قارئین! نہ قلم پکڑیں ،نہ جگر تھامیں … ہوسکے تو آج صرف کیلکولیٹر تھام لیں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ وہ لوگ کل آبادی کا کتنے فیصد ہیں جنہوں نے پاکستان کے وسائل پر قبضہ کررکھا ہے ؟ میں جو لکھتا رہا ہوں …بکواس تھا کیونکہ میں نے ہمیشہ ’’دوفیصد مراعات یافتہ‘‘ …یعنی ’’دوفیصد برہمنوں ‘‘ کا ماتم کیا ہے جبکہ حقائق اور اعدادوشمار اس سے انتہائی مختلف ہیں۔ تیرہ کروڑ کا آدھا فیصد ساڑھے چھ لاکھ بنتا ہے۔ آدھے کا آدھا فیصد سواتین لاکھ بنتا ہے۔ لیکن لوگو! کیا تم جانتے ہوکہ پاکستان کے سٹیٹ بینک کی ایک فہرست کے مطابق تقریباً 15ہزار افراد کے ذمہ ایک کھرب 24ارب روپے کے قرضے ہیں …صرف 15ہزار افراد ۔ 1370افراد اور ادارے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ذمہ واجب الادا بھاری قرضے معاف کرالیے ہیں۔ یہ تو ہماری مجموعی آبادی کا پوائنٹ زیرو، زیرو، زیرو، زیروون پرسنٹ بھی نہیں بنتے اور یہی وہ چند گنے چنے ’’برہمن‘‘ ہیں جنہوں نے ہم سب کو ’’شودر‘‘ بنادیا ہے۔ کیا ان گنت عصمتوں کی قربانی صرف انہی چند سو لوگوں کو معزز بنانے کے لیے دی گئی تھی؟ کیا بے شمار بچے کرپانوں پر اس لیے اچھالے گئے تھے کہ ہم سے یہ چند سو لوگ نہ سنبھالے جائیں؟ کیا بہت سے جوان اس لیے ہجرت کے سفر میں قربان ہوئے تھے کہ پاکستان صرف پندرہ ہزار افراد کے لیے وقف کردیا جائے؟ دووقت کی روٹی کے لیے ہمہ وقت مصروف بیگار، بے یارومددگار عام پاکستانی تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ ایک کھرب چوبیس ارب روپیہ ہوتا کتنا ہے ؟ یہ ایک سو چوبیس ارب روپیہ ہوتا ہے، ایک ارب میں سو کروڑ ہوتا ہے اور ایک کروڑ میں سو لاکھ ہوتا ہے۔ لیکن جس کا مسئلہ ہی دووقت کی روٹی ہو …اسے لاکھوں، کروڑوں، اربوں اور کھربوں کی خاک سمجھ آئے گی …سلیس زبان میں یوں سمجھ لو تمہارے ہمارے حصے کا سب کچھ سمیٹ کر چند پیٹ چٹ کر گئے۔ اور یاد رہے اس میں لاکھوں کروڑوں کی رشوتیں ، ڈالرز اور پائونڈز میں لیے گئے کمیشن شامل نہیں ہیں۔ اس میں پلاٹوں کی لوٹ اور پرمٹوں کی مار شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ٹھیکوں کا کوئی حساب ہے، نوکریوں کے نیلام عام کا بھی کوئی ذکر نہیں … یہ تو سیدھی سادی قرضہ کہانی ہے۔ قرضہ …جونہ تمہیں مل سکتا ہے نہ مجھے۔ کوئی ریڑھی لگانے کے لیے چند ہزار روپے بھی مانگے تو بینک منیجر دھکے مار کے نکال دے۔ کوئی بیٹی بیاہنے ، اس کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے چند ہزار کی خاطر ہاتھ پھیلائے تو بیت المال کے چکر کاٹ کاٹ کر بے حال ہوجائے کہ وہاں کے دھن پر بھی پھن والے فنکار بیٹھے ہیں ۔ مورچے میں بیٹھے ہوئے سپاہی اور سیاچین پر ایستادہ کپتان کے لیے ، مل میں کام کرتے ہوئے مزدور اور سڑک پر بجری کوٹتے ہوئے دیہاڑی دار کے لیے، کھیت میں کھیت ہوتے ہوئے کسان اور بے روزگار نوجوان کے لیے، سکول میں پڑھاتے ہوئے استاد سے لے کر درس قرآن دیتے ہوئے مولوی کے لیے تقریباً 12کروڑ 99لاکھ اور چند ہزار لوگوں کے لیے ان خوشحال صحت مند لیڈروں، ان کی بے مغز تقریروں اور بے معنی منشوروں کے علاوہ اور کیا ہے ؟ قرضہ، غیرملکی قرضہ جسے عوام نے چکانا ہے۔ قرضہ کھانے کو یہ چند سو گھرانے …قرضہ چکانے کو تیرہ کروڑکیڑے مکوڑے! پھر کہتے ہیں پچاس سال ہوگئے، حال بد سے بدتر ہوا جاتا ہے۔ بندہ پوچھے …اللہ کے بندو! ملک پہاڑوں، دریائوں، میدانوں، جنگلوں اور صحرائوں کے مجموعہ کا نام نہیں ہوتا۔ ملک اس کے عوام سے بنتا بگڑتا ہے۔ عوام بنیں تو ملک بنتے ہیں، عوام بگڑیں تو ملک بگڑتے ہیں، عوام آباد تو ملک آباد، عوام برباد تو ملک برباد۔ لیکن یہاں تو ایک انتہائی محدود اور انتہائی مردود قسم کی اقلیت نے خود کو ہی ’’پورا پاکستان‘‘ سمجھ رکھا ہے۔ سیاست بذریعہ دولت دولت براستہ سیاست …یہ ہے حکمران طبقہ کی حکمت عملی۔ باقی بچا سیاپا …جو قوم ان کا کررہی ہے۔ حیوان ہیں …انسان ہوتے تو عوام کا مان بڑھاتے ، ان کی عزت کرتے، ان پر اعتماد کرتے، انہیں ملکی وسائل میں شریک کرتے تو پاکستان جاپان کا بھی باپ ہوتا …ان مردودوں کو ملکی وسائل لوٹ کر غیرملکی بینکوں میں نہ رکھنے پڑتے، انہیں دوسری قومیتیں نہ لینی پڑتیں، انہیں بیرون ملک اثاثے نہ بنانے پڑتے… لیکن یہ کم ظرف ہی نہیں، کم نظر بھی تھے، یہ بدنیت ہی نہیں بد بصیرت بھی تھے۔ آج نہیں تو کل …کل نہیں تو پرسوں …کبھی نہ کبھی تو عوام نے اٹھنا ہی ہے، احتجاج بھی کرنا ہے، احتساب بھی اور انتقام بھی لینا ہے۔ تب کیا ہوگا؟ یہ اپنے کروڑوں اور اربو ں ڈالروں سمیت بے نام ونشان ہوجائیں گے، ان کی نسلیں اپنی شناخت کھو بیٹھیں گی (لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہ ہوگا، صرف عوامی احتجاج کی صورت میں ممکن ہے )۔ ایک طرف پندرہ ہزار افراد (جو دراصل چند سو خاندان بنتے ہوں گے اور جن کی آپس میں رشتہ داریاں اور تعلق داریاں بھی ہوں گی اور ان میں سے کچھ ہرحکومت کے ساتھ اور کچھ ہرآنے والی حکومت یعنی اپوزیشن کے ساتھ ہوتے ہوں گے اور یوں یہ سب دراصل ایک ہی خاندان کے افراد ہوں گے اور ہیں) جو 124ارب روپیہ لے اڑے ہیں اور دوسری طرف …ہاں دوسری طرف…ہاں دوسری طرف… وہ غربت زدہ حجام جس نے تنگ دستی سے تنگ آکر ذہنی توازن کھو کر اپنی تین معصوم بیٹیوں کو ذبح کر ڈالا۔ یہ تربیلا کے نواحی گائوں کی کہانی ہے اور تربیلا میں اتنا پانی تو ضرور ہے کہ تیرہ کروڑ پاکستانی اپنے اپنے حصہ کا چُلّو بھر پانی اس میں سے نکال سکیں اور اسے اس طرح استعمال کرسکیں جیسے کرنا چاہیے ۔ میں اس ’’پندرہ ہزاری‘‘ اور ’’ایک سوچوبیس کھربی‘‘ نظام سے پوچھتا ہوں کہ مجھے بتا!… اس حجام اور اس کی بیٹیوں کی نیشنیلٹی کیا تھی ؟ کیا یہ بھی پاکستانی تھے؟ تھے تو کس درجے کے پاکستانی تھے؟ کہانی یہ ہے کہ تربیلا کے قریبی گائوں کوٹیڑہ کے محلہ چھپی چھو کے رہائشی منظور الٰہی نے اپنی بیوی کی عدم موجودگی میں اپنی تین بیٹیوں سات سالہ عظمیٰ ، پانچ سالہ ماریہ اور دوسالہ ہدیٰ کو کمرے میں بند کرکے ذبح کر ڈالا، ملزم کی ایک 4سالہ بیٹی لبنیٰ گھر میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچ گئی۔ ان تینوں بچیوں کا اصل قاتل کون ہے؟ ہروہ شخص جس کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ موجود ہے کہ جب کچھ لوگوں کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ جمع ہوجائے تو جان لو کہ بے شمار لوگوں کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی کچھ نہیں بچا …پھر نہ عظمیٰ بچتی ہے نہ ماریہ اور نہ ہدیٰ۔ قاتلوں کی’’ہنرمندی‘‘ دیکھو کہ بدنصیب بچیوں کا باپ ہی قاتل قرار پایا ہے۔ اور اب راست گوئی کے آخری درجہ پر فائز…اپنے قائدین کے ڈیکلیریشنز ملاحظہ فرمائیے ۔ بقول بے نظیر بلاول ہائوس کی مالیت …صرف تیس لاکھ ہے ۔ نواز شریف کی جائیداد اور اثاثے …صرف 85لاکھ کے ہیں۔ ہمایوں اختر کی سالانہ آمدنی …صرف 60ہزار ، جائیداد 68لاکھ کی اور بیوی کے پاس کوئی زیور نہیں۔ بجلی مزید 2اور گیس مزید 27فیصد مہنگی اور عوام مزید سستے لبنیٰ بھی خطرے میں (نوٹ: یاد رہے یہ کالم 16سال پہلے شائع ہوا تھا اور میرے کالموں کے مجموعہ ’’زندہ انسان کا المیہ‘‘ میں شامل ہے )