کیوں ظلم پر چُپ کر جاتے ہو
اک ظلم تو خود کر جاتے ہو
یہ شعر مجھے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم دیکھ کر اور امتِ مسلمہ کے اس پر خاموش رہنے پر یاد آیا۔ ظالم اور جابر کے سامنے حق بات کہنا یقینی طور پر مشکل ہوتا ہے لیکن جو ظلم کی کالی رات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو جائے‘ تاریخ اس کو ہی یاد رکھا کرتی ہے۔ ان دنوں اسرائیل کے خلاف سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پوسٹس کو کم بوسٹ مل رہا ہے۔ شاید اسی لیے بہت سے یوٹیوبرز اور نام نہاد فلاسفرز اپنے ویوز کے چکر میں اس موضوع پر بات کرنے سے گریزاں ہیں اور بہت سے مسلم ممالک امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے اپنے تعلقات خراب ہونے کے خوف سے دنیا کے سامنے فلسطین کے حوالے سے کوئی کھلا مؤقف رکھنے سے عاری ہیں۔ ایسے میں جو بھی فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہا ہے اور اسرائیل کی خونی جنگ کو ظلم کہہ رہا ہے‘ وہی ہمت والا انسان ہے۔
حال ہی میں ملک میں ایک ایسا واقع پیش آیا جس پر ہر طرف خوب چرچا ہوئی۔ ملک میں جاری نیشنل T20 کرکٹ لیگ کے ایک میچ کے دوران کرکٹر اعظم خان کو بلے پر فلسطینی جھنڈے کا سٹیکر چسپاں کرنے پر کرکٹ بورڈ کی جانب سے جرمانے کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں بورڈ نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔کرکٹ بورڈ نے اعظم خان پر میچ فیس کا 50فیصد جرمانہ عائد کیا تھا اور یہ جرمانہ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کے قواعد کے عین مطابق تھا مگر اب کرکٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بورڈ نے بلے باز اعظم خان پر جرمانے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ کرکٹ بورڈ نے ان پر عائد جرمانے کو ختم کرکے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ اعظم خان کے اس اقدام کے ساتھ کھڑا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی خلاف آواز اٹھانے والی اور بھی ایسی شخصیات ہیں جن کو اپنے کام سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ ان میں سے میکسیکو سے تعلق رکھنے والی اداکارہ میلیسا بریرا بھی ہیں جنہوں نے غزہ میں جاری اسرائیلی ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ میلیسا بریرا نے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی اور قتلِ عام کررہا ہے۔ اداکارہ نے اپنی ایک انسٹا گرام سٹوری میں کہا تھا کہ غزہ کو جیل بنا دیا گیا ہے‘ وہاں کے عوام کو پانی اور بجلی جیسی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا خاموشی سے غزہ میں ظلم و ستم ہوتا دیکھ رہی ہے۔ اس دنیا نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ان کی اس سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد امریکی پروڈکشن کمپنی اسپائی گلاس نے میلیسا بریرا کو ہالی ووڈ فلم ''Scream 7‘‘ سے نکال دیا۔ کمپنی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ہم اس طرح کی پوسٹس کو برداشت نہیں کر سکتے جس کے بعد اداکارہ نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے ایک اور بیان میں کہا کہ وہ سب سے پہلے یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا کی مذمت کرتی ہیں۔ وہ کسی بھی گروہ کے خلاف کسی بھی قسم کی نفرت اور تعصب کی مذمت کرتی ہیں اورکرتی رہیں گی۔
ہماری شوبز انڈسٹری کی شخصیات بھی فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیں اور بہت سی آوازیں خاموش بھی ہیں کہ کہیں ان کو ان کے کام سے محروم نہ ہونا پڑ جائے۔ مسلم ممالک کو دیکھ لیں‘ وہ بھی متحد نہیں۔ او آئی سی کے اجلاس بلا کر مذمتی قراردادیں پاس کر دی جاتی ہیں۔ او آئی سی نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود غیر مؤثر ہے۔ جب تک مسلم دنیا کی طرف سے باطل قوتوں کے خلاف متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی کے تحت اقدامات نہیں کیے جائیں گے‘ اسرائیلی دہشت گردی کو نہیں روکا جا سکتا۔ اگرچہ عارضی جنگ بندی ہو چکی لیکن غزہ پر صہیونی ریاست کی طرف سے بربریت کا جو سلسلہ جاری تھا‘ اس کے تعطل کا شکار ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں‘ ان سے پتا چلتا ہے کہ ڈیڑھ مہینے سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی اس جارحیت کے دوران غزہ کی 80 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کے 17لاکھ سے زیادہ باسی بے گھر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 10لاکھ سے زیادہ فلسطینی 156پناہ گزین مراکز میں موجود ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق سات اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اب تک چھ ہزار بچوں اور چار ہزار خواتین سمیت تقریباً 15ہزار فلسطینی شہید اور 36ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی مکمل تائید و حمایت سے ناجائز ریاست اسرائیل نے غزہ میں جو دہشت گردی کی‘ وہ کس حد تک سنگین تھی۔ غزہ میں چار روزہ جنگ بندی کے دوران حماس کی جانب سے اب تک مجموعی طور پر 58افراد کو رہاکرکے اسرائیل کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان میں 39اسرائیلی شہری‘ 17 تھائی‘ ایک فلپائنی اور ایک روسی نژاد اسرائیلی شہری شامل ہے۔ رہا ہونے والے ان افراد کو عوام سے دور رکھا گیا ہے اور انہیں میڈیا سے بھی بات کرنے کی اجازت نہیں لیکن ایک اسرائیلی صحافی نے ان افراد کے ردِعمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ حماس کی جانب سے یرغمالیوں پرکوئی تشدد یا برا سلوک نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی چینل 13کے فوج سے متعلق امور کور کرنے والے صحافی بین ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا۔ اس صحافی نے جب رہا ہونے والے افراد سے بات کی تو سب نے ایک ہی کہانی دہرائی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ حماس کے لوگوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ ہمیں کھانا اور ادویات فراہم کیں۔ حماس کے اراکین نے یرغمالیوں کو ایک برادری کی طرح اکٹھے رکھا۔ ان کے لیے لیکچرز کا انتظام کیا اور انہیں یوٹیوب تک رسائی بھی فراہم کی۔ اب جو یرغمالی رہا ہونے کے بعد حماس کے مثبت رویے کی تعریف کر رہے ہیں‘ اسرائیل کو ان کا بولنا بھی قبول نہیں اور اسرائیلی میڈیا ان پر تنقید کر رہا ہے۔ لیکن زبان بندی کرا دینے سے ظلم اور گناہ چھپنے والے نہیں ہیں۔ فلسطین کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پورے طریقے سے آشکار ہو چکا ہے۔
حماس اور اسرائیل نے قطر کی ثالثی میں چار روزہ جنگ بندی کے آخری روز جنگ بندی میں دو روزہ توسیع کردی۔ ترک میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد اسرائیل پورے غزہ میں شدید حملے کرے گا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے بقول یہ جنگ منطقی انجام تک ضرور پہنچے گی۔ اب اسرائیل پورے غزہ کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کروایا جائے‘ ورنہ ظلم کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ اسرائیل اور اس کے حامی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ باطل قوتوں کے خلاف مسلم ممالک اور دنیا کے مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک آواز بن جائیں‘ پھر دیکھیے گا کہ اسرائیل کیسے فلسطین کو میلی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مجموعی طور پر اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور کسی بھی خمیازے کی پروا کیے بغیر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھاکر اسرائیلی سفاکیت کا پردہ چاک کرتے رہیں۔