"IGC" (space) message & send to 7575

ملتان اورسکھرکی گدیاں اور بھارت میں صوبائی انتخابات

بھارت کے پانچ صوبوں میں جاری اسمبلی انتخابات کا عمل خاصی اہمیت اختیارکرتا جارہا ہے۔ان انتخابات کو آئندہ سال مئی میں عام انتخابات سے قبل ایک طرح کاسیمی فائنل تصور کیا جارہا ہے، جو یقینادواہم سیاسی شخصیات بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمٰی کے امیدوارنریندرمودی اورکانگریس کے نائب صدرراہول گاندھی کی سیاسی مقبولیت طے کریں گے۔وسطی بھارت کے صوبوں چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کیونکہ بی جے پی برسر اقتدار ہے، اس لیے کانگریس کوامید ہے کہ ان صوبوں میں حکومت مخالف جذبات کا فائدہ شاید اس کو ملے،مگردارالحکومت دہلی اورمغربی صوبہ راجستھان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔اگرچہ اپوزیشن بی جے پی کے پاس کانگریس کی ان دو صوبائی حکومتوں کو گھیرنے کے لیے زیادہ مواد نہیں ہے لیکن وہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں،افراط زر، مہنگائی اوردوسرے امورکوبنیاد بناکر عوام سے دونوں کانگریسی حکومتیں ختم کرنے کی اپیل کررہی ہے۔ 
راقم الحروف گزشتہ دو ہفتے راجستھان کے دورے پر تھا۔اس دوران کئی چونکا دینے والا حقائق معلوم ہوئے۔ مسلمان اس صوبے میں آبادی کا نو تاگیارہ فیصد ہیںاورذات پات کی سیاست میں بٹے اس صوبے میں جاٹ اور مینا ذاتوں کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔بیشتر مقامات پر مسلمانوں نے شکایت کی کہ وہ گزشتہ ساٹھ برسوںسے ہندو قوم پرستوں کے خوف سے سیکولر کانگریس کو ووٹ دیتے آئے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد کانگریس ہمیشہ ان کو نظراندازکرتی آئی ہے۔کانگریس سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر جن مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی ہے وہ کمیونٹی کے معاملات سے کوسوں دورہوتے ہیں۔ایک جگہ تو کانگریس کے ایک لیڈر جو خیر سے ایک سابق بیوروکریٹ بھی ہیں، مسلمان علاقوں میں اپنے پالتو کتے کے ہمراہ ووٹ مانگتے نظر آئے۔
اس ریاست کے مشرقی ضلع مادھوپورمیں انتخابی عمل سے قبل جب مسلمانوں کے ایک وفد نے مقامی رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر نمبو نرائن مینا سے کسی مقامی مقتدر مسلمان کوکانگریس کا ٹکٹ دینے کی درخواست کی تو وفد کے ایک رکن کے بقول انہوں نے نہ صرف ان کو ڈانٹ پلائی بلکہ یہ تک کہا کہ مسلمانوں کے پاس کانگریس کو ووٹ دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ، حتیٰ کہ اگر پارٹی کسی کھمبے کو بھی انتخابات میں کھڑا کرتی ہے تو اسی کو ووٹ دینا ہوگا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمٰی کی کرسی تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کانگریس کو ووٹ دینا مسلمانوں کی اپنی انتخابی ضرورت ہے۔اگرچہ بعد میں کانگریس نے اس حلقے سے دہلی میں مقیم ایک سابق مسلمان وزیرکے بیٹے کو میدان میں اتارا مگر وہ مسلمانوں کے مسائل سے کوسوں دور ہے۔اس علاقے میں بی جے پی کی امیدوار جے پورریاست کی مہارانی دیا کماری ہے جو مسلم بستیوں میں مغل حکمرانوں کے ساتھ ان کے آبائواجداد کے رشتوں کاحوالہ دے کرووٹ مانگ رہی ہے۔جے 
پورکے مہاراجہ مان سنگھ کی بہن جودھابائی مغل بادشاہ اکبر کی اہلیہ اورجہانگیرکی والدہ تھیں۔اس رشتے کی بنیاد پر وہ سبھی مسلمانوں سے 'ماموں بھانجی‘ کا رشتہ جوڑرہی ہیں۔
اس ریاست کی مغرب اور پاکستان کی سرحد سے متصل اضلاع بیکانیر، باڑمیر، جیسلمیراورجالورکے انیس اسمبلی حلقوں میں آباد پانچ لاکھ سے زائد سندھی مسلمان پاکستان کے پیر پگاڑا اورشاہ محمود قریشی کے مرید ہیںاوران کے خلیفوں کے کہنے پر ہی سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔جیسلمیر میں مقیم پیر پگاڑا کے مقامی خلیفہ غازی فقیر کانگریس کا علم تھامے ہوئے ہیں۔ان کے فرزندصالح محمد پوکھران صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میںبی جے پی کے شیطان سنگھ سے برسرپیکار ہیں۔دوسری طرف شاہ محمود قریشی کے خلیفہ مولانا تاج محمد بی جے پی کی حمایت کررہے ہیں۔ان کے دست راست مولوی عبدالملوک باڑمیر ضلع کے شیوہ حلقہ سے بی جے پی کے امیدوار مانوندرسنگھ کے جلسوں میں زور شور سے شرکت کر رہے ہیں۔ مانوندر بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے صاحبزادے ہیں۔ 
پیرپگاڑااورشاہ محمود قریشی کے خلفاء اس علاقے میں ہرسال نذرانہ جمع کرتے ہیں اور سکھراورملتان میں اپنے پیروںکو پہنچاتے ہیں۔ نذرانے کی مالیت کی انتہائی حد تو کوئی مقررنہیں مگر ہرشخص فصلوں کی کٹائی کے بعدکم ازکم سو روپیہ خلیفوں کی نذر کرتا ہے۔ جیسلمیر کاراجپوت شاہی خاندان بھی پیر پگاڑاکا مرید ہے اوربڑا نذرانہ پیش کرتا ہے۔
پیر پگاڑاکے خلیفہ غازی فقیر پیدائشی طور پر قوت سماعت سے محروم ہیں، وہ اپنے سامع کے ہونٹوں کی حرکت سے بالکل درست مطلب ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ان کا دربار شاہی شان وشوکت اور دبدبے سے کم نہیں۔ تخت پر براجمان خلیفہ کے اطراف میں ان کے مستعد باڈی گارڈ،اوراسٹینو موجود رہتے ہیں۔ان کے سامنے زمین پرمریدوں اورسائلوں کی قطاریںدست بستہ، سر جھکائے کسی شاہی دربار کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔غازی صاحب کے ایک نائب علی مہر کے مطابق انتخابات سے قبل کانگریس ہو یا بی جے پی، ہر پارٹی کے مقامی لیڈران خلیفوں کے دروازوں پرضرور دستک دیتے ہیں۔مگر اب ان علاقوں میں دینی مدارس کثیر تعداد میں کھلنے سے پیروں کا اثرورسوخ روز بروزکم ہوتا جارہا ہے۔ ان مدارس کا الحاق پوکھران کے ایک سو سال پرانے مدرسے سے ہے جوخوددارلعلوم دیوبند سے منسلک ہے۔ اس قدیمی مدرسے کے مہتمم قاری محمد امین کا کہنا ہے کہ ان کا مدرسہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتا۔وہ کہتے ہیں کہ ریاست کی سابق بی جے پی حکومت نے ان کے مدرسے کوکمپیوٹر فراہم کیے اورموجودہ کانگریسی حکومت نے مدرسے کے طلبہ کو حساب اورانگریزی پڑھانے کے لیے مدرس فراہم کیے۔
پاکستان اور اس سے متعلق امور اس علاقے میں انتخابات کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے امیدوارمان وندرکا کہنا ہے کہ آپ اپنی شناخت اور تاریخ تو بدل سکتے ہیں مگر جغرافیہ نہیں بدل سکتے۔ان کا کہنا ہے کہ2004 ء کے پارلیمانی انتخابات میں، مَیں نے دو وعدے کئے تھے۔۔۔۔ایک چوبیس گھنٹے پانی کی فراہمی اور دوسرے مانابواکھوکھرا پار ریل سروس کی بحالی۔۔۔۔میںریل سروس بحال کروانے میں کامیاب ہوگیاتاہم پانی ابھی تک ایشو بنا ہواہے۔ ایک عوامی جلسے میں لوگو ں نے مان وندرسے شکایت کی کہ پاکستان سے آئے ان کے رشتہ داروں کواکثر دیہات میں جانے نہیں دیا جاتا، نیشنل ہائی وے ـ15 کے مغرب میں توان کے جانے کی مکمل طور پر ممانعت ہے۔ مان وندر نے انہیں جواب دیاکہ وہ یہ ایشو زورشور سے اٹھائیں گے مگر اس کے لیے وزارت خارجہ اوروزارت دفاع کوقائل کرنا پڑے گا اور یہ دونوں وزارتیں مرکزی حکومت کے تحت آتی ہیں،لہٰذا اس مقصد کے لیے انہیں آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دے کر نریندر مودی کو وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار کرنی پڑے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں