"IAS" (space) message & send to 7575

فساد فی الارض کیوں؟

پاکستان اور افغانستان سمیت دنیا میں جہاں بھی فرقہ وفساد اور تخریب کاری ہے اس میں نام نہاد مذہبی طبقہ بدرجہ اتم ملوث ہے۔ تخریب کاری اور فساد فی الارض ایک ایسا الزام ہے جسے کوئی بھی جماعت یا شخص قبول کرنے کے لیے تیار نہیں‘ اور جو لوگ واقعی مفسد ہیں وہ بھی اپنے کرتوت دوسروں کے سر دھرتے نظر آتے ہیں‘ اپنی کوتاہی اور غلطی کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ خود کو ریفارمر اور اصلاح کار بھی کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں (آیت: 11) ۔شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ''دین فروش ملا کے نام‘‘ ایک فارسی نظم میں لکھا تھا:
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
تقریباً ایک صدی قبل شاعر مشرق نے اپنے فارسی کلام میں جو کچھ کہا آج صد فیصد درست ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ہمارا ملا مومنوں کو کافر بنانے پر لگا ہوا ہے۔ یہ کم نگاہ‘ کم سمجھ اور ہرزہ گرد ہے‘ جس کی وجہ سے آج ملت فرد فرد میں بٹ گئی ہے‘ مکتب‘ مُلا اور اسرارِ قرآن کا تعلق ایسا ہی ہے جو کسی پیدائشی اندھے کا سورج کی روشنی سے ہوتا ہے۔ آج کافر کا دین فکر اور تدبیرِ جہاد (جہد مسلسل) ہے اور یہ زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کرنے کا نام ہے جبکہ ہمارے ملا کا دین صرف فی سبیل اللہ فساد ہے‘ جس کو میں فساد فی الارض لکھوں تو بے جا نہ ہو گا۔ علامہ اقبال نے ان ملاؤں کو ایک صدی پہلے ہی پہچان لیا تھا مگر آج دورِ جدیدکے لوگ ان کو پہچاننے سے پتا نہیں کیوں معذور ہیں۔ ایک دوسری جگہ ''ساقی نامہ‘‘ میں علامہ اقبال یوں گویا ہیں:
تمدن‘ تصوف‘ شریعت‘ کلام؍بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی؍یہ امت روایات میں کھو گئی
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آج حقیقت خرافات اور امت رویات میں کھو چکی ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جگہ جگہ ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے‘ فرماتے ہیں:دلِ زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج؍ بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور٭ احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ؍ ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور٭ الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن؍ مُلّا کی اذاں اور‘ مجاہد کی اذاں اور
بیشک اذان ایک ہے۔ زبان الفاظ اور متن کے اعتبار سے ملا جو اذان دیتا ہے وہی اذان مجاہد بھی دیتا ہے لیکن ان میں فرق نیت اور کردار کا ہے۔ اس کے الفاظ اور معنی میں کچھ فرق نہیں لیکن دیکھو ملا کی زبان پر اذان کی حیثیت ایک ہوتی ہے اور مجاہد کی زبان پر بالکل دوسری۔ مراد یہ ہے کہ ملا صرف اذان کے الفاظ بولتا ہے اور ان کے عام معنی سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک اذان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں لیکن مجاہد اس زندگی کی ہر شے خدا کی راہ میں بلا تامل قربان کر دینے کا ارادہ لے کر اٹھتا ہے۔ وہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے رزق حلال کمانے کے لیے میدانِ عمل میں نکلتا ہے۔ اس کی زبان پر یہ اذان جاری ہو گی تو اس کا رنگ قوتِ ایمان کی بدولت بالکل دوسرا ہو جائے گا۔ ملا محض زبان سے الفاظ ادا کرتا ہے لیکن اذان کی روح حلق سے نیچے نہیں اترتی۔ مجاہد کی زبان پر اذان جاری ہوتی ہے تو وہ براہ راست قلب کی گہرائیوں سے اُٹھ کر آتی ہے۔ ملا جو اذان دیتا ہے تو محض اس کا تعلق زبان اور حلق سے ہوتا ہے۔ روحانی سطح پر اس کا اذان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ گویا اس کا عمل محض دکھاوے کیلئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مجاہد کی اذان دل سے برآمد ہوتی ہے اور اس اذان میں قوتِ ایمان بھی کارفرما ہوتی ہے۔ حالتِ امن ہو یا میدانِ کارزار اس کی اذان نفسِ مطمئن کی مظہر ہوتی ہے‘ یہی ملا اور مجاہد کی اذان میں فرق ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے ایک خدا کو چھوڑ کر بہت سے نام نہاد پیروں اور ملاؤں کو پیشوا بنا لیا ہے۔ ہم میں توحید کی اصل روح اور قوت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ علامہ اقبال بھی اسی بات کا رونا روتے نظر آتے ہیں:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے‘ فقط اک مسئلہ علم کلام
روشن اس ضَو سے اگر ظلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
اللہ تعالیٰ نے تو بغاوت سے منع فرمایا ہے مگر ہمارے ملا آئے روز بغاوت کو اپنا شعار بنائے رہتے ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے ایسے پریشر گروپ بنا رکھے ہیں جو نظام مملکت کو چلنے ہی نہیں دیتے۔ کبھی ایک گروپ باہر نکل آتا ہے اور کبھی دوسرا۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوتے ہیں لیکن ایک گملا نہیں ٹوٹتا‘ پتا نہیں گرتا‘ ہمارے ہاں لاشیں گر رہی ہیں۔ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن کسی کو املاک کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق نہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ فلسطینی خوشیاں منا رہے ہیں اور یہ احتجاج کر رہے ہیں۔ جنگ بندی پر فلسطینی سجدہ ریز ہوئے اور ہمارے ملک میں پُرتشدد احتجاج شروع کر دیے گئے جس کے دوران متعدد لوگ جان سے گئے اور سینکڑوں شدید زخمی ہوئے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس امر کو مسلم لیگ کا کارنامہ قرار دیا تھا کہ اس نے عوام کواس رجعت پسند اور تنگ نظر گروہ کی جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیا ہے جسے مولوی کہتے ہیں۔ قائداعظم نے باور کرایا تھا کہ پاکستان میں Theocracy یعنی مذہبی پیشواؤں کی حکومت اور اجارہ داری نہیں ہو گی کہ وہ بزعمِ خویش خدائی مشن کے ٹھیکیدار بن جائیں۔ بدقسمتی سے اس پاکستان کا خواب قائداعظم کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ آج ہمارے ہاں نام نہاد ملا انتشار اور فساد فی الارض کا باعث بن رہے ہیں اور اس آگ کا ایندھن قوم بن رہی ہے۔ ہمیں قانون شکنی کا سبق نہ تو قرآن سے ملتا ہے نہ ہی سنت مبارکہ سے‘ بلکہ ہمارے ماضی کی غلط کاریاں ہمارے حال کی حدود شکنی کیلئے جواز کا ایندھن فراہم کرتی ہیں۔ ہماری تاریخ کے بہت سے اوراق قانون شکنی اور خلافِ عدل سرگرمیوں کے داغوں سے آلودہ ہیں اورمسلمانوں کے مابین کشت وخون کا وہ بازار گرم ہوا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ کبھی کسی ملزم کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے کو 'غازی‘ گردانا جاتا ہے تو پھر فسادی اور شورش پسند کیوں نہ معتبر ٹھہریں؟بدقسمتی سے آج ملا وپیر کو اقبال اور جناح کے پاکستان میں خدائی عطا کر دی گئی ہے‘ وہ منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے‘ افسوس وہ محمد رسول اللہﷺ کے مقام سے کتنا بے خبر ہے۔ ہمارے لوگ صوفی وملا کی زنجیروں میں جکڑ ے جا چکے ہیں اور حکمتِ قرآن سے تو زندگی حاصل ہی نہیں کر پائے۔ علامہ اقبال بھی جا بجا صوفی و ملا کی مذمت کرتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہے۔
نہ فلسفی سے نہ مُلا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
بہ بندِ صوفی و ملا اسیری
حیات از حکمتِ قرآں نگیری

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں