تک اسلحہ نہیں اتارا۔ پھر اللہ کا حکم پہنچایا کہ بنوقریظہ کا قصہ تمام کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ عصر کی نماز بنوقریظہ کے قلعوں کے باہر جا کر ادا کریں۔
اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ کئی دنوں کے محاصرے کے بعد بنوقریظہ بے بس ہو گئے اور انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈالے کہ ان کا فیصلہ سعد بن معاذؓ کریں۔ سعد بن معاذؓ نے ان کا فیصلہ تورات کے احکام کے مطابق کیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ اے اسرائیل! جب تم لڑائی کے بعد اپنے دشمن پر غلبہ پا لو تو ان کے تمام قابل جنگ مردوں کو قتل کر دو، ان کی خواتین اور بچوں کو غلام بنا لو اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لو۔ یوں یہ یہودی قبیلہ خود اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ملیا میٹ ہو گیا۔ اسلام کے لیے اب مدینہ کے اندر کوئی خطرہ نہ رہا۔
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نورِ ربانی کی روشنی میں دنیا کو بتا دیا تھا کہ اب تک مکہ مدینہ پر حملہ آور ہوتا رہا ہے۔ آج کے بعد مدینہ کی باری ہے کہ مکہ پر حملہ آور ہو۔ چنانچہ آپ دیکھ لیجیے کہ اس کے بعد کبھی مدینہ پر حملہ کرنے کی کسی نے جرأت نہیں کی۔ البتہ اس جنگ کے چند سال بعد 8ھ میں آنحضورﷺ نے مکہ پر چڑھائی کرکے اسے فتح کر لیا اور سارے بت توڑ دیے گئے۔ ابوسفیان نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیا۔ اﷲ کا وعدہ سچا ہوا اور شیطان کی چالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ابوسفیان کو اپنا خط بھی یاد تھا اور حضور کے مکتوبِ گرامی کا مضمون بھی ازبر تھا۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آنحضورﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ سے تمام بتوں کو نکال کر توڑ دیا تو ابوسفیان اور دیگر سردارانِ قریش بے بسی کے ساتھ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مختلف قبائل کے بتوں کو توڑنے کا فیصلہ ہوا تو نبی اکرمﷺ نے مختلف صحابہ کرامؓ کی ذمہ داریاں لگائیں جن میں حضرت خالد بن ولیدؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس وقت تک ابوسفیان اور دیگر تمام سردارانِ مکہ اسلام قبول کر کے صحابہ میں شامل ہو چکے تھے۔ آنحضورﷺ نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بھی بتوں کو توڑنے والے صحابہ کے ساتھ شامل فرمایا۔ اللہ کی کیا شان ہے کہ ان بتوں کو سب کچھ سمجھنے والے ، ان کی عبادت کرنے اور ان سے حاجتیں مانگنے والے اب اپنے ہاتھوں سے ان بتوں کو توڑ رہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں