"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی جیت اورکشمیری طلباپرظلم

بھارت اور پاکستان کے درمیان ایشیا کپ کے اعصاب شکن کرکٹ مقابلے کے دودن بعد صبح سویرے میں نے اپنے آفس میں چند نوعمرکشمیری نوجوانوںکو منتظر پایا۔ معلوم ہوا کہ وہ دہلی سے 150کلومیٹر دور میرٹھ شہر سے متصل سوامی ویکانند شبراتی نامی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالب علم ہیںاور میچ کے آخری سنسنی خیز لمحات میں شاہد آفریدی کے چھکے پر تالیاں بجانے کی پاداش میں انہیں ادارے سے معطل کردیا گیا ہے۔اور تواورراتو ں رات یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کی معیت میں انہیں دہلی ریلوے اسٹیشن پر چھوڑکر گھر جانے کا مشورہ دے دیا۔ اس یونیورسٹی میں 100 سے زائدکشمیری طالب علم زیر تعلیم ہیں جن میں 30 کے قریب طالبات ایم بی اے، بی ٹیک وغیرہ پروفیشنل کورسزکر رہی ہیں۔ابھی یہ طالب علم اپنی روداد سنا ہی رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ دہلی سے متصل نوئیڈا کی شاردا یو نیورسٹی میں بھی یہی بہانہ بناکرکئی کشمیری طلبہ کو معطل کردیا گیا ہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ امتحانات کی وجہ سے وہ میچ بھی نہیں دیکھ رہے تھے اور نہ ہی انہیں معلوم تھا کہ کس نے میچ جیتا۔ان کو میچ کے رزلٹ کا اس وقت پتہ چلا جب پاکستان کی جیت سے مشتعل ،کیمپس میں موجود دوسرے طلبہ نے ان کے کمروںپر دھاوا بول کر ان کو پیٹنا شروع کیا۔ 
اول الذکر یونیورسٹی کے وائس چانسلر خیر سے بہار سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان منظور احمد ہیں جو کئی سال قبل پولیس سروس سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بھارت میں مسلم مسائل کے سلسلے میں خاصے سرگر م رہے ہیں، شاید اس امید پر کہ کسی سیاسی جماعت کی نظر الفت ان پر پڑے اور انہیں مسلمانوں کے لیڈر کے طور پرکوئی سیاسی مینڈیٹ عطاکرے۔ اس کے لیے انہوں نے 2011 ء میں صوبہ اتر پردیش کے صوبائی انتخابات کے موقع پر لکھنو سے ایک عدد ہندی کا روزنامہ بھی شروع کیا تھا مگر ہنوز کسی سیاسی جماعت نے ان کو گھاس نہیں ڈالی ، اس لیے انہوں نے واپس نوکری کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ان طلبہ کو ان کی سکیورٹی کی وجہ سے گھر بھیجا گیا ہے کیونکہ یہ علاقہ فرقہ وارانہ فسادات کے لیے خاصا بدنام ہے۔ میرٹھ سے صرف 40 کلومیٹر دور مظفر نگر حال ہی میں ہندومسلم فسادات میں جھلس چکا ہے اور اس کی چنگاریاں ابھی تک سلگ رہی ہیں۔منظور صاحب کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر اس واقعے کو بہانہ بنا کر فساد کرواسکتے تھے۔اس یقین دہانی کے بعد یہ طلبہ کسی حد تک مطمئن ہوکر چلے گئے مگر اگلے ہی دن میرٹھ کی پولیس نے یونیورسٹی کی شکایت پر65 طلبہ کے خلاف بغاوت کا کیس درج کرلیا نیزان پرفرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اوردوسرے فرقوںکے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے جیسے الزامات لگاکر باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی۔ وائس چانسلر صاحب توصاف مکر گئے کہ انہوں نے پولیس میں کوئی شکایت درج کی ہے مگر مقامی پولیس کے کپتان نے ان کی قلعی کھول دی اور بتایاکہ یونیورسٹی کے رجسٹرار پی کے گرگ نے پولیس میں باضابطہ تحریری شکایت درج کروائی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آفریدی کے چھکوں سے ان دونوں اداروں میں زیر تعلیم کشمیری بچوں کا مستقبل ہی مخدوش ہوگیا ہے۔ 
2010ء کے موسم گرما میں نوعمرکشمیری نوجوان جس طرح ہاتھوں میں پتھر لے کر سڑکوں پرآئے ، اس نے بھارتی حکومت کے طوطے اڑادیے۔ اس سے قبل کشمیر میں وقوع پذیر کسی بھی واقعے کو پاکستان سے منسوب کرکے سفارتی سطح پر بھارت صاف بچ نکلتا تھا۔ اس کے سدباب اور نئی کشمیری نسل کو بھارت کے معتدل چہرے سے روشناس کرانے کے لیے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کی کابینہ نے تین اہم پروگراموں کی منظوری دی۔ ان میں ہر سال پانچ ہزارکشمیری طلبہ کو کشمیر سے باہر بھارت کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے کے بعد نہ صرف وظائف بلکہ ان کی پڑھائی اور ہوسٹل وغیرہ کا سارا خرچہ برداشت کرنے ، 'حمایت اسکیم‘ کے تحت سکول اورکالج سے ڈراپ آئوٹ ہونے والے نوجوانوں کو بھارت کے طول و عرض میں کال سینٹرز، موبائل سروس سینٹرز، کافی ہومز، ریسٹورنٹس میں ملازمت کے لیے ٹریننگ دے کر بھرتی کرناشامل تھا۔کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے معتمد خاص اور مرکزی وزیر جے رام رمیش کو اس سکیم کی نگرانی کا کام سونپاگیا۔ اس سکیم کے لیے حکومت کی طرف سے دو ارب پچاس کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ تیسری سکیم 'اڑان‘ گریجوایٹ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنائی گئی۔اس سکیم کے تحت بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر کو ان نوجوانوں کو ٹریننگ دے کر بھرتی کرنے کی ترغیب دی گئی۔ یہ سکیم براہ راست وزارت داخلہ کے سپرد کی گئی اور اس کے لیے حکومت کا بجٹ ساڑھے آٹھ ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
اگر ان سکیموں کو دل جمعی اور خلوص نیت کے ساتھ لاگوکیا جاتا اورکشمیری نوجوانوں کو بھارتی سوسائٹی کی 'فراخی اور دریا دلی‘ کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا تو شاید بھارت کے خلاف ان کی نفرت میں قدرے کمی واقع ہوجاتی۔کشمیریوں کی موجودہ نسل بندوقوں کی گھن گرج اور سپاہیوں کے جوتوں کی ٹاپوں کے سائے میں جوان ہوئی ہے۔اندرون کشمیر بھارتی ترنگا یا صرف کسی ملٹری کیمپ یا انٹیروگیشن سینٹر کے اوپر ہی لہراتا نظر آتا ہے جنہیں تعذیب کی علامتیں تصور کیا جاتا ہے۔ 1989ء میں جس نسل نے بندوق اٹھائی، اس نے پھر بھی بھارت کا سویلین چہرہ دیکھا تھا مگر اس نئی نسل نے بھارت کا صرف فوجی چہرہ ہی دیکھا ہے۔ پاکستانی ٹیم کی جیت کا غصہ ان پر اتارنا، نت نئے طریقوں سے ان کو ہراساں کرنا، انہیں ایک طرح سے شدت پسندوں کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔
شما لی بھارت کے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے لیے کشمیری طلبہ ایک طرح سے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے ہیں کیونکہ یہ غیر منظور شدہ ادارے سرینگر میں کیمپ لگاکر طلبہ کو راغب کرتے ہیں، سبز باغ دکھا کر ان کے لواحقین سے موٹی رقوم وصول کرتے ہیں اور داخلے کے بعد ان کشمیری طلبہ کے نام پر حکومت سے سکالرشپ سکیم کی مد سے رقوم وصول کرتے ہیں ۔اس سکیم کے تحت فنڈز براہ راست ادارے کو ہی فراہم کیے جاتے ہیں، ان اداروں کے ذمہ داران حکام پراپنے کورسزکی منظوری کے لیے بھی دبائو ڈالتے ہیں ، بصورت دیگر وہ ان طلبہ کو خارج کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
کچھ یہی حال دوسرے پروگراموںکاہے۔ 'حمایت‘ کے تحت جن کشمیری نوجوانوں کو نوکریا ں دی گئیں انہیں دس سے پندرہ ہزار ماہوار تنخواہ دی جاتی ہے جو گھر سے دورکسی بڑے شہر میں گزارہ کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ دوسری طرف کسی متوسط درجے کی رہائشی آبادی میں انہیںکوئی گھرکرائے پرنہیں دیتا۔گزشتہ کئی برسوں کے دوران تقریباً ایک درجن طالب علم یا روزگارکی تلاش کرنے والے نوجوان بھارت کے کئی شہروں میں جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔کسی بھی واقعے کے بعد یا یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کے موقعے پر پولیس انہیں مشتبہ قرار دے کر پوچھ گچھ کے لیے تھانے لے جاتی ہے حتیٰ کہ چند سال قبل وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور مرکزی وزیر غلام نبی آزاد نے صوبائی وزرائے اعلیٰ سے اپیل کی تھی کہ کشمیری نوجوانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ اس کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری نوجوان غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں، اپنے مستقبل کے حوالے سے بھی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی۔ بہتر ی اسی میں ہے کہ بھارت ، پاکستان اورمغربی طاقتوں کو یہ غیر یقینی صورت حال ختم کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے،اس سے پہلے کہ یہ دنیاکے لیے ایک ناسور بن جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں