پاک،بھارت تعلقات کی ریل ایک بار پھر پٹری سے اتر گئی ہے۔موجودہ سیاسی منظرنامہ میں جب بھارت انتخابی سال میں داخل ہو رہا ہے اسکا دوبارہ پٹڑی پر چڑھنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس سال بھارت میں چھ اہم صوبائی انتخابات ہو نے والے ہیں اور آئندہ سال کے اوائل میں ہی عام انتخابات کا بگل بجنے والا ہے۔پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے کشمیر اور محمد افضل گورو سے متعلق قرارداد کے رد عمل میںنہ صرف بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے جوابی قرارداد پاس کی بلکہ پاکستانی ہاکی ٹیم کا دورہ بھی منسوخ کر دیا۔ اس سے قبل نئے ویزا پروٹوکول پر عمل درآمد بھی فی الحال روک دیا گیا۔ نئی دہلی کے عالمی کتب میلہ کے لیے بھی اس سال پاکستانی ناشرین کو ویزا کے حصول کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑے۔مربوط جامع مذاکرات کا سلسلہ ہنوز تعطل کا شکار ہے۔بھارت کا مطالبہ ہے کہ ممبئی دہشت گرد حملے میں ملوث پاکستان میں نظربند ملزموں کے خلاف عدالتی کارروائی میں تیزی لائی جائے۔ ویسے بھی اس خطے کے طائرانہ تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے علاوہ کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں کہے جاسکتے۔ ڈھاکہ کی شیخ حسینہ واجد حکومت نے بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں دہشت گردی کو ختم کروانے میں کلیدی رول ادا کیا لیکن اس کے بدلے ابھی تک وہ نہ وعدے کے مطابق تیستا پانی معاہدہ طے کرا سکیں اور نہ ہی بارڈر سمجھوتہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھارت کو آمادہ کر سکیں۔ مالدیپ ، سری لنکا کے بعد اب بھوٹان بھی کسمسا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھارت کے دفتر خارجہ نے سبھی دائو حسینہ واجد کی عوامی لیگ پر آزما لیے ہیں۔ ان کی حکومت سے بے دخلی کے نتیجے میں بنگلہ دیش ایک بار پھر بھارت کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ پڑوسی ممالک کے علاوہ بھارت کے تعلقات اس وقت دو یورپی ممالک ڈنمارک اور اٹلی سے بھی خراب ہیں۔ ایک یورپی سفارت کار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اقتصادی ترقی تو کی ہے لیکن اس میں سفارتی سوچ، بین الاقوامی ذمہ داری کے اعتماد کی کمی ہے۔ دوسری طرف پاک‘بھارت تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی قرارداد نے اس خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے پاکستان کو سخت پیغام دیتے ہوئے اسے ’’شدت پسندوں‘‘ اور’’دہشت گرد عناصر‘‘کی حمایت کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیریں (لوک سبھا) میں پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ نے ایوان میں قراردادپیش کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان کی پارلیمان نے جمعرات کو محمد افضل گورو سے متعلق جو قرارداد منظور کی ہے ،اس پر ہم سب کو تشویش ہے ‘‘۔اس موقع پر سینئربی جے پی لیڈر جسونت سنگھ نے کہا کہ قراردادپاکستان کی طرف سے کیا گیا ناپختہ فیصلہ ہے اور اس کے لیے ’’جیسا کروگے ویسا بھروگے‘‘کی طرز پر رد عمل ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے۔تاہم بی جے پی کے ارکان نے اس بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے پاکستان کو جواب دینے کا زوردار مطالبہ کیا۔ ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’یہ قرارداد بھارت میں دہشت گردانہ حملے پر منظور کی گئی سرکاری مہر ہے ،یہ ہمارے جوانوں کے سر کاٹنے ، ممبئی بم دھماکوں اور سرینگر میں ہوئے فدائین حملے پر سرکاری مہر ہے ‘‘۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان سے تمام تعلقات منقطع کر لے۔ بحث کے بعد اسپیکر میرا کمار نے کمل ناتھ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو پڑھ کر سنایا۔ قرارداد میں کہا گیا: ’’یہ ایوان 14مارچ 2013ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کو پوری طرح سے مسترد کرتا ہے۔ ایوان کا خیال ہے کہ پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی سرزمین بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی اور اس وعدے کو وفا کرنا ہی پاکستان کے ساتھ پر امن تعلقات کی بنیاد بن سکتا ہے ‘‘۔لوک سبھا کی خاتون اسپیکر نے قرارداد کا متن پڑھتے ہوئے کہا: ’’ایوان بھارت کے داخلی امور میں مداخلت کو پوری طرح سے مسترد کرتا ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی سے شدت پسندوں اور دہشت گردوں جیسے عناصر کی حمایت کرنے جیسے فعل سے باز رہنے کو کہتا ہے‘‘۔میرا کمار نے کہا: ’’ایوان پھر سے تائید کرتا ہے کہ جموں کشمیر کی پوری ریاست بشمول اُس خطے‘ جس پر پاکستان غیر قانونی طور قابض ہے ، بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور ہمیشہ کے لیے رہے گا ، بھارت کے داخلی اُمور میں کسی بھی جانب سے مداخلت کی کوشش کو متحدہ قوم کی حیثیت سے سخت جواب دیا جائے گا‘‘۔یہ قرارداد تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت کے ساتھ منظور کی گئی۔بعد میں اسی نوعیت کی قرارداد بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا میں بھی اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔ ادھر وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھارتی پارلیمان کی طرف سے پاس کی گئی قرارداد پر رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد کی ایوان نے اتفاق رائے سے توثیق کی ہے۔ ان کا کہناتھا: ’’یہ محض سخت الفاظ نہیں بلکہ ایماندارانہ الفاظ بھی ہیں ،امید ہے کہ سرحد کے اُس پار ان الفاظ یا قرارداد کو صحیح تناظر میں لیا جائے گا‘‘۔انہوں نے پاکستان کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا: ’’بھارت کی سرزمین پر ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے متعلق حکومتی اقدامات پر پاکستان کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس کے دائرہ اختیار میںآتا ہے ،یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور اس پر کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ‘‘۔انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ملک کی اسمبلی میں اپنے معاملات کو حل کریں اور ہمارے ملک کے معاملات کو حل کرنے کا معاملہ ہماری پارلیمنٹ پر چھوڑ دیں۔ بھارت اور پاکستان کی قراردادیں اپنی جگہ، کشمیر میں حالات دن بدن مخدوش ہوتے جارہے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے یہ خطہ کرفیو اور ہڑتالوں کی زد میں ہے۔ مقامی کانگریسی کارکنوں کے ایک وفد نے حال ہی میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کی اور صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے ان سے مداخلت کی اپیل کی۔ اس وفد جس کی قیادت ریاستی کانگریس کے صدر پروفیسر سیف الدین سوز کر رہے تھے‘ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ افضل گورو کے باقیات ان کے ورثا کو لوٹانے سے عوامی غصہ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اسمبلی میں اپنی بے بسی کا رونا رویا۔ انہوں نے جذباتی فضا میں روروکر اپنی اس بے بسی سے دنیا، خصوصاً کشمیریوں کو آگاہ کرتے ہو ئے کہا: ’’اپوزیشن کے ممبران واک آوٹ کر گئے۔انہوں نے اچھا کیا۔ میرا بھی دل مجروح ہوا ہے (بارہ مولہ کے 22 سالہ نوجوان طاہر رسول صوفی کی فوج کے ہاتھوں ہلاکت پر) لیکن میری کرسی مجھے ایسا قدم اٹھانے کی اجازت نہیںدے سکتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ اس کرسی کے لیے اتنے بے تاب کیوں ہیں‘آج مجھے اپنی مجبوریوںکا احساس ہو رہا ہے۔ آج احساس ہورہا ہے کہ اس کرسی پر بیٹھنا کتنا مشکل ہے اور میں بے بس ہوں۔ــ‘‘ اب جہاں وزیر اعلیٰ کا یہ حال ہو وہاں عام لوگوں کا حال کیا ہوگا!