"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر اور بلوچستان

پچھلے 30 سالوں میں جو کچھ کشمیر نے سہا ہے، اس کی بہت سی کہانیاں اب بھی منظر عام پر آنے کی منتظر ہیں۔ ان میںسے ایک کہانی اپریل 2005 ء کی ہے۔ چونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے اور اس سے قبل کل جماعتی میٹنگ کے اختتام پر پاکستانی صوبہ بلوچستان میں شورش کا مسئلہ اٹھایا اور اس کو کشمیر کے ہم پلہ لانے کی کوشش کی، اسلئے شاید اس واقعہ کا منظر عام پر آنا ناگزیر ہوگیاہے۔پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے دورہ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں، بھارتی حکومت اور پاکستانی ہائی کمیشن دورہ کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوششیں کررہے تھے۔ انہیں دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مرحوم منور سعید بھٹی نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری ‘رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے ابھی تک دہلی میں ڈیوٹی دے چکے ، پاکستان کے مقبول ترین سفارت کاررہے ہیں۔فون پر انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری میں ہی ایک ریسٹورنٹ میں چائے نوش کریں گے۔چونکہ مشرف کی آمد آمد تھی، میری رگ صحافت بھی پھڑک رہی تھی، کہ چلومشرف کی آمد کے حوالے سے کوئی چٹ پٹی خبر بھی مل جائے گی۔مگر ریسٹورنٹ میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا، کہ آخر اس کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگے ، کہ کیا میں حریت راہنما سید علی گیلانی کو آمادہ کرسکوں گا ، کہ مشرف کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟ صدر پاکستان اپنے دورہ کے دوران کشمیری راہنمائوں سے ملاقات کرنے والے تھے۔میں نے معذرت کی، کہ گیلانی صاحب کی سیاست میں ‘میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی میں وہاں کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں۔گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف بیانات داغے تھے اور نواب اکبر بگتی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا، کہ کشمیری راہنمائوں اور خصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا نا ممکنات میں سے ہے اور یہ ایک نایاب موقع ہے، کہ کشمیر میں تحریک کو درپیش مسائل سے صدر پاکستان کو، جو ملٹری لیڈر بھی تھے، باور کراکر انہیں فی الفور حل بھی کروایا جائے؛چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا۔مگر ان کی اس بات سے کہ کشمیر کے اپنے مسائل کچھ کم نہیں ہیں، جو کوئی کشمیری راہنما، صدر پاکستان کے ساتھ بلوچستان کا درد بھی سمیٹنے بیٹھے، تھوڑا بہت مجھے بھی اتفاق کرنا پڑا۔گھر آکر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کہ تمہارے والد (سید علی گیلانی) نے ایک تو بھارت کے خلاف علم بلند کیا ہوا ہے ، اور دوسر ی طرف ابـ‘‘ واحد دوست اور وکیل‘‘ پاکستان کی لیڈرشپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔آخر میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر ان کو بلوچستان کے مسائل کا ورد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میٹنگ سے ایک روز قبل 16اپریل کو گیلانی صاحب دہلی وارد ہوگئے تو میری اہلیہ ان سے ملنے گئی، تو شاید ان کے گوش گزار کیا۔ اور دیگر ذرائع سے بھی پاکستانی حکومت نے شاید ان تک یہ بات پہنچائی تھی، کہ ُانہیں صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔اگلے روز صبح سویرے میرے گھر وارد ہوکر پہلے انہوں نے مسکرا کر کہا،‘‘ کہ اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو آفتوں سے خبردار کرانا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے؟ــ‘‘ انہوں نے کہا، کہ دیگر ساتھیوں نے بھی انکو مشورہ دیا ہے، کہ پاکستان کے اندرونی معاملات کے بجائے وہ گفتگو کشمیر تک ہی محدود رکھیں۔بہر حال دوپہر4بجے جب وہ لیاقت علی خان کی دہلی کی رہایش گاہ اور موجودہ پاکستان ہائوس میں پہنچے، تو طاقت کے نشے میں سرشار مشرف نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل ہی گیلانی صاحب 
نے دوٹوک الفاظ میں مشرف سے کہا،ـ‘‘کہ یہ داڑھی والا نوجوان ، جو میرے ساتھ ہے ، پوسٹ گریجویٹ ہے۔ آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہونگے۔‘‘ اس ‘‘والہانہ‘‘ استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا، ــ‘‘گیلانی صاحب آپ آئے د ن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے۔ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں۔‘‘ بقول ان افراد کے جو اس میٹنگ میں شریک تھے،مشرف نے ایک تو خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اوربزرگ کشمیری رہنما کی توہین کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ان افراد کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا، کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس کے رکھ رکھائو ، اس کی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی انکو فکر ہے۔ اس کے بعد مشرف نے اپنے پانچ نکاتی فارمولہ کی مخالفت کرنے پر انکو آڑے ہاتھوں لیا۔ 20منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی ‘‘خیر سگالی‘‘ پر ختم ہوئی۔ایک سال بعد اکبر بگتی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ سخت نالاں تھے۔ اس کا ذکر بعد میں 2011ء میں دہلی میں انہوں نے اس وقت کی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بھی کیا۔اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ تھا، کہ چاہے فلسطین ہو یا بوسنیا یا بھارتی مسلمانوں پر ظلم، کشمیریوں نے اپنے جلتے گھروں کی پروا کئے بغیرہمیشہ آوازیں بلند کی ہیں۔
مگر جو صورت حال اس وقت کشمیر میں درپیش ہے، اس کا موازنہ بلوچستان، یا آزاد کشمیر اور گلگت ۔بلتستان کی صورتحال سے کسی بھی طرح نہیں کیا جاسکتاہے۔پاکستان کے سفارتی خطوط کا جواب دیتے ہوئے، بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے، کہ وہ صرف ‘‘متعلقہ اور موجودہ صورتحال‘‘، جو بقول اس کے سرحد پار دہشت گردی ہے، پر ہی بات کرنے کیلئے اپنے خارجہ سیکرٹری کو اسلام آباد بھیجے گی۔مگر متعلقہ اور موجودہ صورت حال یہ ہے،کہ کشمیر میں پچھلے 40دنوں سے کرفیونافذ ہے، اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔200 نوعمر بینائی کھو چکے ہیں۔60سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔گنجان آبادی والے شہر خاص سری نگر کے باشندگان کرفیو کے سخت گیرانہ محاصرے میںکس طرح جی رہے ہیں ، وہ معجزہ ہی کہلائے گا۔ کشمیر کی اس الم ناک صورت حال پر انسانیت انگشت بدنداں ہے ۔ ایسی صورت حال آزاد کشمیر، گلگت اور بلوچستان میں تو نہیں ہے۔بہر حال فی الوقت اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تئیں بھارتی حکومت کے رویئے میں فوری تبدیلی کے آثار کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بھارت وپاک تعلقات اور کشمیر مسئلے کے حوالے سے نت نئی بیاض کھولنے کا عمل شروع کرکے کھینچاتانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ تو یہ غالباً بیجانہ ہوگا۔ یقینی طور پر موجودہ صورتحال نہایت ہی گمبھیر ہے اور اس میں وادی کشمیر کے لوگوں کیلئے پریشانیوں کے نئے اشاریئے صاف دکھ رہے ہیں۔ گو کہ پیلٹ گنوں کے استعمال میں کسی قدر تخفیف دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ ملکی یا بین الاقوامی سطح پر 
پیدا ہوئے دبائو کا نتیجہ ہے یا حکمرانوں کے احساس ذمہ داری میں جنبش کا عمل ،بہر حال یہ صورتحال کے تئیں ایک محتاط ردعمل کا مظہر ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ ایام سے فورسز کی جانب سے بستیوں کے اندر دھاوا بول کر نہ صرف لوگوں کی شدید مارپیٹ کی جارہی ہے بلکہ منقولہ اور غیر منقولہ املاک کو نقصان پہنچانے کا عمل ایک معمول ٹھہرنے لگا ہے۔ یہ کارروائیاں وادی کے مختلف اضلاع میں بڑے تواتر کے ساتھ ہورہی ہیں اور ایسی کارروائیوںمیں عمر کا لحاظ کئے بغیر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نشانہ بنانے سے احتراز نہیں کیا جا رہا ہے۔گزرے تین ایام میں ہی بڈگام کے سویہ بگ، سرینگر کے بٹہ مالو اور پلوامہ کے شار کھریو علاقوں میں شبانہ کارروائیاں کرکے نوجوان کی گرفتاریوں کی آڑ میں، جس پیمانے پر شہریوں کو زد کوب کیا گیا،، وہ رواں ایجی ٹیشن میں پہلی مرتبہ ایک مربوط اور منظم صورت ظاہر کر رہا ہے۔ ان کارروائیوں میں جہاں مبینہ طور پر پولیس اور سی آر پی ایف کے اہلکار پیش پیش ہوتے ہیں وہیں تازہ واقعہ میں فوج کے جوان ملوث تھے ،جنہوں نے بستی پر دھاوا بول کر مارپیٹ کرکے درجنوں نوجوانوں کو لہولہان کر دیا،جن میں سے متعدد فی الوقت ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔گزشتہ دوچار دنوں سے وادی بھر میںیہ خبر عوامی حلقوں میں زور دار انداز میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ کشمیر کو پٹرول اور ڈیزل کی رسد روک دی گئی ہے۔ یہ بھی افواہیں ہیںکہ پٹرول اور ڈیزل کی سپلائی امرناتھ یاترا کے لئے ضروری تھی ،اس لئے یاترا ختم ہوتے ہی کشمیر میں ایندھن کا قحط پیدا کردیا گیا۔ تواتر کے ساتھ ایسے واقعات پیش آنے کے باعث یہ سوال کیا جارہا ہے، کہ کیا تحریک مزاحمت سے نمٹنے کیلئے حکومت کا نیا طریقہ کار ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اور کیا کیا حربے ہوسکتے ہیں وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال فی الوقت اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حالات کے تئیںبھارتی حکومت کے رویئے میں فوری تبدیلی کے آ ثار کہیں دکھائی نہیں دے رہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں