کشیدگی کا ماحول جہاں بھی ہو وہاں منفی سوچ اور منفی رحجان پنپتے ہیں۔ جیسا ماحول ہو گا‘ انسان کی سوچ بھی ویسی ہی ہو گی۔ انسانی نفسیات ہے کہ اگر آپ کے اردگرد موجود لوگ فرسٹریشن کا شکار ہوں گے تو آپ بھی ان کو دیکھ کر فرسٹریٹ ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر آپ کے ارد گرد مثبت سوچ نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں تو آپ پُرسکون رہتے ہیں۔ کوئی آپ کو ہنس کر ملتا ہے تو آپ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آجاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کشیدگی اورگھٹن زدہ ماحول جہاں ہوگا وہاں اچھی اور مثبت سوچ جنم نہیں لے سکتی۔ ہماری سیاست کو دیکھ لیجئے‘ ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ ایک دوسرے کو زیر کرکے آگے بڑھنے کا چلن ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ والوں کو ہی دیکھ لیں‘ کبھی ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے گلے پڑتے ہیں۔ کبھی مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی میں گرمی سردی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نگران حکومت بھی آج کل تنقید کی زد میں ہے۔ تحریک انصاف بھی کسی سے خوش نہیں۔ انتخابات قریب نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی فضا کا مستحکم ہونا ناگزیر ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں اُترنے کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔ مولانا فضل الرحمان بھی یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ ان کی میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ عام انتخابات کے امور بھی زیر غور آئے۔ آصف علی زرداری سے مولانا کی ملاقات ایسے موقع پر ہوئی جب جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے کے دوران فاصلے بڑھے‘ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی کی جاتی رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس ملاقات کے بعد جوخوش آئند بیان دیا وہ یہ ہے کہ مسائل کا حل کسی ایک شخص یا جماعت کے پاس نہیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔ وقت آگیا ہے کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کریں‘ سیاسی جماعتوں کو اختلافِ رائے کے باوجود سیاسی گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ اس گنجائش کا فائدہ کسی ایک جماعت کو نہیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کو ہو گا۔ مولانا نے بہت زبردست مشورہ دیا ہے۔ سیاسی انتشار اور خلفشار سے نہ جمہوریت مضبوط ہو گی‘ نہ ہی ملکی مسائل حل ہو سکیں گے۔ سیاستدان کو کسی سے بھی اختلافِ رائے یا مختلف مؤقف رکھنے کا حق حاصل ہے لیکن اسے سیاسی انتشار کی اُلجھن کا شکار ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت کی مضبوطی ضد اور ہٹ دھرمی میں نہیں بلکہ جمہوری رویوں کی مضبوطی میں ہی پنہاں ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل کسی ایک شخص یا جماعت کے پاس نہیں‘ معاشی ترقی و استحکام‘ سیاسی و داخلی استحکام کیساتھ جڑا ہے۔ حالیہ بیان سے قبل بھی مولانا فضل الرحمان نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان سے متعلق ایک بیان دیا تھا کہ میں اپنے اس سیاسی مخالف کے خلاف بات نہیں کروں گا جو اس وقت جیل میں ہے۔ یہ بہت اچھی اور مثبت اپروچ ہے اور یہی اپروچ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو اختیار کرنی چاہیے۔
نگران حکومت نے بھی اب سیاسی ماحول کو سازگار بنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف نگران حکومت پر جانبداری کا الزام لگاتی ہے لیکن نگران حکومت اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد اور سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات میں شرکت کے مساوی مواقع کے اہتمام پر گفتگو کی گئی۔ شفقت محمود کہتے ہیں کہ شفاف انتخابات کے لیے تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع کی فراہمی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تحریک انصاف کو بھی برابری کی سطح پر سیاسی سرگرمیوں کے مواقع ملنے چاہئیں۔ شفقت محمود نے نگران حکومت سے یہ شکوہ بھی کیا کہ تحریک انصاف کو آئین و قانون کی روشنی میں انتخابی مہم چلانے کی بھی اجازت نہیں جبکہ دیگر جماعتوں کو ملک بھر میں جلسے جلوسوں کی کھلی آزادی ہے۔ اس ماحول میں منعقد کروائے گئے انتخابات خلافِ قاعدہ تصور ہوں گے اورعوامی سطح پر قبولیت سے محروم رہیں گے۔ تحریک انصاف کو یقینی طور پر جلسے کی اجازت ملنی چاہیے‘ ورنہ انتخابات کی شفافیت اور نگران حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھے گا۔ سوال تو پیپلز پارٹی میاں نواز شریف کی واپسی کے متعلق بھی اٹھا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ان کی واپسی کو ڈیل کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔
میاں نواز شریف کی واپسی کو لے کر نگران حکومت دباؤ کا شکار ہے۔ شاید اسی لیے نگران وزیر اعظم بار بارکہہ رہے ہیں کہ اس حوالے سے قانون ہر صورت اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو ریلیف ملتا ہے‘ ان کو فوری گرفتار نہیں کیا جاتا اور وہ حفاظتی ضمانت ختم ہونے سے پہلے عدالت میں پیش ہو جاتے ہیں تو پھر کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اب تو سب جان چکے ہیں کہ میاں نواز شریف کو کیسے عملی سیاست سے باہر کیا گیا۔ ایک نہ لی جانے والی تنخواہ پر انہیں کیسے نا اہل کیا گیا۔ یہ سارا بھید ان کے مخالفین خود کھول چکے ہیں۔ ویسے بھی ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں کہ نواز شریف وطن واپس پہنچنے پر جیل جائیں گے یا پھر جاتی امرا؟ ان کی قانونی ٹیم نے ان کی حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے اور اس درخواست کی سماعت کے لیے بینچ بھی تشکیل پا چکا ہے۔ یہ درخواست ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں دائر کی گئی ہے۔ رہی بات پیپلز پارٹی کے رویے کی تو یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جو میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیتی تھی کہ اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے تو وطن واپس آنا ہو گا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی (ن) لیگ کی مقتدرہ مخالف سیاست کی مخالفت بھی کرتی رہی ہے۔ آصف زرداری تو میاں نواز شریف کو مقتدرہ کے ساتھ مل کر چلنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں تو آج میاں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے۔ بہرحال میاں نواز شریف اب 21اکتوبر کووطن واپس آرہے ہیں۔ ان کی واپسی سے قبل مسلم لیگ (ن) نے کچھ جلسے بھی کیے جنہیں مخالفین کی طرف سے ناکام پاور شو قرار دیا گیا حالانکہ ٹھوکر نیاز بیگ اور شیخوپورہ میں مسلم لیگ نے بہت بڑا پاور شو کیا۔ قصور میں بھی حمزہ شہباز نے ایک بڑا پاور شو کیا۔
(ن) لیگ کی آئندہ سیاست کا مکمل انحصار میاں نواز شریف کی واپسی پر ہے کیونکہ پارٹی کو صرف اور صرف وہی بہتر طور پر چلا سکتے ہیں اور ووٹ بینک بھی انہی کا ہے‘ لیکن ان کے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ممکن ہے میاں نواز شریف عملی سیاست میں حصہ لے سکیں اور اگرحصہ نہیں بھی لیتے تو کم از کم ان کی جماعت کو بھرپور طریقے سے انتخابات لڑنے کی اجازت ہو گی۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو شنید ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین پر سائفر کیس میں فردِ جرم لگنے والی ہے۔ ان کی جماعت کے اہم ترین رہنما پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ عثمان ڈار اور صداقت عباسی کے بعد اب فرخ حبیب‘ جن کو پی ٹی آئی کا نظریاتی لیڈر کہا جاتا تھا‘ وہ بھی تحریک انصاف چھوڑ کر استحکامِ پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف کو نو مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اب سائفر کی طرح نو مئی واقعے پر بھی خان صاحب کے خلاف اُن کے اپنے ہی گواہیاں دے رہے ہیں جس کے بعد ان کا انتخابات میں حصہ لینا ناممکن نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے ہی رہنماؤں کی نو مئی کے واقعات کی گواہیوں کے بعد شاید تحریک انصاف آئندہ عام انتخابات میں اچھا پرفارم نہ کر سکے۔ بہر حال تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں اُترنے کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں اور سیاسی تناؤ کو کم ہونا چاہیے تاکہ سیاسی عدم استحکام ختم اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔