پاکستانیو! جو رکاوٹ ہے آپ کے سامنے، رکاوٹیں ہٹاؤ، پولیس اگر کھڑی ہے اور غیر قانونی کام کر رہی ہے، اگر آپ کو روک رہی ہے، ایک پرامن احتجاج سے، پولیس کو آگے سے ہٹا دو لیکن یہاں پہنچو، آج سے میں ٹیکس دوں گا نہ بجلی کے بل دوں گا نہ گیس کے بل دوں گا، نواز شریف تمہیں چھوڑیں گے نہیں‘ جب تک تم استعفیٰ نہیں دو گے، میں ان کو جیل بھجواؤں گا، میں ان کو رلاؤں گا، میں ان کو نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا، جس بادشاہ سے سفارش کروا لیں، جہاں مرضی جائیں، جس کے گھٹنے دبائیں، این آر او نہیں دوں گا۔
کئی بار سماعتوں سے ٹکرانے والے یہ الفاظ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایسا سیاسی بیانیہ ہے جس نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس بیانیے سے آنے والی تبدیلیوں کو کچھ لوگوں نے انقلاب سے تعبیر کیا۔ سپنوں کے محل تعمیر ہوئے، اس مبینہ انقلاب کے اثرات کو وقت سے پہلے بھانپ لینے والوں نے اس کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا تو انہیں چوروں، لٹیروں کا ساتھی کہا گیا۔ چودہ ماہ تک سپنوں کا یہ محل قائم رہا۔ عوام اس طلسم ہوش ربا میں کھوئے رہے۔ معاشی خوشحالی، ہر کسی کے لیے چھت، روزگار، انصاف کا یہ سپنا اب صرف دو واقعات کی بنا پر بہت سے لوگوں کے لیے ریت کا گھروندا ثابت ہو رہا ہے۔
ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور ایک بہن کو گولیوں سے چھلنی کرنے والے اہلکار عدالتوں سے بری ہوئے تو تحریک انصاف سے امیدیں رکھنے والوں کو دھچکا لگا، کچھ نے برسر عام اس کا اعتراف کیا اور حکمران جماعت کے دفاع سے دستبردار ہو گئے، کچھ مایوسی کے باوجود تاویلیں گھڑنے لگے کہ مدعی ہی جب پیچھے ہٹ گیا تو حکومت کیا کرتی۔ دوسرا واقعہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت ملنے کا ہے۔ جنہیں این آر او نہ دینے، اپوزیشن کو رلانے کے نعروں سے تسکین ملتی تھی، انہیں اس سے بھی بڑا دھچکا لگا لیکن تاویلیں ایک بار پھر گھڑی گئیں اور کی بورڈ واریئرز عدالتوں پر نشانے سادھ کر بیٹھ گئے۔
کیمبرج یونیورسٹی نے حال ہی میں سیاست میں بے لچک سیاسی رویوں پر ایک تحقیق کی ہے جس میں امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سات سو رضا کاروں کو شامل کیا گیا۔ ان رضا کاروں کو ان کی پارٹی کے موقف کے حوالے سے سوالات دیئے گئے، کئی طرح کے ٹاسک دیئے گئے اور نتائج امیدوں کے مطابق نکلے۔ جو رضا کار پارٹی قیادت سے جس قدر زیادہ وابستہ تھا اس کا موقف اتنا ہی بے لچک تھا لیکن جس رضاکار کی وابستگی کم یا کمزور تھی اس میں کچھ نہ کچھ لچک موجود تھی۔ اسی طرح کی ایک تحقیق ہیوسٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر الیگزینڈر سٹیورٹ اور ان کے ساتھیوں نے کی۔ اس سائنسدان نے ایک محدود سوشل نیٹ ورک بنایا۔ اس سوشل نیٹ ورک کے ڈھائی ہزار ارکان کو دو پارٹیوں میں تقسیم کر کے انہیں کہا گیا کہ جس گروپ کو فتح ملے گی اس کے ارکان کو انعامات ملیں گے، فتح کا مارجن جتنا زیادہ ہو گا انعام بھی اتنے زیادہ ہوں گے، ووٹ برابر ہونے کی صورت میں کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔ سائنسدانوں نے اس نیٹ ورک میں کمپیوٹر بوٹس کو ٹاسک سونپا، جو ارکان کو ٹارگٹ کر کے ان تک سلیکٹڈ انفارمیشن پہنچا رہے تھے اور ان بوٹس نے اس چھوٹے سے الیکشن کے نتائج مرضی کے مطابق دیئے۔
امریکا میں صدر ٹرمپ کی دوسری مدت کے لیے الیکشن مہم کے دوران ہلیری جھوٹی، اسے پکڑ کر جیل میں ڈالو، کے نعروں کے بعد سیاسی کارکنوں کے رویوں میں جو شدت آئی‘ اس نے امریکی ماہرین نفسیات کو اس طرح کی تحقیقات پر مجبور کیا ہے۔ الیکشن پر کی بورڈ واریئرز کی پھیلائی گئی ڈس انفارمیشن بے لچک رویوں کے مالک سیاسی کارکنوں کو مزید شدت اور انتہا پسندی پر ابھارتی ہے اور الیکشن نتائج پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان بھی گلوبل ولیج کا حصہ ہے اور دنیا بھر میں پھیلتی سیاسی انتہا پسندی سے محفوظ نہیں۔
دو ہزار اٹھارہ میں آنے والا انقلاب بھی کی بورڈ واریئرز کا انقلاب تھا جنہیں الیکٹرانک میڈیا سے مرضی کی فیڈ بیک مل رہی تھی۔ حالیہ دو واقعات کے بعد کی بورڈ واریئرز پھر میدان میں ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہو گئی ہے اور ماحول بھی ان کے موافق نہیں رہا۔ حکومت سے باہر رہ کر اصلاحات کے نعرے لگانا اور حکومت میں آ کر کچھ کر دکھانا دو الگ میدان ہیں۔ جب تک اصلاحات کے نعرے لگتے رہے ان کی بورڈ واریئرز کو کوئی مشکل درپیش نہیں تھی لیکن اب حکومتی کارکردگی کا دفاع کرنا ان کی بورڈ واریئرز کے لیے آسان ٹاسک نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کے آغاز سے پہلے نواز شریف کی دوران حراست علالت نے کپتان کو بھی دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ جو پہلے کہتے تھے، این آر او نہیں دوں گا، اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ استعفیٰ نہیں دوں گا۔ امپائر کی انگلی کے بھروسے لانگ مارچ اور دھرنا دینے والے اب خوفزدہ نظر آتے ہیں، انہیں بھی یہ خدشہ ستا رہا ہے کہ اچانک سے لانگ مارچ اور دھرنے پر ڈٹ جانے والوں کے پیچھے بھی کوئی ڈوریاں تو نہیں ہلا رہا۔
حکمران جماعت کے کی بورڈ واریئرز این آر او کا شور مچا کر انصاف کی دیوی کے چہرے پر کالک پوتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انصاف کے دعویدار اگر عدالتی این آر او کا شور مچائیں گے تو کالک کس کے حصے میں آئے گی؟ یہ الجبرا کا کوئی مشکل سوال نہیں۔ دراصل یہ کی بورڈ واریئرز اپنے لیڈر اور اس کے دکھائے سپنوں سے اس قدر جڑ گئے ہیں کہ وہ بھی اپنے لیڈر کی طرح بے لچک سیاسی رویوں کے مالک بن گئے ہیں۔
بے لچک سیاسی رویّوں کے ساتھ اپوزیشن کرنے اور پھر حکومت بنانے والے اب اپنے ہی دام کا شکار ہو چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس بے لچک سیاست کا اظہار دونوں طرف سے ہونے کے آثار ہیں۔ شخصیت پرستی کی سیاست سے بیزار ہو کر تحریک انصاف کے ووٹر بننے والے خود شخصیت پرستی کا شکار ہو چکے ہیں۔
شخصیت پرستی سے بات آگے بڑھ کر اب سیاسی انتہا پسندی کو پہنچ چکی ہے۔ سیاسی انتہا پسندی کیا ہے؟ اپنے لیڈر سے دیوانہ وار عشق، مخالف لیڈروں سے شدید نفرت، اپنے سیاسی تعصبات میں اندھا ہو کر ان حقائق کو دیکھنے سے بھی انکار کردینا جو اندھوں کو بھی نظر آرہے ہوں، ہر معقول بات کو سنی ان سنی کر دینا، ہر اخلاقی قدر کو پامال کر کے پروپیگنڈا کرنا، دوسروں کی پرخلوص اور معقول بات سنے اور سمجھے بغیر یک طرفہ طور پر اپنی بات کہتے چلے جانا۔
نواز شریف کو عدالت سے ملنے والے ریلیف میں حکمرانوں کی مرضی بھی شامل ہے جن کے بنائے میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی ضمانت میں کردار ادا کیا۔ نواز شریف کی خرابیٔ صحت کو چند دن پہلے تک ڈرامہ کہنے والے اب ڈر رہے ہیں کہ کوئی حادثہ ان کی سیاسی بساط ہی نہ لپیٹ دے لیکن اس عدالتی ریلیف میں اپنا کردار تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں۔
سیاسی انتہا پسندی اور بے لچک رویوں کی بہترین مثال برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ ہے۔ بریگزٹ پر تئیس جون دو ہزار سولہ کو ریفرنڈم کے بعد سے برطانیہ کے سیاست دانوں کے بے لچک رویوں نے ملک کو بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ بغیر ڈیل علیحدگی سے برطانیہ کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن بریگزٹ کے حامی سات بار پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے دوران معاہدوں کو مسترد کر چکے ہیں۔ بریگزٹ کے حامی اس قدر بے لچک ہیں کہ وہ بغیر ڈیل بھی علیحدگی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بریگزٹ کے لیے طے کی گئی ایک ڈیڈ لائن گزر گئی ہے، اکتیس اکتوبر کو دوسری ڈیڈ لائن بھی گزرنے کو ہے لیکن برطانوی پارلیمان کسی فیصلے پر پہنچنے کی بجائے ایک اور الیکشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں بھی سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ کئی بار قوم بھگت چکی، ملک دو لخت ہوا، ایک وزیر اعظم پھانسی چڑھا، کئی سیاست دان فتووں کی بھینٹ چڑھے، سیاست دان قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار پائے۔ اب ایک بار پھر نفرت کی سیاست کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ سیاسی نفرت اور انتہا پسندی سے دوسروں کو میدان سے نکال باہر کرنے والے اب خود گھبرائے ہوئے ہیں۔ دو ہزار چودہ میں شروع ہونے والی نفرت اور تقسیم کی سیاست ختم ہونے کی بجائے اب دائرے کے سفر میں ہے۔