ہمیں آئی ایم ایف کی قسط کیا ملی‘ دل میں یہی احساس جاگا کہ ''جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے‘‘۔ پاکستان کو قرض کے طور پر محض ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد کی امداد ملنا ہرگز قابلِ فخر بات نہیں لیکن معاشی تنزلی‘ سیلاب کی تباہی اور سیاسی ناہمواری کے اس مصیبت زدہ دور میں ڈالرز کی اس خیرہ کن جھلک نے کم ازکم ہمارے خالی خزانے کے سوکھے دھانوں پر تازگی کے کچھ چھینٹے ڈال دیے۔ ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ‘ خاص طور پر سری لنکا میں معاشی دیوالیہ پن ہونے کے بعد جو مناظر ہم نے دیکھے‘ انہوں نے ویسے ہی قوم کو بے کل کر رکھا تھا کہ کہیں مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اس صورتحال سے دوچار ہوکر دنیا میں مذاق نہ بن جائے۔ اوپر سے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ہونے والی حکومتی تبدیلی اور عمران خان ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ان کے لیے تیار کردہ معاشی پھندے نے آئی ایم ایف پروگرام کو ہمارے لیے شجرِ ممنوعہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تنگ دروازے سے ہمارا حکومتی ہاتھی کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوبھی گیا تو اس کی دم پھنس گئی۔ اس پھنسی دم کو نکالنے کے لیے پی ڈی ایم حکومت اور ریاستی اداروں نے واقعی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ہاتھی کی یہ دم جلد ہی مقابلے کا وہ رسہ بن گئی‘ جس کی ایک جانب پوری حکومت اور ریاست کھڑی تھی اور دوسری جانب صرف ایک سیاسی جماعت۔ حکومتی جماعتیں یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط نہ مل سکے‘ جس کی بظاہر وجہ یہی نظر آتی ہے کہ ان کے نزدیک ریاست سے زیادہ سیاست مقدم ہے۔ اپنی حکومت جانے کے غصے میں مخالفین کا سیاسی نقصان ہو یا ریاست پاکستان کے مفاد کو زک پہنچے‘ اس نزاکت کو نظر انداز کرتے ہوئے جارحانہ رویہ اپنایا گیا‘ جس کا واحد مقصد مخالفین کو ٹف ٹائم دینا تھا‘ چاہے اس کیلئے جو بھی حربہ اپنانا پڑے۔ جس طرح کپتان کے قریبی ساتھی شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے قسط حاصل کرنے کی چھ ماہ کی ریاستی و سیاسی کوششوں پر کے پی اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کے ذریعے پانی پھیرنے کی کوشش‘ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عمران خان ابھی تک نہ ہی سیاستدان بن پائے ہیں اور نہ ہی سٹیٹس مین۔
پاکستان میں 1992ء کا تباہ کن سیلاب ہو‘ 2005ء کا بدترین زلزلہ یا پھر 2010ء کے سپر فلڈز۔ ایک صحافی اور تاریخ کے طالب علم کے طور پر میں نے مصائب کی ان کی گھڑیوں میں قوم کے علاوہ سیاسی مخالفین کو بھی شیرو شکر اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے قدرے دور دیکھا۔ لیکن حالیہ تباہ کن سیلاب کے دوران‘ جب ہماری معیشت کو 10 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا اور قومی خزانہ خالی پڑا تھا‘ تحریک انصاف کے سیاسی داؤ پیچ نے مجھے دکھی کردیا۔ ایک جانب انہوں نے سیلاب کے دنوں میں جہلم میں جلسہ سجا کر اپنی سیاست کو دکھی انسانیت پر مقدم جانا اور پھر فنڈ ریزنگ سے بھی مسلسل گریز کیا۔ کہتے رہے کہ میں پیسہ جمع کرکے کس کو دوں‘ میں فی الحال کراچی میں شوکت خانم ہسپتال‘ نمل یونیورسٹی اور اپنی نامنظور تحریک کے لیے فنڈ ریزنگ کررہا ہوں۔ لیکن جب کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ خان صاحب آپ کو یہ کام ضرور کرنا چاہیے‘ تب جاکر وہ ٹیلی تھون کرنے پر راضی ہوئے۔ اس ہنگام کے دوران ان کی کچن کیبنٹ کے ساتھی شوکت ترین کی لیکڈ آڈیو نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا کہ چیئرمین صاحب چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے معاملے پر حکومت کا بازو مروڑا جائے۔ اب عمران خان اور پی ٹی آئی اس ٹیپ کے حوالے سے جتنی بھی تاویلیں دیں‘ درحقیقت فواد چودھری اس تمام سازش کو اعتراف اس سے پہلے ہی معروف اینکر کامران شاہد کے پروگرام میں 25؍ اگست کو کرچکے تھے کہ اگر یہ جلد الیکشن نہیں کرواتے تو پھر پنجاب اور کے پی کی حکومتیں آئی ایم ایف ڈیل کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ عمران خان کا یہ تمام عمل‘ نرم سے نرم الفاظ میں بھی افسوسناک ہے۔ کپتان کے ناقدین تو پہلے ہی یہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی نااہلی اور بدترین پالیسیوں نے قومی معیشت کو بدحالی کی نہج پر پہنچایا‘ پھر ان کی صوبائی حکومتوں کے وزرائے خزانہ نے آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر معاہدے کیے اور پھر اپنی حکومت جاتی دیکھ کر انہی معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تاکہ اگلی حکومت مشکل میں پھنس جائے اور وہ ان کے خلاف سیاسی جوا کھیل کر پھر اقتدار کی بازی اپنے حق میں کر سکیں۔
پی ٹی آئی کا اقتدار سے علیحدگی کے بعد مسلسل ایک ہی ایجنڈا نظر آتا ہے کہ سیاسی طور پر ہر ممکن محاذ کھول کر حکومت کو ڈس کریڈٹ کیا جائے۔ پھر اپنے پرجوش‘ انقلاب کے داعی مگر ناپختہ سیاسی شعور کے حامل حامیوں کے دلوں میں ہر مخالف کے خلاف اتنا غصہ اور نفرت بھر دیں کہ وہ عمران خان کے غلط کو بھی صحیح کہیں اور عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ پہلے عمران خان نے اداروں کے حوالے سے نجانے کون کون سے الفاظ استعمال کیے۔ پھر اس کی یہ تاویل دی کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی بھی تو ماضی میں تنقید کرتی رہی ہیں لیکن خان صاحب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ (ن) لیگ نہ تو کسی کو میر جعفر کہتی تھی اور نہ ہی یہ مطالبہ کرتی تھی کہ ہمیں ہر قیمت پراقتدار میں لاؤ۔ ان کا تو مقدمہ ہی یہ تھا اور ہے کہ جمہوریت غیر جمہوری سایوں سے محفوظ ہو جائے جبکہ کپتان کا منترا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے میں میری دوبارہ مدد کی جائے۔ جب خان صاحب کی یہ فرمائش پوری نہ ہوئی تو انہوں نے شہباز گل کو مخالفین کے خلاف بیان بازی کے لیے آگے کر دیا۔ خود خان صاحب نے بھی ہر کسی کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے رکھا۔ یہی نہیں انہوں نے شہباز گل کے حق میں نکالی جانے والی ریلی میں ایک مجسٹریٹ کا نام لے کر اُنہیں دھمکایا کہ انہوں نے پولیس کو شہباز گل کا مزید ریمانڈ کیوں دیا‘ یہ طرزِ عمل بھی حیران کن ہے۔ دوسری جانب‘ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر ان کی تنقید‘ ڈسکہ الیکشن میں ہوئی بدترین دھاندلی پر تحقیقات کے تناظر میں شروع ہوئی جو ممنوعہ فنڈنگ کیس کے بعد حد سے بڑھ گئی۔ اعلیٰ افسران کے حوالے سے جو وہ کہتے ہیں‘ وہ تو سب کے سامنے ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد اسے دوبارہ پانے کی کوشش میں ہر ممکن حربہ آزماتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کے چاہنے والوں کے مطابق کپتان کی روز بروز بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کے بعد اب ان کے مخالفین کے پاس توشہ خانہ ریفرنس‘ توہینِ عدالت کیس‘ ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ اور نیب میں چلتا ہیلی کاپٹر کیس ہی ان خطرناکیوں کو کنٹرول کرنے کا واحد نسخہ رہ گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت عمران خان کو سیاسی دھارے سے نکالنے کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کرتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔