''دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘‘۔ یہ صرف ایک مصرع ہی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ دوست جب دشمنی پر اترتے ہیں تو وہ آپ کو ازلی دشمنوں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ اور اگر بات سیاسی میدان کی ہو تو یہاں تو نہ دوستیاں مستقل ہوتی ہیں اور نہ ہی دشمنیاں۔ زیادہ پرانا قصہ نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے‘ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والے بغلگیر ہوئے اور مل کر اقتدار کا مزا لے رہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی جنہیں ڈاکو کہا کرتے تھے‘ انہیں اپنے ہاتھوں سے تختِ پنجاب کا وارث بنایا۔ جب انسان اپنی شہرت کی معراج پر ہوتا ہے یا اقتدار کے نشے میں چُور ہوتا ہے‘ اس وقت اسے سمجھ نہیں آتا کہ دوستوں نے اس کے لیے دوستی کی کیا قیمت چکائی لیکن جب وہ تنہا ہونے لگتا ہے تو اسے دوستوں کی اہمیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر ایسے میں آپ کے پرانے ساتھی ہی سامنے آکھڑے ہوں تو سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچتا۔ تحریک انصاف کو اس وقت اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پارٹی کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ وزیر داخلہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ 9مئی کے واقعے میں ملوث تمام کرداروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف بھی سانحۂ 9مئی کا کیس چل رہا ہے۔ اگر ان کے خلاف یہ الزام درست ثابت ہو جاتا ہے تو وہ بھی لمبے عرصے کے لیے سیاست کی دوڑ سے باہر ہو سکتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ان کے کچھ ساتھی بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ کسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاست کا خاتمہ ہو اور وہ پارٹی کو ہائی جیک کرلیں۔ کچھ لوگ شاہ محمود قریشی کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو تحریک انصاف میں رہنا زیادہ سوٹ کرتا ہے۔ شاہ محمود قریشی اب جیل سے چھوٹ چکے ہیں‘ جلد ہی ان کی پوزیشن بھی واضح ہو جائے گی‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے پتے کیسے کھیلتے ہیں۔
کچھ سیاسی پنڈتوں کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو جہانگیر ترین کی یاد تو کافی آتی ہو گی‘ نہ بھی آئے تو میڈیا پر چلنے والی خبریں انہیں تشویش میں ضرور مبتلا کرتی ہوں گی۔ جہانگیر ترین ان دنوں کافی متحرک ہیں اور سیاسی کھلاڑیوں کی سنچری مکمل کر چکے ہیں۔ وہ گزشتہ رات اپنی نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کر چکے ہیں۔ جہانگیر ترین ہر دور میں کسی نہ کسی کے لیے اہم ترین رہے ہیں۔ شہباز شریف کے منظورِ نظر ہونے کے بعد وہ (ق) لیگ کے لیے اہمیت کے حامل رہے۔ پھر وہ کپتان کے پسندیدہ ترین بنے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے جب پاس پنجاب اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں تھی تو ترین صاحب نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ اپنے جہاز میں الیکٹ ایبلز بھر بھر کر لاتے اور خان صاحب سے ان کی ملاقاتیں کرواتے اور پھر وہ تحریک انصاف میں شامل کر لیے جاتے۔ یوں پنجاب اور وفاق میں حکومت کے لیے مطلوبہ اکثریت کو پورا کیا گیا جس میں جہانگیر ترین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان سب خدمات کے بعد جہانگیر ترین کو یہ مان تھا کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے بہت قریبی ہیں۔ انہوں نے پارٹی میں اپنا تگڑا گروپ بنایا اور خان صاحب کے بھرپور اعتماد سے انہیں بے پناہ طاقت حاصل ہوئی۔ وہ چیئرمین پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے بھی نظر آئے اور پارٹی کی بھرپور مالی مدد بھی کی۔ مخالفین انہیں پارٹی چیئرمین کا اے ٹی ایم کہا کرتے تھے لیکن جب چیئرمین تحریک انصاف اقتدار میں آئے تو انہوں نے احسان مند ہونے کے بجائے جہانگیر ترین کے احسانوں کا بدلا احسان فراموشی سے چکایا۔ جہانگیر ترین نااہل ہوئے تو اس کے باوجود انہوں نے پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا حالانکہ کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین کو بچانے کے لیے جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا لیکن وہ پھر بھی پارٹی چیئرمین کے سیاسی ہمسفر بنے رہے۔ پھر چینی سکینڈل کی کرواہٹ نے دو سیاسی ہمنواؤں میں ایسی دوریاں پیدا کردیں کہ پھر راہیں جدا ہوگئیں۔جب تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو شوگر کمیشن کی تفتیشی رپورٹ جاری کی گئی جس میں ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے جہانگیرترین کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس کے باوجود جہانگیر ترین اور پارٹی چیئرمین کے درمیان دوریاں کم ہو سکتی تھیں۔ سینیٹ الیکشن اس حوالے سے اہم موقع تھا۔ یہ موقع بھی ضائع ہو گیا۔ جہانگیر ترین اور پارٹی چیئرمین کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں وہ لوگ ملوث تھے جو ان دونوں کو ساتھ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ جہانگیر ترین کے مخالفین نے پارٹی چیئرمین کے کان بھرنا شروع کر دیے کہ جہانگیر ترین کا جہاز گیلانی کے سینیٹ الیکشن کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس بات نے جلتی پر تیل کا کام کردیا اور اربوں روپے کی مبینہ ہیرا پھیری کے الزامات میں جہانگیر ترین‘ ان کے بیٹے اور بیٹیوں کے خلاف مقدمات درج کر دیے گئے۔ جہانگیر ترین اس کو انتقامی کارروائی قرار دیتے اور یہ کہتے رہے کہ میں تو دوست تھا‘ مجھے دشمنی کی طرف کیوں دھکیلا گیا۔
مجھے یاد ہے کہ جب جہانگیر ترین ایف آئی اے میں پیشیوں کے لیے جاتے تو پی ٹی آئی کے ناراض اراکین بھی ان کے ہمراہ ہوتے اور وہ انہیں کوسٹر میں بھر کے عدالت لے جاتے۔ یعنی جہاز سے شروع ہونے والا سلسلہ کوسٹر تک آپہنچا تھا لیکن تحریک انصاف ٹوٹنے کے بعد وہ ایک بار پھر سے جہاز پر سوار ہو گئے ہیں اور تحریک انصاف چھوڑنے والوں کو جمع کر رہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اب کی بار وہ اپنی جماعت بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اب ترین صاحب (ن) لیگ‘ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ گو کہ جہانگیر ترین نااہل ہو چکے ہیں اور وہ عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ وہ پھر پارٹی کیوں بنا رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ انہیں کہیں سے یہ اشارہ مل گیا ہو کہ ان کی نااہلی ختم ہو جائے گی اور ویسے بھی ان دنوں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نا اہلی ختم ہونے کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ممکن ہے جہانگیر ترین اگلے سیٹ اَپ میں کسی اہم اور بڑے عہدے پر فائز ہو جائیں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جہانگیر ترین اس وقت سب کے پسندیدہ ترین ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ سب کو ان سے اپنا سیاسی مفاد جڑا نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اپنا فائدہ دیکھ رہی ہے۔ واقفانِ حال کے مطابق زرداری صاحب اپنی گیم میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ وہ گرم لوہا دیکھ کر ہتھوڑا چلا دیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف اس وقت کمزور پڑ چکی ہے۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ جہانگیر ترین گروپ‘ (ق) لیگ اور بلوچستان کی مختلف جماعتوں کیساتھ مل کر وہ مرکز میں مخلوط حکومت بنا لیں۔ اگر سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں پی پی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو پھروہاں اس کی حکومت بن سکتی ہے لیکن اگر پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت بن بھی جائے تو پیپلز پارٹی کے لیے قابلِ قبول ہوگا اور اس سے پیپلز پارٹی کی سیاسی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ زرداری صاحب بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ پورے پنجاب میں اکثریت حاصل نہیں کر سکتے لیکن اگر وہ جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کی دس سے 15نشستیں بھی لے جاتے ہیں تو وہ مرکز میں اپنی حکومت آسانی سے بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جہانگیر ترین کا کردار اہم ترین ہوگا کہ ان کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہوتا ہے یا نہیں؟