پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے بالآخر اپنا آخری پتا بھی کھیل لیا۔ لانگ مارچ کا آغاز ہوچکا‘ جس کا بنیادی مقصد '' حقیقی آزادی ‘‘ ہے‘ لیکن ان کے مخالفین کے نزدیک اس مارچ کا مقصد دوبارہ ڈیل کے ذریعے اقتدار کی راہداریوں میں واپس آنے کی کوشش ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے بیانات کے برعکس سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ کسی انقلاب کے لیے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لیے ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ لانگ مارچ دراصل‘ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ عمران خان خود مقتدرہ اور حکومت کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کی تصدیق کرچکے ہیں۔ ایسے میں یہ امر واقعی افسوسناک ہے کہ فریقین اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ کر ایک دوسرے کو سپیس دینے کو تیار نہ ہوئے‘ جس کا نتیجہ اب اس مارچ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے ملک کے سیاسی خلفشار کو مزید بڑھائے گا۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اس لانگ مارچ کے ذریعے جلد الیکشن کروانے کا مطالبہ کیسے پورا کروائیں گے؟ خاص طور پر اس صورت میں جب ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ فوج بطور ادارہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا تہیہ کرچکی ہے اور فوجی قیادت صرف آئینی کردار تک محدود رہے گی۔ ایسے میں سب کے ذہنوں میں سوال ہے کہ کیا مقتدرہ کے واضح اعلان کے بعد لانگ مارچ کامیاب ہوگا؟ خاص طور پر جب عمران خان اپنا سیاسی بیانیہ چمکانے کے لیے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی بھرپور کوشش کرچکے ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نیوٹرل کچھ نہیں ہوتا‘ آپ اچھائی یعنی ہمارا ساتھ دیں اور انتخابات کاانعقاد کروائیں۔ یعنی ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ ملک میں بند کمروں میں فیصلے نہیں ہونے چاہئیں اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے حق میں مداخلت کی جائے۔اس کے جواب میں جمعرات کی مذکورہ پریس کانفرنس عمران خان کے لیے ایک بڑی شٹ اپ کال ہے ‘ جس کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ عمران خان کیلئے اب 2018ء والی سہولیات اور آپشنز ختم ہوچکے ہیں۔ اب ان کی کامیابی ‘ ان کی سیاسی بصیرت اور عوامی حمایت ہی سے ممکن ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ بھی جاتا ہے تو اس سے خان صاحب کو آخر کیا کامیابی حاصل ہو سکے گی؟ عمران خان نے لاہور سے سات دنوں میں اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا ہے ‘ جس کی ایک وجہ بڑی تعداد میں عوام کو متحرک کرنا ہے لیکن اس لمبے پلان کی ایک اہم وجہ شاید یہ ہے کہ آؤ بات کریں‘ کیونکہ عمران خان خود جانتے ہیں کہ وہ اس وقت بند گلی میں کھڑے ہیں۔ اگر وہ اسلا م آباد پہنچ کر سپریم کورٹ کی متعین کردہ جگہ پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں تو پھر حکومت کی صحت پر فوری طور پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا وہ حکومت جو ماضی میں عمران خان کو 126 دن اسلام آباد میں برداشت کرچکی ہے ‘ اب ان کے چند دن یا ہفتے اسلام آباد پہنچنے پر ڈھیر ہوجائے گی؟ اس کا جواب' نہیں‘ ہے۔ گوکہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے عمران خان سے مذاکرات کیلئے تیرہ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے لیکن پی ٹی آئی اب بھی بضد ہے کہ پہلے عام انتخابات کی تاریخ دیں پھر ہم بات کریں گے۔ اس سے واضح ہے کہ کپتان حکومت پر دباؤ برقرار رکھتے ہوئے اپنی شرائط پر مذاکرت چاہتے ہیں ‘ مگر اس وقت ان کے ترکش میں زیادہ تیر نہیں بچے۔مقتدرہ نے تو پیغام دے دیا ہے کہ ہم سیاست میں ملوث نہیں ہوں گے اور جہاں حکومت ہمیں آئینی طور پر طلب کرے گی ہم وہاں مدد کے لیے موجود ہوں گے۔ اس کا مطلب ہوا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماضی میں 90ء کی دہائی کے بعد جتنے لانگ مارچ ہوئے ان میں سے صرف دو احتجاج اپنے مقاصد پورے کر پائے۔ ان میں سے ایک تو 2009ء میں میاں نوازشریف کی قیادت میں ججز بحالی لانگ مارچ تھا ‘ جسے گوجرانوالہ پہنچنے تک اس لئے کامیابی نصیب ہوگئی کیونکہ مقتدرہ نے مداخلت کرکے حکومت کو اس کی بات ماننے پر آمادہ کرلیا تھا۔ دوسرا 1993ء میں بے نظیر بھٹو کا لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی کامیاب ہوگیا تھا جب اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کا '' کاکڑ فارمولا‘‘ صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔ باقی ‘ قاضی حسین احمد کے مارچ ہوں یا مولانا طاہر القادری کے یا پھر عمران خان کا 25 مئی کا لانگ مارچ‘ ان کے خاطر خواہ سیاسی نتائج نہیں نکلے۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ جو لہر آئی ہوئی ہے وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ لیکن اگر اسلام آباد پہنچ کر وہ دارالحکومت کا محاصرہ نہیں کرتے ان کامقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن کیا میڈیا کی لائم لائٹ میں ایسا ممکن ہو پائے گا؟ اسی طرح حکومت کی بھی کوشش ہوگی کہ کسی طرح تشدد کا راستہ نہ اپنایا جائے‘ لیکن اگر عمران خان وعدے کے برخلاف ریڈ زون کا رخ کرتے ہیں اور پولیس‘ رینجرز انہیں روکنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟اس تمام تناظر میں ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ اگر ملک کو اس سیاسی جمود سے نکالنا ہے تو ڈائیلاگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا یہ اعلان کہ آئندہ 15 برس تک جو سینئر افسران فوج کی قیادت سنبھال سکتے ہیں ان کا فیصلہ ہے کہ فوج اپنے آئینی کردار تک محدود رہے گی ‘ پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ مل بیٹھیں‘ نوازشریف بھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں ‘ عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں ۔تو پھر مل بیٹھنے میں تاخیر کس بات کی؟ اگرہماری سیاسی قیادت میں واقعی کوئی ویژن ہے تو اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے میثاقِ جمہوریت کی طرح چند رہنما اصول وضع کرلینے چاہئیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے اور پھر الیکشن کی طرف بڑھ جانا چاہیے اور اگر آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو پھر آپ اگلے 50 سال بھی اسی گورکھ دھندے میں ملک کو پھنسا کر رکھیں جس نے ہماری ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔
اس وقت پاکستان کی اندرونی صورتحال کا دنیا کے اہم ممالک میں بھی بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔ عمران خان کا لانگ مارچ ‘ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ کی ناکامی کا نتیجہ ہے اور جب پاکستان جیسا ملک جو معاشی ‘ معاشرتی مسائل کے علاوہ دہشت گردی کا شکار ہونے کی تاریخ بھی رکھتا ہواس کی اندرونی صورتحال پر سب کی نظریں ہوتی ہیں۔ اگر امریکی صدر ایک تقریب میں کھڑے ہوکر بے ساختہ پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیتے ہوئے اس کے ایٹمی ہتھیاروں اور اندرونی خلفشار کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو سمجھ جائیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی و ریاستی اداروں کو ناکامی سے دوچار سمجھ رہے ہیں۔ جوبائیڈن کا بیان ان کی سوچ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لئے ایک وارننگ بھی ‘ جسے ہم جس قدر جلد سمجھ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ جس قدر جلد ہم اپنے مسائل خود حل کرنے کی جانب آجائیں ‘ اتنا ہی بہتر ہے۔