ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے ایک سو اسی ملکوں میں کرپشن کے حوالے سے پائے جانے والے تاثر پر درجہ بندی جاری کی ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے تاثر بڑھ گیا ہے اور درجہ بندی میں پاکستان ایک سو سترہ سے ایک سو بیس کی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی یہ درجہ بندی کس حد تک معتبر ہے یہ قابل بحث امر ہو سکتا ہے لیکن حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف ٹرانسپیرنسی اور اس جیسے اداروں کی رپورٹوں کو معتبر تصور کرتے ہوئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
اس تازہ درجہ بندی پر حکمران جماعت اپنے پچھلے مؤقف بالائے طاق رکھ کر ناصرف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پر نشانے سادھ رہی ہے بلکہ اس بین الاقوامی فورم کا اندرون ملک گٹھ جوڑ تلاش کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ درجہ بندی پر رد عمل میں اس ادارے کے پاکستان چیپٹر کے سربراہ کو بھی تنقید کے نشتروں کی زد میں رکھا اور کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا ڈیٹا جمع کرنے والے کو ماضی میں سفیر تعینات کیا گیا اور ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی، اس ادارے کے پاکستان چیپٹر کے سربراہ نے سابق دور میں نون لیگ کی قیادت کو پذیرائی بخشی‘ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ غیرجانبدار نہیں اور اپوزیشن اس رپورٹ پر بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حالیہ انڈیکس پر تحریک انصاف کا ردعمل قابل فہم ہے اور معاون خصوصی برائے اطلاعات کے بیان سے صورتحال عیاں ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ ٹرانسپیرنسی کے حالیہ اور ماضی کے انڈیکسز کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ کرپشن مشرف‘ پھر عمران خان کے دور میں ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور چوتھے نمبر پر نون لیگ دور میں کرپشن ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت ان چار حکومتوں میں باقی سب کی نسبت زیادہ شفاف یا یوں کہیں کہ سب سے کم کرپٹ تھی۔ ٹرانسپیرنسی کی طرف سے یہ تاثر حکمران جماعت کی ساکھ اور انتخابی نعرے کو مجروح کر رہا ہے۔ جو کرپشن مٹانے کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے ان کے دور حکومت میں کرپشن بڑھنے کی رپورٹ ان کو ہضم نہیں ہو سکتی۔ اگر چند لمحوں کیلئے فردوس اعوان صاحبہ کے ردعمل کو من و عن تسلیم کر لیں، ٹرانسپیرنسی کی شفافیت پر اٹھائے گئے سوالات اور فردوس عاشق صاحبہ کی طرف سے دیئے گئے جوابات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیں تو بھی کئی سوالات جواب طلب ہیں اور ان کا جواب مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والے لفظوں کی ہیر پھیرکے بغیر دل پر ہاتھ رکھ کر صدق دل سے دینا چاہیں تو شاید سیاسی مصلحت کے تحت ان کی زبانیں گنگ ہو جائیں گی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کا تاثر جانچنے کے لیے ایک پیمانہ مقرر کر رکھا ہے جبکہ کئی دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کو شامل کرکے ملکوں کو سو نمبروں کے پیمانے پر جانچتے ہوئے درجہ بندی میں رکھا جاتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی کا سب سے بڑا اور اہم سوال اور سفارش یہ ہے کہ پالیسی سازی میں مفادات کے ٹکراؤ پر قابو پایا جائے‘ اور پالیسی سازی میں شریک سرکاری حکام کے مالیاتی اور دیگر مفادات پر قابو پایا جائے۔ کیا یہ حکومت مفادات کے ٹکراؤ پر قابو پانے کی متمنی نظر آتی ہے؟ جہانگیر ترین صاحب سمیت تحریک انصاف کے عطیات دہندگان اس حکومت کی پالیسیوں میں شامل ہیں۔ چینی اور آٹے کے کاروبار سے وابستہ افراد زرعی پالیسیاں بنا رہے ہیں اور زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان غذائی بحران کا شکار ہے۔ پالیسی سازوں اور اختیارات کے حامل افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری امور سے دور رکھنا شفافیت کے لیے ضروری ہے۔ کیا اس حکومت نے ریٹائرمنٹ کا دن آنے سے پہلے ہی کئی عہدیداروں کو نئے عہدوں پر تعینات نہیں کیا؟
کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاست میں پیسے کا عمل دخل کم کرنا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بڑے عطیات دینے والے کا اثرورسوخ فیصلہ سازی کی قوت کو متاثر کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا عمل شفاف ہونا چاہئے۔ ان کے ذرائع آمدن، اثاثے اور قرضے عوام کے سامنے ہونے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے بااختیار اور مضبوط ہونے چاہئیں۔ کیا تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں صاف شفاف ہو کر حساب دے کر اس چنگل سے باہر آ سکی ہے؟ وزیر اعظم نے حالیہ دورہ سوئٹزرلینڈ کے بارے میں فخر سے کہا کہ ان کا دورہ دو پاکستانیوں نے سپانسر کیا اور ملکی خزانے سے کچھ خرچ نہیں ہوا۔ بجا فرمایا لیکن کیا کسی نے سوچا ہے کہ سپانسر کرنے والے بھی تو کچھ مفادات رکھتے ہوں گے۔ اگر حکمرانوں کے دورے سپانسر کرنے کی روایت بہت ہی اچھی ہو تو جس مغربی جمہوریت کے ماڈل کو ہم اپنائے ہوئے ہیں وہاں کے حکمران بھی اس کو اپناتے، ایسا تو بالکل نہیں ہو سکتا کہ انہیں سپانسر میسر نہ ہوں۔
کرپشن کے خاتمے کیلئے ایک اور لازمی عنصر جمہوری عمل کو مؤثر بنانا ہے۔ اس کیلئے انتخابات کا شفاف اور آزاد ہونا بنیادی شرط ہے۔ ووٹوں کی خرید و فروخت پر قابو پانا لازم ہے، سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف ڈس انفارمیشن کو روکنے کیلئے مؤثر قوانین کی ضرورت ہوتی ہے، کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب ضروری ہوتا ہے۔ کیا اس حکومت نے انتخابی اصلاحات متعارف کرائی ہیں؟ کسی قسم کی قانون سازی کی کوشش کی ہے؟ سوشل میڈیا کے ذریعے چلائی جانے والی کردار کشی کی مہموں کے سدباب کیلئے کچھ کیا ہے؟ کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کے نام پر گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن کتنے مقدمات میں ثبوت پیش کرکے کسی کو سزا دلوائی گئی؟ احتساب کے عمل سے انتقام کا تاثر ختم کرنے کیلئے احتساب قوانین میں بہتری کے لیے کیا پیشرفت ہوئی؟ قومی وسائل اور خدمات کی فراہمی میں ترجیحی عنصر بھی کرپشن ہے، کسی ایک علاقے، گروہ یا قبیلے کو مجموعی عوامی مفاد پر ترجیح دینا معمول ہے، کیا اس حکومت نے طاقتوروں کے انتخابی حلقوں کے لیے خصوصی فنڈز کا سدباب کیا، کیا اس پالیسی اور روایت کو بدلنے کی کوئی کوشش ہوئی؟۔ شہری آزادیوں اور سیاسی حقوق کا تحفظ کرپشن کے سدِباب کیلئے ایک اور بنیادی عنصر ہے۔ شہری آزادیوں اور سیاسی حقوق میں اظہار رائے کی آزادی، تنظیم سازی کا حق شامل ہیں اور آئین پاکستان ان حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن کیا ان حقوق کو یقینی بنانے کیلئے اس حکومت نے کوئی قدم اٹھایا؟ کرپشن بے نقاب کرنے والے میڈیا اور صحافیوں کو تحفظ بھی اس کا ایک جزو ہے؟ کیا اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے؟۔
عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات اور حدود کو الگ کرنا کرپشن کے سدباب کا اہم ذریعہ ہے، عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ رکھنے کے اصول پر مکمل طور پر عمل کبھی نہیں ہو سکا، اس حکومت نے جوڈیشل مجسٹریسی نظام بحال کرکے عدلیہ اور انتظامیہ کو پھر گڈمڈ کر دیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدام اس حکومت کے ایجنڈے میں کہیں شامل ہے؟ کیا ارکان اسمبلی اور وزرا کے دباؤ پر اضلاع کی انتظامیہ کو تبدیل کرنے کا عمل رک گیا ہے؟۔
یہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب لفظی ہیر پھیر کے بغیر کوئی بھی حکومتی عہدیدار نہیں دے گا۔ ان حالات میں کچہریوں میں بکتا انصاف، تھانوں میں غریب کی رپٹ بغیر رشوت درج نہ ہونا، پٹوار خانے سے انتقال اراضی و اشتمال کے لیے رشوت کے باوجود دھکے، ہسپتالوں میں سرکاری فنڈز سے ناداروں کے لیے آنے والی دواؤں میں خورد برد، ایکسائز اور ٹیکسیشن میں گھپلے، بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے لیے نذرانے، مصنوعی مہنگائی سے اربوں کمانے والے تاجر اور ان جیسے ہر روز پیش آنے والے دوسرے مسائل پر حکومت کا ایک ہی جواب ہے کہ برسوں کا گند دنوں میں ختم نہیں ہو سکتا۔
حکمرانوں کی طرف سے جواب کی امید نہیں‘ لیکن اس حکومت کے اتحادی اور ریلوے کے وزیر شیخ رشید نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ وہ اڑتالیس سال سے حکومت میں ہیں لیکن شوگر مافیا، فلور مافیا، گھی مافیا کو نہیں روک سکے، طاقتور لوگ ہیں، غریب غریب ہو رہا ہے اور یہ لوگ امیر ہو رہے ہیں‘ میں کسی ایک حکومت پر الزام نہیں لگانا چاہتا‘ تمام حکومتیں ان کی ہوتی ہیں۔ اعتراف کے لیے جرأت درکار ہوتی ہے۔ شیخ رشید نے اعتراف کی جرأت کی لیکن کیا اصلاح احوال کے لیے کوئی منصوبہ اور مربوط کوشش بھی ہو رہی ہے؟