پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) (ریسرچ اینڈ اینالے سِس ونگ) کے درمیان تعلقات اور رقوم کی فراہمی کا معاملہ ابھی گشت کرہی رہا تھا، کہ را کے ایک سابق سر براہ امرجیت سنگھ دْلت نے حال ہی میں شائع اپنی تصنیف میں ریاست جموں و کشمیر کے سیاست دانوں کے بارے میں کچھ سنسنی خیز حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ۔گو کہ پچھلے سال بھارت کے ایک سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ(جو اب مرکزی وزیر ہیں) نے انکشاف کیا تھا، کہ فوج اور خفیہ ایجنسیاں کشمیر میں بھارت نواز سیاستدانوں کو سیاسی سرگرمیوں کیلئے پیسہ فراہم کرتی ہیں ، مگر دلت کے اس انکشاف نے، کہ آزادی پسند سیاسی اور عسکری قیادت کو رقوم اور مراعات بھی فراہم کی جاتی تھیں، کشمیر میں ایک طرح سے پوری لیڈرشپ کی حجامت بنا ڈالی ہے۔ پچھلے 25 سال کے واقعات سے کشمیری ویسے ہی اپنی لیڈرشپ کے حوالے سے مخمصے اور شک و شبہات کے شکار ہیں، دلت کے انکشافات نے قیادت کو ایک طرح سے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ دُلت کے بقول، حریت کانفرنس کے سخت گیر دھڑے کے سربراہ سید علی گیلانی کو چھوڑ کر، دیگر کشمیری رہنمائوں شبیر احمد شاہ، پروفیسر عبدالغنی بھٹ، مرحوم عبدالغنی لون، میرواعظ عمر فاروق، عسکری کمانڈر فردوس سید المعروف بابر بدر وغیرہ کے ساتھ میرے (دُلت) براہ راست روابط رہے ہیں۔ اپنی کتاب کے آغاز ہی میں راء کے سابق سربراہ نے پروفیسر بھٹ ، فردوس سید اور سجاد غنی لون کیلئے تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے ان کے رول کو تسلیم کیا ہے۔کتاب میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے علاوہ کئی اور عسکری کمانڈروں پر بھی اْنگلی اْٹھائی گئی ہے۔ نیز وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی بھی خوب خبر لی گئی ہے۔گو کہ دوران جنگ دشمن کے ساتھ روابط رکھنا کوئی جرم نہیں ہے، مگر کشمیر ی لیڈران شاید دنیا کی ایک منفرد موومنٹ کے قائد ہونگے، جو اُسی سے پیسہ اور مراعات کے خواہاں ہیں، جس کے خلاف دن رات ایک کئے تحریک بھی چلاتے ہوں۔کتاب کے مطابق کشمیر کے نیلسن منڈیلا شبیر شاہ کے سر پر 1995ء میں وزارت اعلیٰ کا سہرہ سجنے والا تھا اور 2002ء میں یہی سہر ہ عبدالغنی لون کے سپرد کیا جانے والا تھا۔مگر 1995ء میں شبیر شاہ عین موقعہ پر پیچھے ہٹ گئے، اور 2002ء میں لون صاحب قتل ہو گئے۔ دلت نے اشاروں کنایوں میں یہ بھی انکشاف کیا ہے، کہ لون صاحب کی ہلاکت اور اس کے فوراً بعد حزب المجاہدین کے کمانڈر عبد المجید ڈار کی ہلاکت سے بھارتی خفیہ ایجنسیاں اتنی بوکھلا گئی تھیں کہ tit for tat کے اصول کے تحت یہ فیصلہ ہوا تھا، کہ ان ہلاکتوں کا بدلہ سید علی گیلانی کو قتل کرکے لیا جائے، مگر مضمرات کاجائزہ لینے کے بعد سیاسی قیادت نے اس کی اجازت نہیں دی۔دلت نے لکھا ہے ، کہ گیلانی کی زندگی بھارت کے اعتدال اورجمہوریت پسند رویہ کی مرہون منت ہے۔ مگر دوسری طرف اس پر بھی افسوس کیا ہے، کہ ان کے دور افسری میں گیلانی ہی واحد لیڈر ہیں ، جن سے وہ ملاقی نہیں ہوئے۔اسی کتاب Kashmir:The Vajpayee Years میں دلت یہ بھی انکشاف کرتے ہیں، کہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف بھی اپنی ز ندگی کے لیے راء کے مرہون منت ہیں۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو راء کی طرف سے 2004ء میں بر وقت خفیہ اطلاع کی فراہمی نے ہی جیش محمد کی طرف سے مشرف کو ہلاک کرنے کی سازش کو ناکام بنایا او ر اس سازش میں ملوث جیش کے اراکین کو شناخت کرنے اور ان کی گرفتاری میں راء نے مدد دی۔ان میں سے دو افراد کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد حال ہی میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ 2003ء اور 2004ء میں کشمیر میں نسبتاً بہتر حالات کا کریڈٹ بھی دلت اپنے جانشین سی ڈی سہائے اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل احسان الحق کے درمیان خفیہ ملاقات کو دیتے ہیں۔جس سے اس وقت کے نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی اور میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی والے حریت کے اعتدال پسند دھڑے کے درمیان دو دور کی بات چیت بھی ممکن ہوسکی۔
امور کشمیر کے سلسلے میں پچھلے 30 سالوں سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں دلت حرف آخر سمجھے جاتے ہیں۔ 1989ء میں ان کی پوسٹنگ کشمیر میں بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے یونٹ سربراہ کے طور پر ہوئی۔ اسی وقت کشمیر میں عسکری تحریک کے دو ر کا بھی آغاز ہوا۔ایک سال بعد گورنر جگ موہن سے اختلاف کی بنا پر انہیں واپس دہلی بلا لیا گیا۔ جہاں وہ اگلے دس سال تک آئی بی کے کشمیر سیل کے سربراہ رہے۔ 1999ء میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے انہیں راء کے بیرونی ونگ کا سربراہ مقرر کیا۔ بھارت میں آئی بی، ملکی انٹلی جنس (خفیہ معلومات و اطلاعات) کے حصول کی انچارج ہے اور اس کا سیٹ اپ بھی خاصا وسیع ہے۔ جبکہ راء کا دائرہ بیرونی ملکوں سے خفیہ اطلاعات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کا سیدھا ہدف پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک ہیں۔ بھارت کا وزیر اعظم ہر روز صبح سویرے ان دو انٹلی جنس سربراہوں سے الگ الگ بریفنگ لے کر اپنا دن کا کام کاج شروع کرتا ہے۔یعنی اپنی میز پر بیٹھنے یا کوئی میٹنگ اٹینڈ کرنے سے قبل بھارتی وزیراعظم کو اس دن کے ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات اور ان کی نہج کا بھرپور ادراک ہوتا ہے۔ اگر وزیراعظم دورہ پر ہے، تو دونوں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندہ بھی ان کے ہم رکاب ہوتے ہیں اور وہ انہیں پل پل کی خفیہ اطلاعات پہنچاتے رہتے ہیں۔ ڈیڑھ سال تک راء کا
سربراہ رہنے کے بعد واجپائی نے دلت کو پرائم منسٹر آفس میں افیسرآن سپیشل ڈیوٹی مقرر کیا، جہاں وہ 2004ء تک کشمیر معاملوں کے انچارج رہے۔ گو کہ کشمیری سیاستدانوں نے دلت کے انکشافات کو ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے، انہیں عموماً حریت کو دوپھاڑ کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے، بہرحال حقیقت خواہ کچھ بھی ہو یہ کتاب اور اس کے انکشافات لمحہ فکریہ ہیں۔ ان انکشافات سے پہلے بھی عوامی حلقوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی سر گرمیوں کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں اور یہ سلسلہ مدت دراز سے چل رہا ہے۔ان چہ میگوئیوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستانی حکمران، میڈیا اور دیگر ادارے اکثر و بیشتر مخلص قیادت کی حوصلہ افزائی کی بجائے اسی قیادت کیلئے دستر خواں سجاتے رہے، جو دونوں طرف بھارتی اور پاکستانی ایجنسیوں کو لبھاکر اپناالو سیدھا کرنے کاکام کرکے تحریک اور عوام کو زک پہنچاتے رہے۔
دُلت نے اپنی تصنیف میں یہ بھی لکھا ہے دسمبر 1999ء میں ماہ رمضان میں افطار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کافی غصے کے عالم میں ان پر برس رہے تھے ، غیظ و غضب کی وجہ یہ تھی کہ بھارتی حکومت نے قندھار میں اغوا شدہ فلا ئٹ میں یرغمال بھارتی شہریوں کے عوض تین جنگجو کمانڈروں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ظاہر ہے اسے فاروق عبداللہ نے جنگجووٗں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے متراوف سمجھا۔بہر حال بقول دْلت، فاروق عبداللہ خفگی کی حالت میں مستعفی ہونے کی دھمکی کے ساتھ گور نر ہاوس پہنچے جہاںگورنر گریش سکسینہ نے شراب کے دو چار جام پلا کر اْن کا غصہ ٹھنڈا کیا اور دہلی کا فیصلہ قائم رہا ٖصرف چند گھنٹہ پہلے فاروق روزے سے تھے۔ سوال یہ ہے ، کہ کیا دُلت کا مقصد کشمیری لیڈروں کو ایک دوسرے کی نظروں میں گرانا اور انہیں عوام کی نظروں میں مشکوک بنانا ہے تا کہ اپنا سب کچھ لٹانے کے باوجود کشمیری قوم کی قوتِ مزاحمت ختم ہو
جائے ، نیز ہر کشمیری تمام سطح کے لیڈروں کے کردار پر شک کرے۔ یہ وقت کشمیری لیڈرشپ کے، ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کا ہے۔ اس بات میں شک و شبہ یا بحث مباحثہ کی گنجائش نہیں کہ حریت نواز خیموں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ۔بقول ممبر اسمبلی انجینئر رشید یہ سمجھنا ہوگا کہ آسمان سے نہ اب فرشتے آئیں گے جو کشمیر کازکی قیادت سنبھالیں گے اور نہ ہی کوئی خاصان ِ خدا میں سے کوئی بندہ سرینگر کے سول سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر عدل فاروقی کی یاد تازہ کرے گا۔ جو بھی قیادت ہے اور وہ جیسی بھی ہے اْسی کو جواب دہ بنانا ہوگا اور تعمیری تنقید کے ذریعے راہ ِراست پر لانا ہوگا۔ قیادت ہمیشہ قوم کا آئینہ ہوتی ہے جیسی قوم ویسی قیادت۔ اگر کشمیری قوم بدل جائے اور اپنے قول و فعل کے تضاد کو دور کر لے تو لازماً سیاسی قیادت بھی خود کو بدلنے پر مجبور ہو جائے گی۔ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ حالات کو اس مقام تک لے جانے میں کہیں عوام کا بھی کوئی رول تو نہیں۔ اصل یہ ہے کہ عوام اور اس تحریک کو سیاسی اور سفارتی مدد مہیا کرنے والو ں نے بھی نہ کبھی قیادت کو خلوص کی میزان میں احتساب کے لئے کھڑا کیا اور نہ ہی قیادت نے کبھی تعمیری تنقید کوبرداشت کرنے کی زحمت گوارا کی۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ 25 برسوں کے دوران ہوئی ہمہ گیر تباہی کے باوجود نہ لوگوں نے اجتماعی طور پر اور نہ ہی قیادت نے بدترین تشدد وحالات سے متاثرہ ہزاروں خاندانوں کی کفالت کا کوئی خیال رکھا۔ مذاکرات کے تمام دروازے بند کرنا دانشمندی نہیں، بشرطیکہ قیادت میں دَم ہو اور وہ مذاکرات کی میز پر اپنے مدمقابل فریق پر بازی لے جا سکے۔ ایسے کسی مخلصانہ عمل پر شک کرنے سے سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو ہوناہے۔ بہرصورت جس طرح دلت نے کشمیری لیڈروں کے متعلق انکشافات کئے ہیں، اس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی بھی کشمیری لیڈر چاہے اْس کا قد چھوٹا ہو یا بڑا، اب بھارتی حکومت کے ساتھ، راہ ورسم بڑھانے کا خطرہ مول لینے کے لئے ہرگز تیار نہ ہوگا۔ ہر کشمیری لیڈر اچھی طرح سمجھ چکا ہے،کہ حکومت دہلی اگر پہلے کسی کومناکر اینگیج کرتی ہے تو پھر اْسے رسوا کر کے چھوڑتی ہے۔