اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان ایک اور بڑے سانحہ سے بچ گیا۔ وزیرآباد میں سابق وزیراعظم عمران خان پر حملہ ایک فرد پر نہیں بلکہ پاکستانی جمہوریت ‘ نظام اور ملکی استحکام پر حملہ تھا جس کے آفٹر شاکس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے ایف آئی آر کٹنے اور تحقیقات سے قبل ہی اس حملے کا الزام وزیراعظم میاں شہبازشریف‘ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور فوج کے ایک سینئر افسر پر لگا کر ایک تنازع کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ تب تک احتجاج جاری رکھیں جب تک یہ تینوں استعفیٰ نہیں دے دیتے۔ خود ہی مدعی ‘ وکیل اور منصف بننے کی یہ روش بظاہر اس بدقسمت واقعہ کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش ہے‘ جس سے ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں واپس آنے کے امکانات مزید بڑھ جائیں مگر اس سے قومی اداروں اور ملک کا جو نقصان ہوگا وہ ناقابلِ تلافی ہے۔ ان الزامات کے جواب میں پاک فوج نے ایک بار پھر حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ عمران خان کی طرف سے لگائے گئے جھوٹے الزامات پر قانونی کارروائی کرے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرنے واضح کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ادارہ اپنے افسروں اور سپاہیو ں کی حفاظت کرے گا۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے جس فوجی افسر کے خلاف باقاعدہ مہم چلا کر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔اس افسر کا پورا کیرئیر اس کے ایک سچے اور پروفیشنل سپاہی ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ عمران خان نے اپنی نئی پالیسی یعنی تین استعفوں تک احتجاج جاری رکھنے کے اعلان سے ایک بار پھر اپنا اصل حریف اداروں کو ٹھہرایا ہے ‘ جو کئی دفعہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے آئینی کردار تک محدود ہے۔ ایسے میں عمران خان کی جانب سے اداروں سے محاذآرائی انہیں سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش ہے۔کپتان کا یہ بیانہ ان کے پیروکاروں کو اداروں کے سامنے کھڑا کرنے کی ایک کوشش ثابت ہورہا ہے‘ جس کے مناظر ہم نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دیکھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے جو الزامات لگائے ہیں آخر وہ کن معلومات کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں؟ وہ شواہد کیا ہیں جن کی بنیاد پر عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ ان تینوں افراد نے انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی‘ حالانکہ ایسے اندوہناک واقعات حکومت یا کسی قومی ادارے کے مفاد میں نہیں کیونکہ جس انداز سے وہ سیاسی طور پر تقسیم کرچکے ہیں ‘ جس طرح ایک سیاسی مقصد کو جہاد قرار دے رہے ہیں ‘ جیسا ہیجان وہ اپنے پرستاروں میں پیدا کرچکے ہیں ایسے میں کیوں کوئی ذی شعور انسان ان پر حملہ کروا کر ملک کا نقصان کروانا چاہے گا؟ خدانخواستہ عمران خان کو کچھ ہوجاتا تو ملک 20 سے 25 سال پیچھے چلا جاتا۔ کیا ہمارے پالیسی ساز اس نقصان کو برداشت کرسکتے؟ پھر وزیرداخلہ نے بھی کہا ہے کہ ہماری عمران خان سے سیاسی مخالفت ضرور ہے ذاتی دشمنی نہیں ۔یہ بات وزن رکھتی ہے کیونکہ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو ایک زمانے میں ایک دوسرے کے سخت سیاسی مخالف تھے ‘ لیکن انہوں نے کب اسی سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی بنایا کہ ایک دوسرے کے بندے قتل کرواتے پھریں؟ پھر جس طرح عمران خان کا امریکی مداخلت کا بیانیہ انجام کو پہنچا‘ حقیقی آزادی کے بیانیے کی حقیقت سامنے آگئی ‘ یہ بات تو حکومت کے حق میں تھی کہ لانگ مارچ پنجاب کی سڑکوں پر سست روی سے چلتا رہے اورآپ اپنے ہی سیاسی تضادات کے بوجھ تلے دبتا چلا جائے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ماضی میں جس طرح مذہبی منافرت کا استعمال پی ٹی آئی نے سیاسی حریفوں کے خلاف کیا‘اب اسی کا پھل کاٹ رہی ہے۔سیاست میں مذہب کا استعمال کچے ذہنوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے ‘ جس کا مظاہرہ ہم نے خان صاحب پر حملے کی صورت میں دیکھ لیا۔
صرف یہی نہیں‘ لوگ تو یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ آپ پر جو حملہ ہوا وہ آپ کے اپنے زیرانتظام صوبے میں ہوا۔ جہاں کی سکیورٹی اورانتظامات آپ کی تسلی کے مطابق کئے گئے تھے۔ اس لئے جب حملہ ہوا‘ حملہ آور پکڑا گیا تو بہتر تھا کہ تفتیش کے عمل کوآگے بڑھنے دیتے تاکہ جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا کہ گرفتار ہونے والا ملزم اس حملے کا تنہا ذمہ دار تھا یا پیچھے کوئی اور ماسٹر مائنڈ بھی تھا‘یا کوئی منصوبہ بندی تھی۔ پہلے گجرات پولیس نے ملزم کی اعترافی ویڈیوز جاری کرکے قانونی پیچیدگیاں پیدا کیں اور پھر پی ٹی آئی نے مرضی کی ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی جس پر چوہدری پرویز الٰہی نے مزاحمت دکھائی کہ جب ملزم پکڑا گیا تو کسی اور کے خلاف ایف آئی آر کیوں کاٹی جائے‘ اس پر عمران خان اور چوہدری پرویزالٰہی کے درمیان مخاصمت بڑھی۔ شبلی فراز کو یہاں تک کہنا پڑا کہ ہم ایف آئی آر درج نہ کرنے پر تھانے کے سامنے احتجاج کریں گے‘ یعنی اپنے ہی صوبے کی پولیس کے خلاف دھرنا۔ مجموعی طور پر اس رویے سے حملہ کیس کی تفتیش بری طرح متاثر ہوئی ہے۔بہتر یہی ہے کہ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں جو اس حملے کی تہہ تک پہنچے ‘ تب تک اس کیس کی بنیاد پر نہ تو سیاست کی جائے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر اپنے حامیوں کو اشتعال دلایاجائے۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں اور ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے توآصف علی زرداری نے ایک سٹیٹسمین کا کردار نبھاتے ہوئے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ عمران خان جو زرداری صاحب کونجانے کن القابات سے نوازتے ہیں کم از کم ان کے اسی عمل کو فالو کرلیں اور اپنے حامیوں کو ملکی اداروں کے خلاف اشتعال دلوانے سے گریز کریں۔
اب آتے ہیں عمران خان صاحب کے اصل مدعے کی جانب یعنی جلد انتخابات اورآرمی چیف کی تعیناتی کا مسئلہ کیسے حل ہو۔ فی الحال عمران خان نے ہسپتال سے دیے گئے بیان میں جلد انتخاب کا مطالبہ نہیں دہرایا لیکن اس مطالبے کا ایک اور انداز میں تذکرہ کیا ہے‘ یعنی وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ حضرات عمران خان کی خواہش پر تو استعفیٰ نہیں دیں گے ‘ لیکن عمران خان کی خواہش ہے کہ ایک بار پھر ''کاکڑ فارمولا‘‘ اپنا یا جائے‘ یعنی جس طرح سیاسی ڈیڈ لاک پرآرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف کو گھر بھیج کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کی تھی ‘ ویسے ہی عمران خان چاہتے ہیں کہ ا ن کے احتجاج اور الزامات پر ویسی ہی مداخلت کی جائے ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے استعفے لے کر نئے انتخابات کی راہ ہموارکردے لیکن مقتدرہ جس طرح سیاست سے کنارہ کش ہوئی ہے اور اسے عمران خان کے سخت حملے برداشت کرنا پڑے ہیں ‘ ایسے میں مشکل ہے کہ عمران خان جو چاہتے ہیں وہ ممکن ہو پائے۔ ملک میں ایسے احتجاج کی بھی کیفیت نہیں کہ حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوں۔ان حالات میں نوازشریف کی جانب سے وزیراعظم کو یہ ہدایت دیناکہ اداروں پر الزامات لگانے پر عمران خان کے خلاف کارروائی کی جائے‘ معنی خیز ہے۔