تکنیکی بنیادوں پر کھیلنے والے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی کا کھیل توشہ خانہ کیس میں انجام کو پہنچتا نظر آتا ہے۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے انہیں تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو زمان پارک لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا ۔ اگر اس کیس کے پس منظر کی بات کی جائے تو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد ان کے خلاف فوجداری کارروائی کاریفرنس عدالت کو بھیجا جس میں عدم پیشی کی وجہ سے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔گزشتہ برس اگست میں حکمران اتحاد کے پانچ ارکانِ قومی اسمبلی کی درخواست پرسپیکر قومی اسمبلی نے خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا۔ریفرنس میں الزام عائد کیاگیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔21 اکتوبر2022ء کو الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا۔الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63کی شق ایک کی ذیلی شق پی کے تحت نااہل کیااور حکم دیا کہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔فیصلے کے تحت چیئرمین پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیالیکن ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادنے چیئرمین پی ٹی آئی کو پانچ سال کیلئے نااہل قرار دے دیاہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے اس فیصلے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ''انصاف کاقتل‘‘ قرار دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انہیں موقع ہی نہیں دیا گیا‘سوال جواب کرنے‘ دفاع میں کچھ کہنے یا دلائل دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔کاش بیرسٹر صاحب کو یہ نا انصافی اس وقت نظر آجاتی جب تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مخالفین کو سیاسی انتقام کانشانہ بنایا گیا۔جب سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا گیا۔اس وقت نواز شریف بھی یہی کہہ رہے تھے کہ انہیں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا‘دلائل دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔لیکن اس وقت تحریک انصاف اس کو موقع غنیمت سمجھ رہی تھی۔الیکشن سے چند ماہ قبل میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے راستہ صاف کیاگیا۔2018 ء کے انتخابات ‘جن کو پی ڈی ایم کی جانب سے متنازع انتخابات کہا جاتا ہے‘ میں آر ٹی ایس کے سسٹم کوبٹھایا گیا اور چیئرمین پی ٹی آئی کومسندِ اقتدار پر بٹھایا گیا۔پھر اس کے بعد جو انتقامی کارروائیاںشروع ہوئیں ان کی مثال نہیں ملتی۔لیکن دنیا گول ہے‘آپ آج جو کریں گے کل کو وہ کاٹیں گے۔ دوسروں کیلئے مشکلات کھڑی کرنے والا خود بھی مشکلات میں پھنستا ہے۔ اَنا پسندی انسان کولے ڈوبتی ہے۔ آپ نے یہ حکایت تو پڑھی ہوگی کہ انا پسندی مقصد کے حصول میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ مراکش میں ایک درس گاہ تھی جہاں کوئی طالب علم حصولِ علم کیلئے جاتا تو اس کا سر منڈوا کر درس گاہ کے بڑے دروازے پربٹھا دیا جاتا تاکہ وہ ہر آنے والے کے جوتے سیدھے کرتا رہے‘ جب وہ پورے ذوق و شوق سے یہ کام کرنے لگتا تو اُس کی ترقی کر دی جاتی اور اُسے مہمانوں کے کھانے کے بعد برتن اُٹھانے پر لگا دیاجاتا‘ جب وہ اس میں بھی اپنا شوق شامل کر لیتا تو اُسے برتن دھونے کا کام دے دیا جاتا‘ جب وہ اس میں بھی اپنی لگن سے کامیاب ہو جاتا تواُسے مہمانوں کو کھانا پیش کرنے پر لگا دیا جاتا۔حتیٰ کہ اس کی حصولِ علم کی منزل شروع ہو جاتی اور بہت بڑا صاحب علم بن کر اس درسگاہ سے نکلتا۔ اس ساری مشق کا مقصد درس گاہ میں داخلے کے وقت اس طالب علم کے اندر موجود اَنا اور تکبر کو مارنا تھا۔
خان کے مخالفین کے مطابق یہی غرور اور اَنا انہیں لے ڈوبی۔سیاسی مبصرین کے مطابق خان صاحب نے اقتدارمیں آنے کے بعد تلخیاں ختم کرنے کی بجائے انہیں بڑھاوا دیا اوربے چینی و بے یقینی کی لہر کو بیدار کیا۔اُن کو چاہیے تھا کہ اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے۔ان کے ساتھ مل کر ملک کے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کرتے ‘لیکن وہ احتساب کی تلوار لیے اپنے مخالفین کے سیاسی گلے کاٹنے چل نکلے اور آخر میں اب خود ان کا گلا احتساب کے شکنجے میں پھنس گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو گھڑی لے کر فوری پیسے دینے چاہیے تھے لیکن اُنہوں نے گھڑی فروخت کرنے کے بعدتوشہ خانہ میں پیسے جمع کروائے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے چاہنے والے ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں‘اُن کا ماننا ہے کہ انتخابات سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو نا اہل قرار دینا اور قید کرنا مقصود تھا اور یہ کام کرلیا گیا۔لیکن اسلام آباد سیشن کورٹ کے جج کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی اپنے حق میں ثبوت دینے میں ناکام رہے۔جن گواہوں کی بات چیئرمین پی ٹی آئی اب کر رہے ہیں وہ پہلے کیوں پیش نہیں کیے گئے؟
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ‘ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے خود پر لگے کسی الزام کا جواب نہیں دینا چاہتے تھے‘ جواب مانگیں تو عدالت اور پولیس پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ اس پورے کیس میں قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد تحقیقات ہونے اور ریفرنس عدالت میں بھیجے جانے کے بعد‘ تمام دلائل مکمل ہونے اور پورا موقع دیے جانے کے بعد فیصلہ سنایا گیا ہے۔پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی نظر میں مریم اورنگزیب درست کہتی ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا لیکن انہوں نے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ 14 ماہ میں 40 سے زائد پیشیاں ہوئیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی صرف تین بار عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس دوران وہ ہر طرح سے اس کیس سے راہِ فرار اختیار کرنے کے راستے تلاش کرتے رہے۔اب وہ کہہ کر رہے ہیں کہ انہیں دفاع کا حق نہیں دیا گیا اور جب موقع دیا گیا تب وہ عدالت میں پیش ہونا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔
خان صاحب کے وکلاکے مطابق اب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ خان صاحب کو ریلیف ملتا ہے یا نہیں ؟ حکومت کو شاید اب بھی یہ لگتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کواعلیٰ عدالتوں سے ریلیف مل سکتا ہے‘شاید اسی کو دیکھتے ہوئے آج مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ ‘ وزیراعلیٰ سندھ اوروزیراعلیٰ بلوچستان اور وفاقی وزرا سمیت کئی اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کے دوران متفقہ طور پر نئی ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس کے دوران ڈ یجیٹل مردم شماری سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی‘ شرکاکو مردم شماری کا طریقہ کار اور نتائج سے متعلق تفصیلات فر اہم کی گئیں۔ اب نئی مردم شماری پر حلقہ بندیاں ہوں گی اور بادی النظر میں انتخابات اگلے سال مارچ یا اپریل تک چلے جائیں گے۔ملک کے سیاسی حلقوں میں اس بات پر بھی بحث کی جا رہی کہ کہیں یہ فیصلہ تو نہیں کر لیا گیا کہ کوئی ٹیکنو کریٹ نگران وزیر اعظم بنا کر نگران حکومت کی مدت کو غیر معینہ مدت کیلئے بڑھا دیا جائے ۔ ایسی باتیں کرنے والے نگران حکومتوں کو دیے جانے والے اختیارات کے حوالے سے پاس ہونے والے بل کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میری رائے میں انتخابات کو التوا میں ڈالنے سے ملک میں بے یقینی کی فضا مزید بڑھتی جائے گی‘ بے چینی کو ختم کرنے کیلئے بروقت اور شفاف انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔