منیر نیازی صاحب کو ایک نوجوان نے اپنی غزل سنائی تو انہوں نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس غزل کو اردو شاعری میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا۔ شامتِ اعمال کہ اگلے روز اس نوجوان نے وہ غزل حلقۂ اربابِ ذوق کے تنقیدی اجلاس میں پیش کر دی۔ اجلاس کے شرکا نے اس غزل کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا کہ اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور اسے شاعری کا ایک بدنما داغ قرار دیا۔ وہ لڑکا اگلے روز منہ بسورے منیر نیازی صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ یہ بہت اچھی غزل ہے مگر حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں تو اسے شاعری کا ایک بدنما داغ قرار دیا گیا ہے۔ منیر نیازی مسکرا کے بولے: بیٹا! اگر ماں کبھی پیار سے چاند کہہ دے تو مقابلہ حسن میں حصہ لینے نہیں چلے جاتے۔
منیر نیازی صاحب کی اس بات کے مصداق پاکستانی عوام بھی بہت سادہ ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایک تو پڑھنے لکھنے اور چیزوں کو پر کھنے کا رواج نہیں اور دوسرا عوام جذباتی طور پر لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ عوام کو جو بتایا گیا ہے وہی انہوں نے پلے باندھ لیا۔ مثلاً یہ کہ افغانستان ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے اور افغان ہمارے اسلامی بھائی ہیں‘ حالانکہ تاریخ کو دیکھا جائے تو افغانوں کی موجودہ پاکستانی علاقوں کے ساتھ ہمیشہ سے مخاصمت رہی ہے۔ انہوں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے امن کو تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسی ہزار سے زائد معصوم شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ پاکستان کی معیشت کو اربوں روپے کا نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
پاکستان اور امریکہ نے مل کر سپر پاور سوویت یونین سے جنگ لڑنا تھی‘ اس لیے ہم نے لاڈ پیار میں کہہ دیا کہ افغان بڑے بہادر لوگ ہیں‘ افغانستان سپر پاور کا قبرستان ثابت ہوگا۔ معلوم نہیں ہم افغانستان اور افغانوں کے بارے میں کیا کچھ کہتے رہے؛ جیسے: افغان باقی‘ کہسار باقی۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ایسا سمجھ بیٹھے لیکن حقیقت میں افغانوں نے نہ تو روس کو شکست دی تھی اور نہ ہی انہوں نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ تاریخ میں اگر جائیں تو نہ انہوں نے سکندر یونانی کو شکست سے دوچار کیا نہ انہوں نے چنگیز خان سے دو دو ہاتھ کیے۔ نہ انہوں نے موریا خاندان کے چندرگپت موریا کو شکست دی اور نہ ہی انہوں نے رنجیت سنگھ کوشکست دی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانوں نے آج تک کسی کو شکست نہیں دی۔
25 دسمبر 1979ء کو افغان کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر جب روس نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کی تھیں تو 'میڈ اِن پاکستان‘ مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ لڑی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکہ کا مقصد پاکستان کی خدمت نہیں بلکہ سوویت یونین کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف خوب استعمال کیا۔ امریکی سی آئی اے‘ سعودی عرب اور کچھ دیگر ممالک نے اس دوران اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ امریکی سپانسرڈ اس 'جہاد‘ کی بدولت روس کو 1989ء میں افغانستان سے مکمل انخلا کرنا پڑا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی جنگ تھی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ روس کو افغانوں نے ہرگز شکست نہیں دی۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر روس کو شکست دی۔ پھر جب افغانستان میں افغانوں کی آپس میں لڑائی شروع ہوئی تو پاکستان نے وہاں پہلے ہی سے مجاہدین تیار کر رکھے تھے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ افغان ناقابلِ اعتبار قوم ہے اس لیے افغان طالبان پر اعتبار کرنا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں بھی انہوں نے کسی وعدے کا پاس نہیں کیا۔ شیخ سعدی سے منسوب ایک قطعے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کبھی افراد کا قحط پڑ جائے تو بھی تین قسم کے افراد کی دوستی سے پرہیز کرنا؛ ان میں سے سب سے پہلی قسم کے لوگ افغان ہیں۔ افغانوں سے مذاکرات محض وقت کا ضیاع ہے۔ جب تک بھارت ان پر ڈالرز کی برسات کرتا رہے گا‘ ان کی پالیسی یہی رہے گی۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت افغانستان کو آگے دھکیل رہا ہے‘ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں تنائو برقرار رہے تاکہ اسے اپنا مکروہ اور گھنائوناکھیل کھیلنے کا موقع میسر رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی بھارت کے ایما پر افغانستان نے پاکستان کے خلاف چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی۔ افغانستان واحد ملک ہے جس کے نمائندے نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ آج بھی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تنائو سے اگر کوئی واقعی خوش ہے تو یقینی طور پر وہ بھارت ہے‘ جو مئی میں ہم سے شکست کھانے کے بعد سے تلملا رہا ہے اور تب سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے بے تحاشا پیسہ خرچ کر رہا ہے۔ اب وہ افغانستان کو استعمال کر رہا ہے۔ بھارت مسلسل افغان حکمرانوں کو پاکستان کے خلاف اُکساتا رہا اور وہ بھی بخوشی استعمال ہوتے رہے۔
پاکستان اور افغانستان کی چپقلش کے تاریخی پس منظر میں ڈیورنڈ لائن کا بہت ذکر آتا ہے۔ درحقیقت جب پورے ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اس وقت عملی طور پر کابل کے حکمران بھی وہی تھے۔ انہوں نے افغانستان کو دوسری ریاستوں کی طرح خودمختاری دی ہوئی تھی اور افغانستان کا حکمران امیر عبدالرحمن انگریز سرکار سے وظیفہ لیتا تھا۔ ہمارے کچھ دیسی قسم کے دانشور اُن کو فاتح قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ فاتح تھے تو انگریز سے وظیفہ کس بات کا ملتا تھا؟ افغان حکمرانوں نے ہر دور میں عملاً ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد مانا ہے مگر شرارتاً یا بھارت کے اکسانے پر وہ یہ شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ کہ ہماری سرحد تو اٹک تک ہے۔ ہندوستان یا بعد میں برٹش انڈیا کی کابل تک حکمرانی مسلّم ہے مگر ہم نے تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کابل تک کا علاقہ ہمارا ہے۔ اب تو یہ ثابت ہو گیا ہے کہ افغان طالبان نے اسلام کا محض لبادہ اوڑھا ہوا ہے‘ ورنہ اسلامی شعائر کی کھلم کھلا پامالی جس طرح وہ کر رہے ہیں دنیا کے کسی دوسرے مسلم ملک میں ایسا نہیں ہو رہا۔ اگر ان کو اسلام سے ذرا بھی نسبت ہوتی تو وہ لوگوں کو خودکشی‘ جو اسلام میں سراسر حرام ہے‘ کے راستے پر ہرگز نہ لگاتے۔
قیام پاکستان کے بعد بیس سال تک افغان سرحد پر مسلسل ہمیں تنگ کیا جاتا رہا۔ پاکستان پر یہ بات اسی وقت واضح ہو گئی تھی کہ جب تک ہم نے ان کوکوئی معقول جواب نہ دیا یہ لوگ رکنے والے نہیں۔ بھٹو حکومت آئی تو انہوں نے سوچا کہ ان کو جواب کیسے دیں لہٰذا وہاں پر 'مجاہدین‘ پیدا کیے گئے اور پھر یہ مجاہدین ہی ہمارے گلے پڑ گئے۔ عافیت اسی میں ہے کہ دونوں جانب سے مداخلت کی پالیسی بند کی جائے۔
جب سے تحریک طالبان افغان اقتدار پر قابض ہوئی ہے‘ اس نے ٹی ٹی پی کو اپنا ہتھیار بنا رکھا ہے اور اس کو مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک چھوٹا گروپ پاکستان میں خودکش دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور بڑا گروپ انکار کر دیتا ہے۔ یہ لوگ مدتوں سے پاکستانیوں کا خون بہاتے اور پاکستان کو کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ الٹا پاکستان سے مدد بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پہلے افغانستان نے پاکستان کو تنگ کیا‘ پھر پاکستان نے جواباً افغانستان کا ادھار چکتا کیا۔ اب پھر افغانستان کی جانب سے پاکستان کو تنگ کیا جا رہا ہے اور پاکستان ایک بار پھر تاریخ کو دہرانے کیلئے تیار ہے۔