بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ بنگلہ دیش کے دوران بیانات اور شمال مشرقی ریاستوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے تعاقب میں میانمار (برما) کی حدود میں بھارتی کمانڈو دستوں کے آپریشن نے اس خطے میں پیچیدہ صورت حال پیدا کردی ہے۔گو کہ اس آپریشن کے تانے بانے میانمار کی حکومت کی خفیہ رضامندی سے ملے ہوئے تھے، اور اس طرح کی کارروائیاں ماضی میں بھی کم و بیش چار بار ہوئی ہیں، مگر جس طرح بیان بازی کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے، وہ نہ صرف دیگر پڑوسی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، بلکہ میانمار حکومت کے لیے بھی سبکی اور ناراضگی کا سبب بن گیا ہے۔ وزارت خارجہ اور فوجی ذرائع کے مطابق یہ طے ہوا تھا کہ ماضی کی طرح میڈیا کو بتایا جائے کہ یہ آپریشن بھارتی سرحدی حدود میں ہی ہوئے ، مگر آخری وقت جب فوجی ترجمان وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرزمیں میڈیا کے سامنے تحریری بیان کی آخری سطریں پڑھ رہا تھا، بھارتی وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات راجہ وردھن سنگھ راٹھور نے سوشل میڈیا پرپے درپے ٹویٹ کرکے اطلاع دی کہ یہ آپریشن میانمار کے سرحدی حدود کے اند کیے گئے اور یہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے ایک پیغام ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ''یہ وزیر اعظم کی طرف سے کیا گیا ایک تاریخی فیصلہ تھا‘‘۔ بتایا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوبھال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا کہ اس فوجی کارروائی کی تفصیلات عام کردی جائیں اور اس کے لیے انہوں نے ایبٹ آباد (پاکستان) میں ہوئے اس امریکی فوجی آپریشن کی مثال دی، جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی انتظامیہ نے اس آپریشن کی بھر پور تشہیر کی تھی تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ اسامہ کی تلاش ختم ہوچکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دونوں آپریشنز کا موازنہ کیا جاسکتا ہے؟ تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ اس حرکت سے نہ صرف حلیف ہمسائے خدشات کے شکار ہوںگے بلکہ بھارت نے اپنے آپ کو خطے میں ایک بار پھرغیر متوازن طاقت کے طور پر پیش کر دیا ہے۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان پر نشانہ باندھا اورکہا:''جو لوگ بھارت کے اس نئے انداز سے خوفزدہ ہیں انہوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے‘‘۔
اس سے پہلے بھارتی فوج نے بھارت اور برما کی سرحد پر شدت پسندوں کے ساتھ تصادم کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ اس میں بڑی تعداد میں شدت پسند مارے گئے۔ بھارتی فوج کے ہیڈ کوارٹر میں فوجی مہمات کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل رنبیر سنگھ نے بتایا کہ برما کی سرحد پر دو الگ الگ مقامات پر بھارتی فوج اور شدت پسندوں کے درمیان تصادم ہوا۔ انہوں نے کہا: ''گزشتہ کچھ دنوں ہمیں انتہائی قابل اعتماد اور درست معلومات ملی تھیں کہ ہمارے خلاف کچھ اور حملے ہو سکتے ہیں۔ خفیہ معلومات کی بنیاد پر ہم نے ان حملوں کو روکنے کے لیے کارروائی کی‘‘۔ اس مہم میں برما کے تعاون کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ''ہم برمی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کی تاریخی روایت ہے اور ہم مستقبل میں بھی ان سے تعاون کی توقع رکھتے ہیں‘‘۔
بھارتی اسپیشل فورسز کی طرف سے اس طرح کے آپریشنز کوئی نئی بات نہیں لیکن پہلے ان کی تشہیر نہیں کی جاتی تھی۔ قارئین کو یاد ہوگا، فروری 2000ء میں لائن آف کنٹرول کے پار کوٹلی ضلع کے نکیال سیکٹر کے لانجوٹ گائوں میں ایک رات تقریباً 16 افراد کوتیز دھار ہتھیارو ں سے قتل کیا گیا تھا۔ 90 سالہ بزرگ اور ایک جوان جوڑا زندہ تو بچ گئے تھے، مگر ان کے اعضا جسم سے جدا کردیے گئے تھے۔ قاتلوں نے جائے واردات پر ایک بھارتی گھڑی اور ایک پرچہ رکھا تھا جس پر تحریر تھا:''اپنا خون اب کیسا لگ رہا ہے‘‘۔ اگرچہ پاکستان برسوں سے اس قتل عام کا ذمہ دار بھارت کی سپیشل فورسز کو ٹھہراتا آ رہا ہے، مگر بھارت نے سرکاری طور پر ہمیشہ اس کی تردید کی ہے، مگر غیر سرکاری اور خفیہ اداروں کے ذرائع کے مطابق یہ آپریشن ڈودہ اور راجوری کے اضلاع میں عسکریت پسندوںکی طرف سے اسی عرصے میں ہندو دیہاتیوںکے قتل عام کے جواب میں کیا گیا تھا۔ بھارت میںکمانڈو دستوں کے دس الگ ادارے ہیں جن میں فوج اور وزارت داخلہ کے تحت نیشنل سکیورٹی گارڈ کے کمانڈوز کی تعداد 15000 سے زیادہ ہے جنہیں حرب و ضرب کے علاوہ غیر ملکی زبانوں خاص طور پر چینی ، پشتو اور اردو کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ شمالی کشمیرکے دوردراز دیہاتوں میں اکثر رات کو شلوار قمیض میں ملبوس پشتولہجے میںاردو بولنے والے مسلح افراد نمودار ہوتے تھے جو مقامی افراد خانہ سے کھانے کی فرمائش کرتے تھے یا اس گائوں میں چھپے عسکریت پسندوں سے ملنے کی خواہش ظاہرکرتے تھے۔ لوگ انہیں عسکریت پسند جان کر ان کی فرمائشیں پوری کر دیتے تھے۔ اس کے بعد پورے گائوں کی شامت آجاتی تھی۔ اگلے دن قریبی ملٹری کیمپ یا اسی گروپ کا قہر اس گائوں پر نازل ہوجاتا تھا۔
میانمارآپریشن نے بھارت کے ذی حس حلقوںکو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن کامیاب رہا اور بھارت کی ہلاکتیں بھی نہیں ہوئیں لیکن مناسب یہی ہوگا کہ اس کامیابی پر جذبات میں نہ بہا جائے اور یہ کہنا خطرناک ہوگا کہ یہ پاکستان سمیت تمام ملکوں کے لیے پیغام ہے۔کچھ اسی طرح کے تیور چند بھارتی وزیروں نے 1998ء میں دکھائے تھے، جب اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایٹمی دھماکے کروائے تھے۔ ایک وزیر مدن لال کھورانہ نے کہا تھا کہ پاکستان اب صر ف زمین کا انتخاب کرے،کہاں بھارت سے لڑنا چاہتا ہے؟ مگر اس کے نو دن بعد ہی پاکستان نے دھماکے کرکے حساب برابرکردیا تھا۔ اسی لیے وزارت خارجہ کے افسران کا کہنا ہے کہ طاقت کا مظاہرہ کرنا تو ٹھیک بات ہے مگر ''خطے میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے آخرکار حکومت کو سفارتی طریقے اختیارکرنا ہوں گے‘‘۔ کانگریسی حکومتیں1971ء کے بعد خطے میں بھارت کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوششوں میں مصروف تھیں مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔اس لیے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے ساتھ بھارت کے رشتے سدھر نہیں سکے۔ 60 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سوا کسی پڑوسی، حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا۔ اسی لیے شاید 1977ء میں جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تواس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز رکھی مگر اس حکومت کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا۔ اس پالیسی کا اعادہ 1996ء میں اندر کمارگجرال نے کیا مگر
وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ ایک سال بعد واجپائی ایٹمی دھماکہ کرکے کشیدگی کو نقطۂ انتہا تک لے گئے، چند ماہ بعد ہی انہیں ادراک ہوگیا کہ ایٹم بم اپنی جگہ مگر اشتراک کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اپنے چھ سالہ دورمیں پارلیمنٹ حملہ اور کارگل کے ہوتے ہوئے بھی وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے اور دیگر پڑوسی ممالک کا خوف دور کر کے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ بھارت ایک غیر متوازن پاور نہیں بلکہ ان کی ترقی میں معاون بن سکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کا بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اشتراک اور جنوبی ریاست تامل ناڈو کا سری لنکا کے ساتھ اشتراک اسی دور کی پیداوار ہیں اور اسی پالیسی کو من موہن سنگھ نے اپنی کمزوریوں کے باوجود جاری رکھا۔
مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی اب اس گیم کو تبدیل کرکے دوبارہ سابق کانگریسی حکومتوں کی روش پر چل پڑے ہیں، یعنی پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔ اگلے ماہ روس میں برکس سربراہ کانفرنس سے واپسی کے بعد مودی پانچ وسط ایشیائی ممالک کے دورے پر جا رہے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ شاید وہ کچھ گھنٹے کابل میں بھی قیام کریں۔ ادھر چند ماہ بعد مشرقی اورانتخابی لحاظ سے اہم صوبہ بہار میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ حکمران بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکراور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ ان انتخابات میں وزیراعظم مودی کا وقاردائو پر لگا ہوا ہے۔ دہلی کے صوبائی انتخابات میں زبرست ہزیمت کا اعادہ اگر بہار میں بھی ہوتا ہے تو بی جے پی کے اندر مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے۔ پارٹی کے کئی سینئر اراکین ایسی کسی سیچوایشن کی تاک میں ہیں، جب وہ مودی سے اپنی بے عزتی اور کنارہ کشی کا بدلہ چکاسکیں۔