لاہور کبھی پیپلزپارٹی کا قلعہ تھا لیکن واہ ری گردشِ ایام کہ جس شہر نے بھٹو کو ’’قائدِعوام ‘‘ بنایا تھا آج اسی شہر میں اس کے وارثوں کو انتخابی امیدوار ڈھونڈنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو اس خاکسار کی یہ پیش گوئی بھی کہیں سنبھال چھوڑیں کہ آئندہ الیکشن کے بعد ن لیگ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوچکا۔ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ ن لیگ نے لاہور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی سے چھینا تھا اور اب تحریک انصاف عوام کے ساتھ مل کر یہی سب کچھ ن لیگ کے ساتھ کررہی ہے بلکہ کرچکی ہے۔ نتائج آپ آئندہ الیکشن میں دیکھ لیں گے اور اس کے بعد والے الیکشن میں ’’پراسیس ‘‘ مکمل ہوجائے گا کیونکہ کچھ لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے ہی بیوقوف بنایا جاسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو ذرا زیادہ دیر تک بیوقوف بنایا جاسکتا ہو لیکن بہت سے لوگوں کو بہت لمبے عرصے کے لیے بیوقوف بنانا ،ناممکن ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں جب ڈائیلاگ بازی کے ذریعہ لوگوں کو بیوقوف بنانے کی بھونڈی کوششیں ہوتی ہیں۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ ’’نیک ہونا کافی نہیں نیکی کرنا ضروری ہے‘‘ ۔اسی طرح سیاست میں بھی عوامی نظر آنے کی اداکاری ہی کافی نہیں سچ مچ عوامی ہونا بہت ضروری ہے کہ فلم یا ڈرامہ حقیقت کے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو ’’حقیقت‘‘ نہیں ہوجاتا۔وہ نسل تقریباً فارغ سمجھو جس کے لیے حکمرانی کا مخصوص ،منحوس ومردود اسلوب قابلِ قبول تھا، نئی نکور انٹرنیٹ نسل اس طرح کی مکروہات سے شدید متنفر ہے۔ یہ نئی نسل جب ایک طرف ’’ عوامی اداکار‘‘ کو ’’شہنشاہ جذبات‘‘ بن کر حبیب جالب گاتے دیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتی ہے کہ عوامیوں نے ایک طرف ماڈل ٹائون والی رہائش گاہوں کے سامنے والے پارکوں اور پلے گرائونڈ ز پر ناجائز قبضے کررکھے ہیں تو دوسری طرف رائے ونڈ محلات کے سامنے والی سڑک کے ایکڑوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے تو سوائے غصہ، نفرت اور انتقام کے انہیں اور کچھ نہیں سوجھتا۔ ماڈل ٹائون سے تو فی الحال میرا تعلق تقریباً معطل ہے لیکن ’’بیلی پور ‘‘ میں جب ملک بھر سے لوگ بالخصوص طلبہ مجھے ملنے کے لیے آتے ہیں تو انہیں ’’جاتی عمرا‘‘ کے سامنے سے گزرنا پڑتا ہے جہاں مین روڈ رکاوٹیں کھڑی کرکے روکی ہوئی ہے اور تھوک کے حساب سے پولیس اہلکار وہاں پھر رہے ہوتے ہیں تو مجھ سے ملتے ہی طلبہ جس لہجے اور زبان میں اپنے ان ’’قائدین‘‘ کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں، میں بیان نہیں کرسکتا۔ میرے مہمانوں کی اچھی خاصی تعداد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر بھی مشتمل ہے جن سے کوئی ذاتی تعلق تعارف نہیں ہوتا۔ وہ ادھر ادھر سے فون نمبر لے کر کال کرکے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ظاہر ہے میں انکار نہیں کرتا۔ ان سب کو بھی اسی عوامی جاتی عمرے کے سامنے سے گزر کر’’ بیلی پور ‘‘ پہنچنا ہوتا ہے۔ نوجوان طلبہ کی طرح یہ ’’قصیدے‘‘ تو نہیں پڑھتے لیکن اپنے یعنی مغربی حکمرانوں کے ساتھ ان کے موازنے ضرور شروع کردیتے ہیں کہ وہاں کے حکمران کیسے رہتے ہیں اور وہاں کوئی ٹیکس پیئر کے پیسے کے ساتھ اس طرح کے بے شرمانہ کھلواڑ کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا اور وہ یہ کہ ن لیگ بھی ’’مقبولیت‘‘ کے حوالہ سے پیپلزپارٹی کے نقش قدم پر جارہی ہے اور اندھا کنواں دور نہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آئے گی کہ حسنی مبارکوں‘معمر قذافیوں، زین العابدینوں اور عیدی امینوں کو بھی آخری لمحہ تک سب کچھ ’’گرفت‘‘ میں مضبوط ومحفوظ دکھائی دیتا ہے۔ اللہ پاک سب کو گردن کے سریے، آنکھوں کی چربی، دل کی سختی وسیاہی اور عقل کے فتور سے محفوظ رکھے۔ دوسری طرف عمران خان کے طوفان نے مغربی میڈیا کی آنکھیں بھی چندھیا دی ہیں مثلاً نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستانی عوام ان کی سیاست پر بھروسہ کرنے لگے ہیں۔ ادھر واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ عمران خان ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرسچین سائنس مانیٹر ، گلف ٹائمز اور بھارتی اخبارات بھی کررہے ہیں تو ایسے میں ان چمپوئوں کی کون سنے گا جو مسلسل میائوں میائوں یا چیائوں چیائوں کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے جبکہ سفید جھوٹ کی تو ٹانگیں بھی نہیں ہوتیں۔ چلتے چلتے پی ٹی آئی کے حالیہ جلسے کے حوالہ سے یہ بات عرض کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر اس روز شاہ محمود قریشی اپنی بنائوٹی سی تقریر کے ذریعہ پورے پچپن منٹ نہ چبا گیا ہوتا تو عمران خان کی تقریر ادھوری نہ رہتی اور اگر عمران خان کی تقریر مکمل ہوجاتی تو اسی روز عوام کی فتح کا اعلان بھی مکمل ہوجاتا لیکن خیر …پھر سہی! حیرت ہے کہ شاہ محمود جیسے لوگوں کو اتنی عمر سیاست میں گالنے کے بعد بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ عوام ’’بور‘‘ ہورہے ہیں اور کسی ’’ہور‘‘ کو سننا چاہتے ہیں ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!