"IAS" (space) message & send to 7575

انتہا پسندی اور عصبیت امت کیلئے زہر قاتل

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر عمیق نظر ڈالی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مذہب کو بار بار سیاست کیلئے استعمال کیا گیا اور بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس میں سب سے بڑی لغزش ریاست کے مقتدر حلقوں میں کی طرف سے کی گئی کہ ا نہوں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے نام نہاد رہنماؤں کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ ان کو کھلی چھٹی دی اور کئی مواقع پر ان کو پروان بھی چڑھایا گیا۔
دنیا کا کوئی مذہب آپس میں نفرت‘ عداوت‘ دشمنی‘ کینہ‘ حسد اور بیر رکھنا نہیں سکھاتا بلکہ مذہب آپس میں محبت‘ پیار‘ امن اور رواداری کی تلقین کرتا ہے جیسا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی کہا ہے کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘ مگر بدقسمتی سے نام نہاد مذہبی رہنماؤں‘ گروہوں اور قوتوں نے عوامی ذہنوں میں نفرت اور تشدد کے ایسے بیج بوئے جنہوں نے معاشرتی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کر دیا اور معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہی وہ جتھے اور گروہ تھے جو مذہب کے نام پر گلیوں بازاروں میں ہنگامہ آرائی کرتے رہے‘ راستوں اور سڑکوں کی بندش کے ساتھ تشدد کو عبادت کا درجہ دیتے رہے۔ انہی نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے اختلافِ رائے رکھنے والوں کو علی الاعلان کافر‘ غدار اور واجب القتل قرار دے کر پاکستانی معاشرے کو فکری انتشار کی طرف دھکیل دیا اور اپنے ساتھ کھڑا نہ ہونے والے لوگوں کو ڈراتے رہے بلکہ ڈرا رہے ہیں۔ عوام واقعی ان سے خوف زدہ تھے۔ افتخار عارف نے بھی اس خوف کو شدت سے محسوس کیا ہے:
شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
رحمتِ سید لولاکؐ پہ کامل ایمان
امتِ سید لولاکؐ سے خوف آتا ہے
اسلام امن کا دین ہے۔ یہ محبت‘ رواداری اور ایثار کا درس دیتا ہے‘ اسی لیے یہ معاشرے میں نفرت‘ ظلم‘ زیادتی‘ تشدد‘ ریاکاری اور جبر کی بنیاد پر اٹھنے والی آوازوں کو بالکل بھی قبول نہیں کرتا‘ لہٰذا مجھے یہ کہنے میں کچھ عار محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ مذہب کو اپنی طاقت‘ سیاست یا پھر انتقام کا ذریعہ بناتے ہیں وہ دراصل دین اسلام کی نہیں اپنے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسے نام نہاد مذہبی عناصر نہ صرف مذہب کی حرمت کو مجروح کرتے ہیں بلکہ ریاست کے وقار اور معاشرتی امن کے سب سے بڑے اور بدترین دشمن بھی ہیں۔ یہ عناصر اپنی تعلیمات سے لوگوں کو دین اور اللہ سے قریب کرنے کی بجائے دور کر رہے ہیں۔ سرفراز بزمی نے ٹھیک کہا :
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی‘ اولاد بھی‘ جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا‘ نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
کوئی بھی اصلاحی کام صرف اُس وقت اصلاحی ہوتا ہے جب وہ امن اور انسانیت کے دائرے میں کیا جائے۔ اصلاح کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ کام غلط ہے جو سماجی امن کو درہم برہم کرے‘ جس کے نتیجے میں جان اور مال کی تباہی آئے۔ اصلاح کو اپنے نتیجے کے اعتبار سے بھی اصلاح ہونا چاہیے۔ جو اصلاح اپنے نتیجے کے اعتبار سے فساد ہو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی فساد ہے خواہ اس کو کتنے ہی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو اور دین کے نام پر ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ تعصب اپنی تمام اشکال میں مذہبی انتہا پسندی کی طرح ہے۔ یہ دونوں مذہب اور زندگی میں فساد بپا کرتے ہیں اور دونوں معاشرتی امن کو نقصان پہنچاتے اور ملکوں میں نفرت اور فساد پھیلاتے ہیں۔ مسلم امت اور اس کی شریعتِ مطہرہ کو اعتدال پسند قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا تاکہ لوگوں پر تم گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں‘‘ (البقرہ: 143)۔
مذہبی انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ فرقہ واریت ہے۔ ہر جماعت اپنی شناخت اور انفرادیت کے لیے دوسرے سے ممتاز ہونا چاہتی ہے اور خود کو متبع حق سمجھتے ہوئے دوسروں کو راہِ راست سے دور سمجھتی ہے اور بسا اوقات اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ دوسروں کی تکفیر کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ فرقہ واریت کے اس رویے سے عدم برداشت اور انتہا پرستی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں‘ جبکہ قرآن وحدیث میں فرقہ پرستی کی کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام فرقہ واریت سے منع کرتا ہے مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ خود کو مسلمان کہلواتے ہیں مگر قرآن وسنت کے بیان کردہ احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج امتِ مسلمہ ان مسائل کے گرداب میں پھنس چکی ہے جو نقصان اور خُسران کی طرف لے جا رہے ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی اور عصبیت کو شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کو ترقی سے محروم کرنے اور اسے رذیل خواہشات اور مفادات کی طرف دھکیلنے کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں جو وسعت اور اعتدال پسندی کا تناسب ہے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مذہبی تعلیمات اور معاملات کو ایسی انتہا کی بھینٹ چڑھا دینا جو روحِ شریعت سے متصادم ہو‘ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ بعض مذہبی معاملات جن میں بحث ومباحثہ کی گنجائش ہے اور وہ غور وفکر کے متقاضی ہیں۔ ان میں صرف اپنی رائے کو بہتر سمجھتے ہوئے دوسروں کی رائے کو مکمل طور پر باطل قرار دینا یا اختلافِ رائے کی صورت میں مرنے مارنے پر اُتر آنا یا اس کی دھمکیاں دینا بھی مذہبی انتہا پسندی ہے۔ امت مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے ان میں ایک اہم مسئلہ مذہبی انتہا پسندی ہے جس کی وجہ سے امن عامہ کا بُری طرح متاثر ہونا‘ عدم برداشت‘ رواداری کا فقدان اور دیگر خوفناک مسائل پیدا ہو گئے ہیں جو حکومت اور ریاست کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔
اب جب ریاست کے مقتدر حلقوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ یہ فتنہ ناقابل اصلاح ہو چکا ہے تو ریاست کے سامنے فیصلہ کن لمحہ آن کھڑا ہوا کہ اس کا علاج ضروری ہے‘ ورنہ یہ کینسر معاشرے کے بعد ریاست کو بھی لے ڈوبے گا۔ نام نہاد مذہبی رہنماؤں اور انتہا پسند گروہوں کو اگر اب بھی برداشت کیا گیا یا ان کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھا گیا تو یہ ناسور معاشرے میں مزید پھیل جائے گا۔ اس لیے اب ریاست‘ مذہب اور معاشرے کو اس فتنے اور فساد سے پاک کرنا ہوگا۔ یہی اس کاشافی علاج ہے جو ملکی‘ معاشرتی بقا اور ریاستی استحکام کی ضمانت ہے‘ لہٰذا اب جب ملکی حالات کا رخ بدلا ہے ریاست کو بھی ہوش آ گئی ہے۔ ریاستی اداروں نے ان نام نہاد مذہبی عناصر کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے تو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں اس نیک کام کو ہر ممکن حد تک مکمل کرنا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے ضروری قانون سازی بھی کرنے کی ضرورت ہے اور اگر موجودہ قانون میں کوئی سقم ہے تو اس کو بھی دور کرنا چاہیے۔ ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں اپنے ملک کو انتہاپسندی اورشدت پسندی کا اکھاڑہ بننے سے بچانا ہو گا اور اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہر دوسرے مہینے کوئی مذہبی جتھا حکومت اور ریاست کو چیلنج کرنے کی جرأت نہ کرے۔ اگر ہم نیک نیتی سے اس کام میں لگ جائیں تو اس فتنے اور فساد کی جڑ کو اکھاڑ پھینکنا کوئی مشکل نہیں۔ بقول شاعر:
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں