کسی ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا ملک پچھلے کئی سال سے سیاسی عدم استحکا م کا شکار ہیں ‘ جس کے نتیجے میں معیشت بھی افتاں و خیزاں رہی ہے۔گزشتہ قریب ایک دہائی کے سیاسی حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سامنے آتا ہے کہ عمران کی کامیابی کے لیے پولیٹیکل انجینئرنگ کا سلسلہ 2014ء کے دھرنے سے دوام کو پہنچا جب کنٹینر کی سیاست کا آغاز ہوا۔ پھر 2018ء آگیا‘ مخالف سیاستدانوں کو ناک آوٹ کرکے اور جہاز بھر بھر کے اراکین کو عمران خان کی پارٹی میں شامل کر کے کپتان کوجتوا یا گیا‘ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد بھی عمران خان کنٹینر سے نیچے نہیں اترے اور جو سیاسی طوفان انہوں نے اپنے پہلے دھرنے سے شروع کیا تھا وہی انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں بھی جاری رکھا‘ جس نے معیشت کو مسلسل دباؤ میں رکھا۔ ایک پاپولسٹ لیڈر کا مسئلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اسے تاریخ سے زیادہ ہیڈ لائنز میں رہنے کی فکر رہتی ہے ‘ اسی لیے اس کے اقدامات بھی وقتی شہرت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش تک محدود ہوتے ہیں۔عمران خان کی بات کریں تو اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے افراتفری کی سیاست جاری رکھی ‘ نیب کے جھوٹے سچے کیسز میں اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کرنے ‘ ساڑھے تین سال میں چار وزیر خزانہ بدلنے اور معیشت میں ''باردوی سرنگیں‘‘ بچھانے کے سوا کچھ قابلِ ذکر نہیں کیا۔ اب جبکہ وہ دوبارہ اپوزیشن میں بیٹھے ہیں تو اپنی افتادِ طبع کے ہاتھوں مجبور ہوکر سیاسی عدم استحکام کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ پی ڈی ایم والوں کو تو چھوڑیں وہ اپنے محسنوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں ہونے والی ایک ملاقات میں خاکسار نے اُن سے سوال کیا کہ قمر جاوید باجوہ حال ہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملے ہیں اور آپ کے رویے کے بارے میں شکایت کی ہے تو ان کا گول مول سا جواب تھا کہ باجوہ صاحب اب آرمی چیف نہیں ‘ ان پر تنقید کرنا فوج پر تنقید کرنا نہیں۔ تضادات سے بھرپور بیانا ت دے کر اپنے سپورٹرز کو حکومت اور اداروں کے خلاف بھڑکانا ‘ پھر یو ٹرن لینا ‘ جب بات نہ بنے تو کبھی لانگ مارچ کرنے تو کبھی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکیاں دینا اور پھر کہنا کہ ملک میں استحکام نہیں ‘ معیشت تباہ ہورہی ہے ‘ نوجوان ملک چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں۔نجانے خان صاحب کس سے بدلہ لے رہے ہیں؟
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال 7لاکھ 65ہزار سے زائد پاکستانی بہتر مستقبل کے حصول کے لیے بیرون ملک جا چکے ہیں ‘ جن میں سے 92ہزار افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز ‘ ڈاکٹرز اور پروفیشنلز ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2019ء میں چھ لاکھ 25 ہزار پاکستانی بیرون ملک مقیم ہوئے ‘ اس کے اگلے دوسال کورونا کی بندشوں کے باعث یہ سالانہ تعدادتقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب رہی‘ لیکن جیسے ہی بندشیں ہٹیں اس تعداد میں دوبارہ خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔ بیرون ملک جانے والوں میں سے بیشتر سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی جانب گئے ہیں جبکہ یورپ میں رومانیہ ان کا پسندیدہ ملک ٹھہرا۔ پاکستان کے بہترین دماغوں اور کاریگروں کا ملک سے انخلا ایک لحاظ سے قابلِ تشویش امر ہے جس پر سب کو پریشان ہونا چاہیے‘ لیکن عمران خان صاحب نے جس طرح اس انخلا کو موجودہ حکومت کے سر منڈھ دیا ہے وہ بھی پریشان کن بلکہ مضحکہ خیز ہے۔
جہاں تک ملک میں عدم استحکام کی صورتحال کا تعلق ہے تو یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کی طرف سے برپا کی گئی ہے‘ جس میں سب سے زیادہ تیزی رواں سال مارچ کے بعد آئی جب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی۔ اس کے بعد معاشی اشاریوں میں گراوٹ کا سلسلہ غیرمعمولی شدت اختیار کر گیا۔حکومتی مؤقف یہ ہے کہ عمران خان نے جاتے جاتے معیشت میں بارودی سرنگیں نصب کر دیں‘ جیسا کہ انہوں نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کیں‘ حالانکہ اُس وقت عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتیں زیادہ تھیں۔حکومتی نقطہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا۔ یہ صورتحا ل نہایت پریشان کن ہے کیونکہ معیشت کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور دنیا بھر میں معیشت کو سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اپوزیشن حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے جو کہ اس کا حق ہے ‘ لیکن کچھ اہم معاملات پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہوتا ہے کہ ان معاشی فیصلوں کے بغیر ملک نہیں چل پائے گا‘ جن کو بالکل نہیں چھیڑا جاتا‘لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ دنیا بھر کے معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور سری لنکا میں بہت فرق ہے اور پاکستان کا دیوالیہ ہونا تقریباً ناممکن ہے ‘ لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی یہ باور کروانے کی کوشش کررہی ہے کہ ہمارا ملک دیوالیہ ہورہا ہے۔ اس سے بچنا ہے تو فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔ عرض یہ ہے کہ فوری الیکشن کا مطلب بھی تین ماہ بعد الیکشن ہونا ہے اور اس دوران نگران حکومت کے قیام کے دوران معاشی فیصلوں کے حوالے سے جو تعطل آئے گا اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
دوسری بات یہ کہ عمران خان اگر اگلا الیکشن جیت گئے تو کیا ملک میں معاشی استحکام آجائے گا؟ کیا ملک میں ڈالرز کی ریل پیل ہوجائے گی ؟ شاید نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے جو معاملات بگڑچکے ہیں وہ عمران خان حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا کم از کم یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس میں سابق حکومت کی پالیسیوں کا بہت عمل دخل ہے۔ اہم دوست ممالک جن کا پاکستان سے رویہ سرد ہوچکا‘ اس کے ذمہ دار بھی وہی ہیں جنہوں نے کبھی اپنے غیر سفارتی رویے سے دوستوں کو ناراض کیا تو کبھی ان دوستوں سے ملنے والے تحفے بیچ کر ملک کی سبکی کروائی۔ دوبارہ حکومت میں آکر کیا عمران خان ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے؟اس بارے وثوق سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم جو یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ اسی ڈگر پر چلیں گے کیونکہ خان صاحب کے بارے یہ تاثر عام ہے کہ ان میں لچک نہ ہونے کے برابر ہے۔
پی ٹی آئی پنجاب کے لیڈرز تو یہاں تک ایک دوسرے سے شرطیں لگا رہے ہیں کہ عمران خان پنجاب میں جیتے تو دوبارہ عثمان بزدار ہی کو وزیراعلیٰ بنائیں گے یا کسی دوسرے کو؟ وہی عثمان بزدار جن کی وجہ سے خان صاحب اور جنرل (ر) باجوہ کا سیم پیج والا تعلق ختم ہوا اور وہی عثمان بزدار جن کے بارے میں پرویزالٰہی صاحب نے حال ہی میں کہا ہے کہ انہوں نے چار سال میں پنجاب کو تباہ حال کردیا۔ تو جناب دیکھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں۔