امن کا نوبل انعام پانے والی برما کی آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں ایک مقدمے میں پیش ہو رہی ہیں۔ مقدمہ ہے آنگ سان سوچی کے ہم وطن روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا۔ ہم وطن کہنا شاید آنگ سان سوچی کے موقف کے مطابق نہیں کیونکہ ان کا ملک دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو اپنا شہری تو کیا انسان ہی ماننے کو تیار نہیں۔
انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے پندرہ سال نظر بندی جھیلنے والی آنگ سان سوچی، دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں برما کی وزیر دفاع کی حیثیت سے برمی فوج کے ظلم و بربریت کے دفاع کے لیے موجود ہیں۔ پہلے دن کی کارروائی کے لیے آنگ سان سوچی جب عالمی عدالت انصاف پہنچیں تو عدالت کے باہر کھڑے صحافیوں نے قریب آنے کی اجازت نہ ہونے کے باوجود سوالات پوچھنے کی کوشش کی۔ دور سے کھڑے صحافی چلا چلا کر پوچھ رہے تھے کہ انسانی حقوق کیا ہوئے؟ اس عدالت میں برمی فوج کے اس ظلم کا دفاع کیسے کرو گی؟ کیا روہنگیا انسان نہیں یا ان کے کوئی حقوق نہیں؟
امن کا نوبل انعام رکھنے والی آنگ سان سوچی نے صحافیوں کی طرف توجہ نہ دی اور عدالت کے اندر داخل ہو گئیں۔ سترہ رکنی عدالت افریقہ کے ایک چھوٹے سے مسلم اکثریتی ملک گیمبیا کی درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔ گیمبیا کا اصل مقدمہ تو برمی مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کا ہے اور برمی فوج پر نسل کشی ثابت کرنے کا ہے‘ لیکن تین دن کی حالیہ کارروائی ان مسلمانوں کے خلاف جاری کارروائیاں رکوانے کے لیے ہے۔
گیمبیا کے وزیر انصاف عالمی عدالت انصاف میں وکیلوں کے ساتھ خود پیش ہوئے۔ گیمبیا کے وزیر انصاف ابوبکر تمبادو نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ برما سے یہ کہا جائے کہ وہ یہ قتل عام روک دے، ظلم و بربریت کے ان واقعات نے صدمہ پہنچایا اور اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، برما کو اپنے لوگوں کی نسل کشی سے روکا جائے۔
گیمبیا کے وزیر انصاف جب دنیا کی سب سے بڑی عدالت میں دنیا کی سب سے زیادہ ستائی گئی اقلیت کو بچانے کی دہائی دے رہے تھے تو امن کا سب سے بڑا ایوارڈ رکھنے والی آنگ سان سوچی کا چہرہ تاثرات سے خالی تھا۔ وزیر انصاف کے بعد مزید دو وکلا نے گیمبیا کی درخواست پر دلائل دیئے اور روہنگیا مسلمانوں کی درد ناک کہانی سنائی لیکن آنگ سان سوچی کا چہرہ سپاٹ رہا۔ آنگ سان سوچی اپنی باری پر دلائل دیں گی اور ان کے ساتھ گئی وکلا کی ٹیم بھی بات کرے گی، لیکن سوچتا ہوں کہ روہنگیا مسلمانوں پر برسوں سے ڈھائے گئے ظلم کا جواز کیا ہو سکتا ہے؟ آنگ سان سوچی کیا کہے گی؟ امن کے علم بردار اس مقدمے میں اپنے قبیلے کی سب سے ''قد آور‘‘ خاتون کو کیسے سنیں اور دیکھیں گے؟۔
روہنگیا کون ہیں اور ان کا مقدمہ کیا ہے؟ برما، جسے اب میانمار کہا جاتا ہے‘ بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، لاؤس اور چین کی سرحدوں سے لگتا ہے۔ برما کی تاریخ بھی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے زیادہ فرق نہیں۔ کالونیل دور میں بننے والی فوج، آج بھی اپنی سرحدوں میں بسنے والوں پر ریاست کے نام پر ظلم کرنے میں ماہر ہے۔
روہنگیا، سابق ارکان اور موجودہ رخائن میں موجود مسلمان گروہ ہے جو خود کو عرب جہاز رانوں کی نسل سے بتاتا ہے۔ ان کی تعداد اندازاً 10 لاکھ سے زائد ہے۔ 1982 کے برمی شہریت کے قانون کے مطابق، وہ لوگ جو 1823 کے بعد برٹش انڈیا کے کسی علاقے سے یہاں آئے، برما کے شہری نہیں ہیں۔ ان کو نہ تو سرکاری تعلیم کی سہولت مل سکتی ہے، نہ ہی سرکاری نوکری کی اور نہ ہی یہ عام شہری کی طرح آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ ان کو بنگلہ دیشی مہاجر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ، ان کے اپنے بیان کے مطابق اور بعض حوالوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ شاید 15ویں صدی سے یہاں آباد ہیں۔
اس طرح یہ دس لاکھ لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہے، جو کسی ریاست کے رہائشی نہیں۔ میانمار میں 1962 سے 2010 تک مارشل لا لگا رہا اور اس دوران کئی بار روہنگیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ نوے کی دہائی میں کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ بنگلہ دیش کے علاوہ یہ لوگ، پاکستان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں بھی پناہ گزین ہیں۔
میانمار کی حکومت 'روہنگیا‘ کی بجائے انہیں بنگالی ہی کہتی ہے اور وہاں یہ مختلف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق بدھ قوم پرستوں کے شدت پسند رویے کے ساتھ ساتھ انہیں برمی فوج کی طرف سے، قتل و غارت، قید، بد سلوکی اور دیگر مظالم کا بھی سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی انجمنیں ان مظالم کو 'انسانیت کے خلاف مظالم‘ قرار دے رہی ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کی دستاویزات کے مطابق فوج پر الزام ہے کہ اس نے روہنگیا کے خلاف اکتوبر 2016 سے بڑے پیمانے پر منظم طریقے سے کلیئرنس آپریشن شروع کیا۔ عدالت میں ان الزامات پر سماعت ہو گی کہ اس کلیئرنس کا مقصد بطور گروہ روہنگیا کو مکمل طور پر یا حصوں میں قتل، ریپ کرنا تھا اور کئی ایسی عمارتوں کو بھی آگ لگائی گئی جن میں لوگ موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بظاہر بہت سے الزامات کی تصدیق کی ہے۔ اگست میں آنے والی ایک رپورٹ میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ میانمار کے سپاہیوں کو روٹین میں اور منظم طور پر عورتوں، لڑکیوں، لڑکوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف ریپ، گینگ ریپ، تشدد اور زبردستی جنسی افعال کرنے کو کہا گیا۔
بین الاقوامی عدالت انصاف اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت ہے اور اس میں کیس کسی بھی رکن ملک کی طرف سے دائر کیا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ عدالت کسی فرد واحد کو سزا نہیں دے سکتی بلکہ یہ کام جرائم سے متعلق عالمی عدالت کا ہے۔ لیکن یہ مقدمہ کچھ حد تک 1991 میں امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کے بارے میں بھی ہے۔ سوچی اپریل 2016 یعنی روہنگیا کی نسل کشی کے الزامات سے پہلے سے میانمار کی سربراہ ہیں۔ ان کا ملکی فوج پر تو کوئی کنٹرول نہیں لیکن اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ان پر فوجی کلیئرنس آپریشن میں ساز باز کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے میانمار میں انسانی حقوق کے لیے خصوصی نمائندے یانگ لی نے ستمبر میں کہا تھا 'اپنی آنکھیں کھولیں... براہ کرم اپنی اخلاقی اتھارٹی کو استعمال کریں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے‘۔
روہنگیا مسلمانوں نے برسوں ظلم سہا اور عالم اسلام کی سیادت کے دعوے دار بیانات پر اکتفا کرتے رہے۔ افریقہ کے ایک چھوٹے سے مسلم ملک گیمبیا نے یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لا کر نہ صرف عالمی امن کے ٹھیکے داروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے بلکہ ستاون رکنی او آئی سی کے بڑے بڑے لیڈروں کو بھی جگانے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی مجھے یہ یاد دلانے کی کوشش کرے کہ گیمبیا کو او آئی سی کے 57 ممالک اور بین الاقوامی وکلا کی ایک ٹیم کی حمایت حاصل ہے تو اس سے پہلے وہ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرے کہ گیمبیا کو تعاون فراہم کرنے والے بڑے اور طاقت ور خود کیوں سامنے نہ آئے؟۔
گیمبیا نے بے وطن روہنگیا مسلمانوں کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے عالم اسلام کے کسی ٹھیکے دار کا انتظار نہ کر کے ثابت کر دیا کہ قیادت و سیادت کے لیے ملکوں کا رقبہ اہمیت رکھتا ہے نہ ملکوں کی مجموعی دولت، بلکہ قیادت کا معیار شاد عظیم آبادی کے اس شعر مصداق ہے:
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے