انسان روز مرہ کے کاموں میں اس قدر اُلجھ جاتا ہے کہ اس کا ذہن تھکاوٹ کا شکار رہنے لگتا ہے۔ ذہنی تھکاوٹ کو مٹانے کیلئے کھیل سے بہتر سرگرمی کوئی نہیں ہو سکتی۔ کھیل انسان کو نہ صرف جسمانی طور پر فٹ رکھتا ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی پُرسکون رہنے میں مدد کرتا ہے۔ ہمارے ہاں قومی کھیل ہاکی کے برعکس کرکٹ کو کہیں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ان دنوں تو ویسے ہی ورلڈ کپ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد اس میگا ایونٹ میں سنبھل نہیں پائی اور ایونٹ میں اب تک چار میچز ہار چکی ہے لیکن ابھی وہ ورلڈ کپ کے دوڑ سے باہر نہیں ہوئی۔ پاکستان بنگلا دیش کو ہرا کر شکست کا حصار توڑ چکا ہے اور پاکستان اگر نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف بھی میچز اچھے مارجن سے جیت جاتا ہے تو پوائنٹس ٹیبل پر دس سکور حاصل کر لے گا اور ممکن ہے کہ اگر مگر کے کُلیے پر پورا اُتر کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لے۔ ماضی میں بھی پاکستان کئی بار حیران کن طور پر بڑے ایونٹ سے باہر ہوتے ہوتے سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں امید کا دامن کسی بھی طور چھوڑنا نہیں چاہیے۔
پاکستانی ٹیم بری فارم میں ہے۔ ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں کشیدگی کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی ناقص کارکردگی سے فاصلہ اختیار کر لیا۔ چیئرمین پی سی بی نے سارا ملبہ چیف سلیکٹر اور ٹیم کے کپتان پر ڈال دیا۔ اس کے ایک دن بعد‘ 26اکتوبر کو‘ سابق کرکٹرز اور میڈیا کی جانب سے بابر اعظم اور ٹیم مینجمنٹ پر تنقید اور انہیں تبدیل کرنے کے حوالے سے پی سی بی نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ چیئرمین پی سی بی اور مینجمنٹ کمیٹی نے ورلڈ کپ سکواڈ میں چیف سلیکٹر اور کپتان کو فری ہینڈ دیا اور ان کی مرضی کے مطابق ٹیم بنانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے۔چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف کی طرف سے ساری ذمہ داری کپتان اور چیف سلیکٹر پر ڈالے جانے کے بعد جب اُن سے یہ کہا گیا کہ چیف سلیکٹر کی تعیناتی تو آپ ہی کے دور میں ہوئی تھی تو اس کے بعد چیئرمین نے اپنے ساتھ چیف سلیکٹر کو بھی بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چیف سلیکٹر کو ان کے دور میں تعینات کیا گیا لیکن انہوں نے خود ٹیم نہیں بنائی۔ انہوں ساری ذمہ داری گزشتہ چیئرمین پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم جو آئندہ کریں گے‘ اُس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ذکا اشرف پھر سے اپنے اس بیان سے پلٹے اور ایک بار پھر کھلاڑیوں کی سلیکشن کی پوری ذمہ داری چیف سلیکٹر پر ڈال دی۔ معاملہ کچھ ایسے پیش آیا کہ یہ خبر میڈیا کی زینت بنی کہ چیف سلیکٹر اور کرکٹ ٹیم کا ایک کھلاڑی پلیئرز مینجمنٹ کی ایک کمپنی یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ کے شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں‘ جس کو ان کا ایک ایجنٹ چلاتا ہے۔ بعد ازاں چیئرمین پی سی بی نے ایک انٹرویو میں اس معاملے کو Conflict of Interest قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف سلیکٹر نے سات آٹھ کھلاڑی قابوکیے ہوئے ہیں‘ سلیکشن بھی وہی کروا رہے ہیں۔ یعنی پہلے چیف سلیکٹر کو بری قرار دے دیا پھر ان کے خلاف چارج شیٹ بنا دی۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ Conflict of Interest کے معاملے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے سے پہلے ہی چیئرمین نے چیف سلیکٹر پر اتنا بڑا الزام لگا دیا۔ چیف سلیکٹر نے اس معاملے پر استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خلاف مفادات کے ٹکراؤ پر قائم کمیٹی کی تحقیقات تک عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ چیف سلیکٹر کلیئر ہونے کے بعد واپس اپنے عہدے پر براجمان ہو سکتے ہیں تب تک بورڈ نیا چیف سلیکٹر نہیں لگائے گا۔ چیف سلیکٹر کا کہنا تھا کہ اگر مجھ پر سوال اٹھے گا تو بہتر ہے کہ میں سائیڈ پر ہو جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جنہوں نے باتیں کی ہیں انہیں ثبوت بھی دینے چاہئیں۔ کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دکھ ہوتا ہے۔ دکھ کی تو بات ہے کہ ایسے وقت میں جب ٹیم کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت ہے‘ تب بورڈ ہی ان کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔چیف سلیکٹر کے معاملے سے پہلے ایک اور Controversy نے اُس وقت جنم لیا جب ایک شو میں ایک سابق کرکٹر راشد لطیف نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ‘ سی ای او اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ کو میسجز کر رہے ہیں لیکن بورڈ کے تینوں بڑے انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ پھر اس کے ردِعمل میں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پی سی بی نے راشد لطیف کے بیان کی تردید کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بابر اعظم نے کبھی بھی ان سے براہِ راست رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ راشد لطیف کہتے ہیں کہ میں بابر اعظم کا فون نہیں اٹھا رہا مگر ٹیم کا کپتان تو ہمیشہ ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ یا پھر سی ای او کے ذریعے رابطہ کرتا ہے۔ چیئرمین پی سی بی نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور سی ای او کے درمیان ہونے والی واٹس ایپ گفتگو کا سکرین شارٹ بھی دکھایا جو انٹرویو کے دوران ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ واٹس ایپ میسج میں سی ای او نے بابراعظم سے سوال کیا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبریں زیر گردش ہیں کہ آپ نے چیئرمین کرکٹ بورڈ کو کال کی لیکن وہ آپ کا فون نہیں اٹھا رہے‘ توکیا آپ نے انہیں حال میں کوئی کال کی؟ اس میسج کے جواب میں بابر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے سر یعنی چیئرمین کرکٹ بورڈ ذکا اشرف کو کوئی کال نہیں کی۔ ٹی وی پروگرام کے دوران بابر اعظم کے ذاتی میسج شیئر کرنے پر چیئرمین پی سی بی کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا بابر اعظم کا ذاتی میسج لیک کرنے سے پہلے انہوں نے ٹیم کے کپتان سے اس کی اجازت لی تھی یا نہیں؟ اور یہ سوال بنتا بھی ہے کہ کیا اپنے کپتان کے میسجز سرعام پبلک کرنا اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ ہی کھیل سے کھلواڑ کر رہا ہے۔ اگر اس طرح کا تناؤ اور ٹکراؤ والا ماحول ہوگا توکھلاڑی پرفارم کیسے کریں گے؟ بورڈ کو تو کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن یہاں معاملہ الٹا ہی لگ رہا ہے۔
راشد لطیف نے ایک اور الزام یہ لگایا کہ سب بابر اعظم سے اس لیے بھی ناراض تھے کیونکہ انہوں نے جوا کمپنیوں کا لوگو شرٹ پر لگانے سے انکار کیا تھا۔ کچھ سپورٹس جرنلسٹس اور سابق کرکٹرز کا یہ خیال ہے کہ ابھی یہ محاذ نہیں چھیڑا جانا چاہیے تھا‘ کم از کم کھلاڑیوں کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جاتا۔ کچھ کرکٹ ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ موجودہ چیئرمین نے عہدہ سنبھالنے میں جلدی دکھائی۔ ان سے پہلے سب کچھ نجم سیٹھی چلا رہے تھے‘ اگر کچھ گڑبڑ ہوتی تو سارا ملبہ ان پر گرتا لیکن اب سیٹھی صاحب خاموشی سے سائیڈ پر ہیں‘ اب ان پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ موجودہ چیئرمین کو کس نے کہا تھا کہ وہ اتنی جلدی میں آئیں۔ ہماری ٹیم اس وقت بھارت میں ہے اور ہمارا مذاق بن رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مدعا بعد میں اٹھایا جاتا۔ الزامات لگا کر پھر اس کی وضاحت دینے بھی وہ میدان میں آ گئے۔ ایک سپورٹس جرنلسٹ کے بقول جب ذکا اشرف چیئر مین پی سی بی بنے تو انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ان کے خلاف پٹیشن دائر کر دی گئی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ چیئرمین پی سی بی خود کو کلین چٹ دینے کی عجلت میں ہیں اور اس چکر میں ٹیم کا مورال اور ساکھ دونوں متاثر ہو رہی ہے۔