آج کل پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مشترکہ دفاعی معاہدہ ہر جگہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اور پاکستان میں اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اس معاہدے کے ہمہ جہت پہلو ہیںجن میں سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی‘ زرعی‘ تاریخی‘ داخلی‘ خارجی‘ علاقائی اور عالمی پہلو بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جو دفاعی معاملات میں تعاون اور سلامتی سے متعلق باہمی دفاع کا سٹرٹیجک معاہدہ ہوا ہے اس کا مقصد سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ اور کسی بھی جارحیت کیخلاف مشترکہ ڈیٹرنس کو بڑھانا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے مشترکہ دفاعی معاہدے نے بہت سے ممالک کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ اکثر دفاعی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سٹریٹجک معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اور خطے میں اسرائیلی غیر انسانی عزائم کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اس خطے اور دنیا کی بڑی طاقتیں انتہائی پیچیدہ صورتحال سے گزر رہی ہیں۔
پچھلی کئی دہائیوں سے امریکہ اور چھ خلیجی ریاستوں؛ بحرین‘ کویت‘ عمان‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ چلا آ رہا ہے۔ اس کے تحت امریکہ تیل اور گیس کی فراہمی کے عوض ان چھ ملکوں کو سکیورٹی ضمانت دینے کا پابند ہے۔ اس معاہدے کی بنیاد میں پہلی دراڑ اُس وقت پڑی جب ایران نواز حوثیوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملے کیے۔ اس پر امریکہ کی جانب سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہ آیا اور اُس نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اب امریکی چھتری تلے اسرائیل کے قطر پر حملے نے اس معاہدے کو مزید ٹھیس پہنچائی ہے جس نے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کو چوکس کر دیا ہے۔ خلیجی ریاستیں اب نہ صرف اس بات کی ضمانت مانگ رہی ہیں کہ اسرائیل قطر یا کسی دوسرے ملک کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں دہرائے گا بلکہ یہ اب اس سے بھی زیادہ قابلِ اعتماد اور طویل مدتی سلامتی کی ضمانتیں مانگ رہی ہیں‘ لیکن امریکہ کی طرف سے کوئی ٹھوس ضمانت نہ ملنے پر موجودہ علاقائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے اپنے دوست اور قابلِ بھروسا اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ ناگزیر سمجھا ہے کیونکہ سعودی عرب اب اپنی سلامتی یا سٹریٹجک مسائل کیلئے کسی ایک اتحادی پر انحصار نہیں کرنا چاہتا‘ اس لیے اس نے اپنے اتحاد کو وسعت دینا ضروری سمجھا ہے۔
کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ سعودی عرب کو اس وقت سکیورٹی کی ضرورت ہے اور پاکستان کو سرمایہ کاری کی۔ سعودی عرب کے پاس تیل سے حاصل ہونے والی دولت ہے لیکن اپنا اور ملک وقوم کا تحفظ کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز نہیں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس ہر طرح کی سکیورٹی ہے لیکن بدقسمتی سے معاشی حالت بہت اچھی نہیں ہے‘ اس لیے اس کو سرمائے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ اس معاہدے سے پاکستان کے وارے نیارے ہو جانے کی امید ہے۔ اگر سعودی عرب پاکستان میں صرف 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر دے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے اور سعودی عرب کو بھی پاکستان سے خاطر خواہ فوائد حاصل ہوں گے۔ اس 300 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 10 ارب ڈالرز تعلیم پر خرچ کیے جائیں اور 10 ارب ڈالرز ٹیکنیکل ایجوکیشن پر لگائے جائیں‘ 50 ارب ڈالرز دفاعی اداروں پر خرچ کیے جائیں اور 10 ارب ڈالرز سیلاب زدہ لوگوں کیلئے مختص کر دیے جائیں۔ اگر 20 ارب ڈالرز ڈیم بنانے پرصرف کر دیے جائیں تو ملک بھر کی بجلی کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور پانی سے سستی بجلی پیدا ہو گی۔ صرف 10 ارب ڈالرز صحت کے شعبے پرخرچ کرنے سے پاکستان کے عوام کو صحت کی بہترین سہولتیں میسر آ سکتی ہیں۔ 50 ارب ڈالرز دفاعی ریسرچ پر خرچ کرنے سے پاکستان کی دفاعی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ 50 ارب ڈالرز زراعت کی ریسرچ پر خرچ کرنے سے پاکستان سعودی عرب کو ہر زرعی جنس فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گا اور دونوں ممالک میں گندم سے لے کر ہر قسم کی سبزی اور پھل وافر ہونے کے باعث ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں گے۔ 90 ارب ڈالرز پاکستان میں غربت ختم کرنے پر صرف کرکے غریب عوام کی قابلِ رحم حالت کو قابلِ رشک بنایا جا سکتا ہے کیونکہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت غربت کی شرح بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس طر ح کل 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے پاکستان نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا بلکہ ترقی کی شاہراہ پر سر پٹ دورنے لگے گا۔
اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری کو کرپشن کی نذر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسکو اچھے طریقے سے استعمال کرکے معاملات کو حل کرنا ہو گا۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اداروں سے جو نوجوان تربیت اور ہنر حاصل کریں گے انکو سعودی عرب میں بہترین روزگار حاصل ہوگا اور اس سے سعودی عرب کو بھی سستی لیبر میسر آئے گی۔ ہمارے ہاں سسٹم کی خرابی کے باعث ہر منصوبہ بدانتظامی‘ نااہلی اورکرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ملکی اور قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے طور طریقے دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر احمد فراز نے کہا تھا: رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں؍ کب‘ کہاں پہ لُٹ جائے قافلہ نہیں معلوم۔
2001ء کی بات ہے‘ ہمارے گاؤں میں ایک چاچا بوٹا رہتا تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ دوپہر کو وہ گاؤں کے باہر برگد کے درخت کے نیچے سوتا تھا۔ وہ چھوٹے موٹے فراڈ کرتا تھا‘ اکثر چوری چکاری بھی کر لیتا۔ لوگ اس سے بہت تنگ تھے کیونکہ اس کے تین‘ چار جوان بیٹے تھے اور سب سے چھوٹا بیٹا بدمعاش اور بدقماش قسم کا لڑکا تھا جس کی وجہ سے چاچا بوٹا علاقے میں بہت بدنام تھا۔ ایک دن وہ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور بتایا کہ بیرونِ ملک سے ایک پارٹی آئی ہے اور ایک زمین دس کروڑ روپے کی بیچ رہی ہے جبکہ زمین اصل میں تیس کروڑ روپے کی ہے۔ کروڑوں روپے اس کیلئے ایک نئی بات تھی کیونکہ اتنی بڑی رقم اس نے کبھی دیکھی نہیں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ پچاس لاکھ کا فوری طور بندوبست کر دیں‘ آپ کو بھی منافع ملے گا‘ میں چونکہ اس کی ہسٹری سے خوب واقف تھا اس لیے صاف انکار کر دیا۔ چاچا بوٹے نے ادھر اُدھر سے لوگوں کو زیادہ منافع کا لالچ دے کرکسی طرح پیسوں کا بندوبست کر لیا اور باہر سے آنے والی پارٹی سے دس کروڑ کی زمین لے لی اور آگے پچیس کروڑ روپے کی فروخت کر دی۔ زمین کی اصل قیمت تیس کروڑ روپے تھی لیکن پچیس کروڑ کی اس لیے فروخت ہوئی کہ اس کی ساکھ بہتر اور درست نہیں تھی۔ زمین کی فروخت سے پندرہ کروڑ روپے منافع ہوا‘ اس نے آہستہ آہستہ حصہ داروں سے ہاتھ کر کے ان کو الگ کرنا شروع کر دیا کہ ان کا یہ زمین خریدنے میں کوئی کردار نہیں اور وہ ان سب کے پیسے کھا گیا۔ پندرہ کروڑ روپے سے اس نے ایک نیا گھر اور اس کے ساتھ ڈیرہ بھی بنا لیا‘ نئی گاڑی بھی لے لی‘ اس نے علاقے کے ایس ایچ او کی دعوتیں اور پولیس کو کھلانا پلانا معمول بنا لیا۔ چاچے کا ڈیرہ چلنا شروع ہو گیا۔ مجھے جب یہ پتا چلا تو میں نے چاچا بوٹے کے پاس جاکر اس اسے کہا کہ اس کام سے باز آ جاؤ اور جن کا حق بنتا ہے‘ ان کو ان کا حق دو‘ لیکن وہ پیسے اُڑانے پر بضد رہا۔ آخرکار چار پانچ سال میں وہ سارے پیسے ختم ہو گئے اور چاچا بوٹا پھر برگد کے درخت کے نیچے آ گیا۔ چاچے بوٹے کی کہانی ملک عزیز کی کہانی ہے۔ اگر پاکستان کے حکمران چاہیں تو پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے سے ترقی کرکے اپنی قسمت بدل سکتا ہے‘ لیکن اگرحکمران نہ چاہیں گے تو غریب عوام کو کچھ بھی نہیں ملے گا اور انہیں چاچے بوٹے کی طرح برگد کے درخت کے نیچے ہی سونا پڑے گا۔