"IGC" (space) message & send to 7575

13جولائی …کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم دن

13جولائی کشمیر کی تاریخ میں انتہائی غیر معمولی اور اہم دن ہے۔1931ء میں اسی دن عوام نے پہلی بار شخصی نظام اورمطلق العنانیت کے خلاف اجتماعی بغاوت کی۔ یہ بغاوت نہ صرف گلاب سنگھ کے حکمران خاندان کے خلاف تھی بلکہ اس استحصال، جبر واستبداد ، لوٹ کھسوٹ اورغلامی کے خلاف تھی جو پیشتر کئی صدیوں سے مغلوں ،پٹھانوں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیری عوام سے روارکھی تھی۔
یہ دن نہ صرف ایک اہم باب کی حیثیت رکھتاہے بلکہ یہ عوام کے لاشعور کا حصہ بن چکاہے ۔
کچھ عرصے سے چند مفاد پرست عناصر اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔دہلی اور جموں میں مقیم چند نام نہاد دَانشور اس دن کو فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں پیش کر کے تاریخ کو مسخ کرنے کا کام کر رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ وادی کشمیر میں نوے فی صدآبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کا وہی سب سے زیادہ شکار تھے ،اس لئے اوائل میں انہوںنے تحریک حریت میں حصہ لیااورقربانیاں دیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک جموں وکشمیر میں بسنے والے سارے فرقوں اورسارے علاقوں کے مظلوم عوام کی آزادی اوربیداری کے لئے تھی۔ اس میں ہرگز کوئی فرقہ وارانہ یا علاقائی جذبہ کار فرمانہ تھا۔
اگر بغور دیکھائے تو بیسیویں صدی کی دوسری اورتیسری دہائی محکوم اوردبی کچلی قوموں کا سامراج کے خلاف جدو جہد کا دورتھا۔ برصغیر ہندوستان میں بھی اس دور میں بھی زبر دست خلاف سامراج اندولن ہوئے اور صدیوں سے دبے کچلے کشمیری عوام نے بھی غلامی کی زنجیریں توڑنے کی جدو جہد شروع کردی۔ اس بیداری کا مرکز وادی کشمیر اوراس کی راجدھانی سرینگر تھا۔ مطلق العنانیت کیخلاف بڑے بڑے اجتماعات ہوئے جس میں شخصی نظام کے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی کی گئی ۔اس قسم کا ایک احتجاجی اجتماع خانقاء معلی سرینگر میں ہوا جس میں ایک غیر ریاستی باشندے عبدالقدیر نے بھی تقریر کی، جس سے عوام میںانتہائی جوش اورجذبہ پیدا ہوگیا ۔
حکومت نے اس تحریک کو جبراً کچل دینے کا فیصلہ کیا اوردیگر جابرانہ اقدامات کے علاوہ عبدالقدیر کے خلاف 124الف(بغاوت) کا مقدمہ چلایا گیا۔ عوام اس قدر مشتعل تھے کہ حکمرانوں کو کھلی عدالت میں یہ مقدمہ چلانے کی ہمت نہ ہوئی اور سینٹرل جیل سرینگر کی چار دیواری کے اندرہی مقدمہ شروع کیا گیا ۔ تاریخ پیشی پر شہر سرینگر اور مضافات کے ہزاروں لوگ مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے جیل کے سامنے جمع ہوگئے ۔ سماعت کے دوران باہر لوگوں کا اژدھام نماز کی ادائیگی کی تیاری کررہا تھا تو سپاہیوں نے جیل کی دیوار پر کھڑے ہوئے اذان دینے والے شخص کو گولی مار کر شہید کردیا اور اس کے بعد اندھا دھند فائرنگ سے مزید20افراد کو شہید کردیا گیا۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان تمام شہدا ء نے سینوں پر گولیاں کھائیں۔یہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں تھا بلکہ صدیوں کی مسلسل مزاحمت کا ایک خونیں پڑائو تھا۔
شہیدوں کو زیارت گاہ نقش بند یہ میں، جسے اب مزار شہداء بھی کہاجاتا ہے ،دفنا یا گیا ۔ یہاں پر ہر سال شہیدوں کی قبروں پر گل پاشی کی جاتی ہے ۔ جلسے ہوتے ہیں اورپارٹیوں اور نظریاتی وفاداریوں سے بالاترہوکر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیاجاتا ہے۔ یہ تحریک بالآخر ڈوگرہ تانا شاہی کو بہا کر لے گئی ۔ مگر مطلق العنانی کے خاتمے کے ساتھ ہی جنت نما کہلائی جانے والی یہ ریاست امن و سکون اور ترقی وخوشحالی کی آماجگاہ نہ بن سکی۔ ''عوامی دور‘‘ میں بھی کشمیری عوام کے کرب اور اضطراب کی کیفیت میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہوئی ۔بالخصوص گزشتہ بائیس برس کے دوران ریاست میں ہزاروں لوگ اپنی متاع جاں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور ہزاروں لوگ عمر بھر کیلئے معذو ہوگئے ۔ گزشتہ 65سال کی تاریخ کا غالباً سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کے سیاست دانوں نے ہمیشہ اپنے نجی اور گروہی مفادات کیلئے سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ سیاستدانوں نے اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے اور عوام کے سروں پر سوار رہنے کیلئے انہیں جانوروں کے نام دے کر دہائیوں تک ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں رکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کیا۔
ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں نے بھی مسئلہ کشمیر کو ایک انسانی مسئلے کے طور پر قبول کرنے کی بجائے اسے اپنی انا اور مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس ریاست کی آبادی مسلسل خوف میں جی رہی ہے ۔ریاست کے معاملات میں ایجنسیوں کی مسلسل مداخلت بلکہ مداخلت بے جا کی وجہ سے یہاں ہمہ وقت شکوک و شبہات کی فضا قائم رہتی ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے حل طلب رہنے اور لٹکے رہنے کی وجہ سے نہ صرف ریاست کی معیشت ترقی نہیں کر سکی بلکہ اس کے روایتی اقتصادی شعبے بھی بُری طرح بکھر کر رہ گئے ۔
کشمیر میں چاہے کانگریس ہو یا مقامی نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا آزادی پسند،سبھی خود کو13 جولائی کے شہدا ء کے وارث قرار دے رہے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہداء کی قربانیوں کی حق ادائیگی میں مسلسل تساہل سے کام لیا جارہاہے ۔ 1931ء کے شہدا کا مشن ابھی تشنہ تکمیل ہے ۔مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اس ریاست کے لوگوں کیلئے سکون و اطمینان کی زندگی جینا محال ہے کیونکہ اس مسئلے کے حل طلب رہنے تک یہاں سیاسی بے یقینی بھی قائم رہے گی اور اقتصادی ترقی کی راہیں بھی مسدود رہیں گی۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے اس مسئلے کو اپنے مفادات اور انا کی بھینٹ نہ چڑھاتے ہوئے دور اندیشی اور انسان نوازی کا ثبوت دے کر اس مسئلے کے حل کے لیے آگے آئیں اور ریاست کے مظلوم عوام کا مسلسل کرب ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں