پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے اندر کچھ ایران کے حمایتی بستے ہیں کچھ خواہ مخواہ افغانستان کے خیر خواہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں یہ پختونوں کی بات نہیں کر رہا‘ وہ تو ہمارے پاکستانی بھائی ہیں۔کچھ بھارت کے طرفدار ہیں‘ کچھ چین کے حامی ہیں اور کچھ سعودی عرب کے‘ لیکن اس ملک میں پاکستان کے بہی خواہ بہت ہی کم ہیں۔ کسی گاؤں کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی پہلی بار دیہات گیا تو ایک دن چوپال میں چلا گیا۔ جب حقے کا دور چلا تو دائرے میں بیٹھے کسی شرارتی آدمی نے اس کی دھوتی کو پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کی۔ اس شخص نے اپنے ساتھ والے شخص کی دھوتی پر ہاتھ ڈال دیا اور اُس شخص نے گائوں کے مُکھیا کی دھوتی کھینچنے کیلئے دست درازی کر دی۔ مکھیا نے اس نازیبا حرکت پر اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے بازپُرس کی تو اس کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے شخص نے اس کے ساتھ بھی ایسی ہی حرکت کی تو میں نے سمجھا شاید یہ اس گاؤں کی روایت ہے‘ لہٰذا میں نے بھی ایسا کر دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کی دھوتی کھینچنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور اس طرح ہم اس سماج اور ملک کے لیے بھی باعثِ عار ہیں ۔
میرے پختون دوست میجر (ر) محمد عامر نے مجھے اپنی ایک اہم تقریب میں گفتگو کی وڈیو بھیجی ہے اور آدھا گھنٹہ فون پر بات کر کے پاک افغان مسئلہ پر اپنی ذمہ دارانہ اور ماہرانہ رائے دی ہے۔ ممتاز دفاعی تجزیہ کار اور پاک افغان امور کے ماہر میجر (ر) محمد عامر نے پاکستان اور افغانستان کے مابین جاری کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کے ساتھ دوستی اور بہتر تعلقات کے قیام کی کوششیں کیں تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کے بدلے میں افغانستان کی ہر حکومت نے دشمنی کا راستہ اختیار کیا۔ ہم صرف افغانستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر مجرم قرار نہیں دے سکتے‘ جس طرح ہمارے کچھ اینکر دوست کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم سے بھی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ ہمیں ان غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا اور ان کو دہرانے سے پرہیز کرنا ہو گا کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
اسلام آباد میں مارگلہ فائونڈیشن کے زیر اہتمام ایک تقریب سے سے خطاب کرتے ہوئے میجر (ر) محمد عامر نے کہا کہ کشیدگی اور دشمنی سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ان میں مزید اضافہ ہو گا۔ اُن کے بقول‘ افغانستان کے عوام کی اکثریت پاکستان سے محبت کرتی ہے کیونکہ ہم نے نہ صرف ان کو لمبے عرصے تک پناہ دے کر بھائیوں کی طرح رکھا بلکہ ان کے امن‘ آزادی اور ترقی میں ہر ممکن کردار بھی ادا کیا تاہم اکثر افغان حکمرانوں اور حکومتوں نے بوجوہ پاکستان مخالف پالیسیاں اختیار کیں اور آج بھی ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل اور اختلافات کا حل نکالنا ہوگا اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا ہوگا کیونکہ دوسری صورت میں بعض دیگر ممالک اور قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع ملے گا۔
جب سے پاکستان بنا ہے دونوں ملکوں سے بے شمار غلطیاں ہوئیں لیکن جب ہم تقابل کرتے ہیں تو بدقسمتی سے قصوروار پاکستان کو سمجھا جاتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ پاکستان نے بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن اس کو مجرم نہیں سمجھتا۔ بات ڈیورنڈ لائن کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا قیام 1893ء میں برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان ایک سرحدی معاہدے کے تحت عمل میں آیا جسے برطانوی عہدیدار مارٹیمر ڈیورنڈ اور افغان حکمران امیر عبدالرحمن نے 12 نومبر 1893ء کو طے کیا تھا۔ اس کے بدلے برطانیہ کی حکومت نے امیر عبدالرحمن کو انعامات سے بھی نوازا تھا۔ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ اس وقت ہوا جب افغانستان کے امیر عبدالرحمن نے اپنے بیٹے حبیب اللہ کی اسمار کے خان طہماش خان کی بیٹی کے ساتھ منگنی کر دی اور اس دوران رخصتی کے نام پر امیر عبدالرحمن کے وفاداروں نے جون 1892ء میں اسمار کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق اسمار اس وقت باجوڑ ضلع کا علاقہ تھا۔ جب امیر عبدالرحمن نے اسمار پر قبضہ کیا تو مارٹیمر ڈیورنڈ اس وقت سیکرٹری خارجہ تھا۔ انہوں نے اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب کو خط لکھا کہ افغانستان نے باجوڑ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ سو رہے ہیں۔ اس وقت یہ علاقہ پنجاب میں شامل تھا۔ اس دوران 26 جون 1892ء کو وائسرائے ہند نے بھی امیر عبدالرحمن کو خط لکھا اور واضح کیا کہ جب تک افغانستان اسمار کا علاقہ خالی نہیں کرے گا اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہو گا۔ اس طرح افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان معاہدۂ ڈیورنڈ پر دستخط کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔ اس معاہدے کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ‘ نورستان‘ اسمار‘ موہ مند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور افغانستان استانیہ‘ چمن‘ نوچغائی‘ بقیہ وزیرستان‘ بلند خیل‘ کرم‘ باجوڑ‘ سوات‘ بونیر‘ دیر‘ چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو گیا۔
یہ لائن پاکستان اور افغانستان کے مابین تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد بناتی ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ پاکستان کے قیام سے پہلے کا ہے لیکن پاکستان کی حکومت نے اپنے آپ کو برطانیہ کا وارث سمجھتے ہوئے یہ معاہدہ برقرار رکھاتاہم افغانستان نے بعد میں اس پرکئی بار اعتراضات کیے اور کئی بار اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور یہ اکثر تنازعات کا باعث رہا ہے۔ افغانستان روس کے بعد امریکہ کے ساتھ جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہے تو دوسری طرف پاکستان ایک مؤثر فوجی قوت ہے اوربھارت کی صورت میں پاکستان دشمن قوتیں افغانستان کو اکسانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں اور ایک بار پھر ڈیورنڈ لکیر کو متنازع بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
میجر (ر) محمد عامر نے پاک افغان تعلقات کے بارے میں مزید کہا کہ دونوں ممالک میں بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے کا حامی ہوں بلکہ ان ممالک کے درمیان بغیر ویزہ کے بارڈر پر آمدورفت ہونی چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی میں ہم نے افغانوں کے ساتھ مل کر دو جنگیں لڑی ہیں۔ روس کی جنگ میں افغانوں کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کیا اور دوسری جنگ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے ساتھ مل کر لڑی گئی۔ پہلی جنگ میں افغان جہاد میں روس کی شکست سے پاکستان کو کئی فائدے ہوئے‘ الذولفقار جیسی مضبوط تنظیم ختم ہوئی‘ دنیا میں پاکستان کو پذیرائی ملی‘ ایف سولہ طیارے ملے‘ ایٹم بم بنایا گیا۔ میجر (ر) محمد عامر کا کہنا تھا کہ 1893ء سے انگریزوں سے لے کر آج کے پاکستان تک افغانستان کی 130 سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ افغان سرداروں کی اصلیت کیا رہی ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کے ساتھ دوستی کی کوشش کی لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے دشمنی کی راہ اپنائی‘ لیکن اس طرح مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان کو دھمکیاں دینے کی بجائے ٹیبل پر بیٹھ کر بات کرنا ہو گی۔ یہ میجر (ر) محمد عامرکا نقطہ نظر ہے اور ان کے نزدیک پاک افغان کشیدگی کا ممکنہ حل ہے لیکن ضروری نہیں کہ میں اور آپ بھی اس سے اتفاق کریں۔ ان کی کچھ باتوں سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کا پورا پورا حق بھی حاصل ہے۔ پاکستان کی اپنے ہمسایوں افغانستان‘ ایران‘ چین اور بھارت کے ساتھ سرحدیں انگریز دور کی ہیں‘ بس ان افغانوں نے خواہ مخواہ کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔