"IAS" (space) message & send to 7575

سیلاب بے سبب نہیں آتے

پانی زندگی کی علامت ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری نااہلی‘ سستی اور بدانتظامی کے باعث یہ جل‘ ہمارے لیے اجل بن چکا ہے۔ یہ سیلاب کی صورت میں ہمارے لیے موت کا باعث بن رہا ہے۔ شعیب بن عزیز نے اسی دکھ کا رونا رویا ہے:
کوئی دستِ اجل کوکہیں روکے؍ ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
پاکستان میں سیلاب کی موجودہ صورتحال کوحقیقت کی نظر سے دیکھیں تو یہ ہماری اپنی نااہلی ہے‘ ہم کیوں اپنی نااہلیوں کا جائزہ نہیں لیتے؟ چلیں آئیں اپنی نااہلیوں کا جائزہ لیتے ہیں‘ اپنی غلطیاں تلاش کرتے ہیں‘ اصل مجرم ڈھونڈتے ہیں‘ ہم نے کیوں نہیں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے؟ ہم نے کیوں دریاؤں اور ندی نالوں کے راستے بند کر دیے؟ ہم نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کا پروگرام کیوں نہیں بنایا؟ ہم اپنے جرم کا الزام کسی دوسرے پر کیوں لگاتے ہیں؟ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ڈوبنے اور اس ملک کو سیلاب کے پانی میں ڈبونے کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم قبول کیوں نہیں کرتے کہ ہم خود اس سیلاب سے تباہ ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ ہم مجرم ہیں‘ ہاں! صرف اور صرف ہمِیں مجرم ہیں۔
کس نے روکا تھا کہ آبی ذخائر تعمیر نہ کرو؟ کس نے کہا تھا ڈیمز نہ بنائو؟ کس نے کہا تھا درخت کاٹ کاٹ کر پہاڑ گنجے کر دو؟ کس نے کہا تھا کہ قدرتی آبی گزرگاہوں میں ہاؤسنگ سکیمیں بنا دو؟ ہر سال ڈوبتے مرتے رہو مگر سیلاب سے بچنے کی منصوبہ بندی نہ کرو۔ کس نے کہا تھا کہ سیلاب زدگان کے نام پہ امداد لے کر ڈکار جاؤ؟ برصغیر پاک وہند میں صدیوں سے ہر سال مون سون میں سیلاب آتے ہیں۔ انڈیا نے انہی سیلابوں سے نمٹنے کیلئے سینکڑوں ڈیم تعمیر کر لیے‘ اپنا نہری نظام بہتر کر لیا۔ ہمارے بابو افسر فوٹو شوٹ کے بجائے کام کیوں نہیں کرتے؟ ہم نے صرف ہاؤسنگ سکیمیں بنا کر مال بنایا اور وہ مال بھی دبئی اور پرتگال میں انویسٹ کر دیا۔
دنیا بھر میں میڈیا عوام کی آواز ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اشرافیہ کا ماؤتھ پیس سمجھا جاتا ہے۔ ہماری آج بھی وہی گردان ہے جو 78سال پہلے تھی: انڈیا نے پانی چھوڑ دیا ہے۔ میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ چین نے محض تیس سالوں میں ہر قسم کے سیلابوں پر قابو پا لیا ہے۔ جاپان نے بھی ہر سال آنے والے سونامی کا توڑ نکالا لیکن ہم اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے ہمیشہ کسی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے اور بھارت کو دوش دیتے ہیں۔ بھارت پر الزام کیسا؟ اُس نے تو اضافی پانی چھوڑا ہے اور آپ کو پیشگی اطلاع دے کر چھوڑا ہے۔ ہم بارشوں اور سیلاب کے پانی کو دریاؤں کے راستے سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہے اور سالانہ اربوں روپے کا نقصان کر رہے ہیں۔ آج آبی ذخائر اور ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور سیلاب کے باعث ہر سُو پانی ہی پانی ہے اور یہ پانی ہماری نااہلیوں کی وجہ سے بربادیوں کی کہانی سنا رہا ہے۔ سیلاب نے پاکستان اور اس کے باسیوں کی جانوں اور املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بقول شہزاد احمد:
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ ؍ فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے
سیلاب اور بارشوں سے تین کروڑ 30 لاکھ افراد براہِ راست متاثر ہو چکے ہیں۔ جاں بحق افراد کی تعداد نے 1136کا ہندسہ عبور کر لیا ہے۔ بڑی تعداد میں مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ 10لاکھ 51ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے‘ ہزاروں غریب ڈوب چکے ہیں‘ لاکھوں بے گھر ہو گئے‘ کچے مکانوں میں رہنے والے بے چارے تو سیلاب کی نذر ہو گئے۔ پاکستان کا موجودہ منظر نامہ دیکھ کر محسن نقوی کا یہ شعر ذہن کے دریچوں میں گونجنے لگتا ہے:
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک تقریباً 28بڑے سیلاب آ چکے ہیں اور چھوٹے سیلاب تو ہر سال ہی آتے ہیں۔ 1988ء میں بھی تاریخی سیلاب آیا تھا۔ 2010ء میں بھی مون سون کی تباہ کن بارشوں نے ملک گیر سیلاب کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس سیلاب نے خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور دو ہزار افراد اپنی جان سے گئے۔ گزشتہ چند برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2022ء میں بھی بلا کا سیلاب آیا تھا لیکن حالیہ سیلاب اور بارشیں اتنی بڑی آفت ہیں کہ اس پر گریہ کرنے کیلئے الفاظ کم پڑ جائیں۔ اسکے باوجود یہ لازم ہے کہ اس سانحے کا تذکرہ کیا جائے۔ یہ عمل نہ صرف اس سانحے اور اسکے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ اسکی مدد سے ہم اپنی خامیوں کو شناخت کرتے ہوئے مستقبل میں اس نوع کی مشکلات سے بچاؤ کے امکانات بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ضروری ہے۔
کن نیندوں اب تُو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اس امر میں بھی دو رائے نہیں کہ زلزلے اور سیلاب ہمارے لیے قدرت کی جانب سے آزمائش ہوتے ہیں‘ انہیں ٹالنا یا مزید تباہ کاریوں کا باعث بنانا دستِ قدرت ہی میں ہے۔ تاہم انسان ان قدرتی آفات میں نقصانات سے بچاؤ کی تدبیر تو کر سکتا ہے۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی اس کرۂ ارض پر منفی اور مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ انسان کے ذہنِ رسا سے کیے جانے والے تجربات اور صنعتی پھیلاؤ ہے جس سے فضا میں زہریلا دھواں اور مختلف کیمیکلز کے اثرات پھیلتے اور قدرت کے نظام میں خلل ڈالتے ہیں؛ چنانچہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک طرح سے قدرت کا انتقام بھی ہیں۔ اگر انسان کے ذہنِ رسا کے پیدا کردہ ان اسباب کو کنٹرول کر لیا جائے تو موسمیاتی تبدیلیاں بھی کسی ایک مقام پر ٹھہر سکتی ہیں۔
ہمارے پاس سندھ طاس معاہدہ کے تحت اپنے حصے کے دریاؤں پر زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنانے کا آپشن موجود تھا اور دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ بھی اٹھایا گیا تھا مگر مفادات کے اسیر سیاستدانوں نے کالا باغ ڈیم کو صوبائی منافرت کی بھینٹ چڑھا کر اس کی تعمیر ناممکن بنا دی جبکہ ہمارے کسی بھی حکمران نے دوسرے ڈیمز کی تعمیر کیلئے بھی کوئی تردد نہ کیا۔ اگر ہم نے دریاؤں اور نہروں پر اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کر لیے ہوتے تو ہم آج توانائی میں بھی خودکفیل ہوتے‘ عوام کو سستی ہائیڈل بجلی بغیر لوڈ شیڈنگ کے مل رہی ہوتی۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر ہماری پالیسیاں قومی اور ملکی مفادات سے ہم آہنگ ہو جائیں تو بھارت سمیت کسی کو بھی ہمیں نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے قلیل‘ درمیانی اور طویل مدتی پالیسیاں وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیے بغیر ملک قدرتی آفات سے محفوظ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ وفاق‘ صوبے اور ادارے مل کر ہی اس چیلنج سے عہدہ براہو سکتے ہیں۔ اگر ہم ابھی سے ڈیمز اور چھوٹے ذخائر کی تعمیر کی جانب توجہ دیں تو مستقبل کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی طرف سے امید افزا بات سامنے آئی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ سب کو مطمئن کرکے کالا باغ ڈیم جیسا پروجیکٹ اپنے بچوں‘ نسلوں اور پاکستان کیلئے مکمل کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائیت کے چکر میں پورے پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا‘ پورے ملک کے فائدے کو پیچھے نہیں دھکیل سکتا۔ سب کو اپنے حقوق کے مطابق تحفظات کو دور کرکے کالا باغ ڈیم جیسا پروجیکٹ تعمیر کرنا چاہیے۔ دیر آید درست آید۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں