عام انتخابات کو لے کر ملکِ عزیز میں مختلف طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت بعض سیاسی جماعتیں انتخابات نہیں چاہتیں۔ دوسری طرف بیشتر تجزیہ کار ابھی سے انتخابات کی ساکھ پر سوالات اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک انتخابات میں تاخیر کا مطالبہ ہے تو اس میں سب سے آگے مولانا فضل الرحمان ہیں۔ مولانا صاحب انتخابات میں تاخیر کی جو چند ایک وجوہات بیان کرتے ہیں جو قابلِ فہم بھی لگتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اس وقت سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی ہے جسے شفاف اور غیر جانبدار انتخابات ہی دور کر سکتے ہیں‘ لیکن چونکہ فروری میں ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت پر ابھی سے سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ یہ جانبدار ہوں گے جس کا مقصد کسی ایک جماعت کو کامیابی دلانا ہے۔ ایسے جانبدار انتخابات سے سیاسی عدم استحکام کم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا۔ دوسری بڑی وجہ دہشت گردی کی لہر ہے۔ یہ بات درست ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے وقت بھی دہشت گردی عروج پر تھی‘ سیاسی جماعتوں کو بالخصوص کے پی میں انتخابی مہم چلانے میں کافی مشکلات پیش آئیں لیکن پھر بھی مقررہ وقت پر انتخابات منعقد ہوئے۔ اب حال ہی میں مولانا صاحب کی سکیورٹی گاڑی کے قریب فائرنگ کا واقعہ ہے‘ایسے میں اگر مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں کہ انہیں سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں تو یہ مان لینا چاہیے کہ وہ کسی صورت انتخابی مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ دیکھا جائے تو مولانا صاحب کا مؤقف اپنی جگہ وزنی ہے کیونکہ جب لیول پلینگ فیلڈ کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو انتخابی مہم چلانے اور انتخابات لڑنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اگر انتخابات کچھ دن کیلئے مؤخر ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں‘ الیکشن کمیشن ہماری درخواست پر غور کرے۔ مولانا کی یہ بات درست ہے کہ کے پی اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر خود کہتے ہیں کہ دونوں صوبوں میں صورتحال خراب ہے۔ زمینی حقائق بھی یہی بتاتے ہیں لیکن مولانا کے ناقدین اس کو اور ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب انتخابات میں جان بوجھ کر تاخیر چاہتے ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ مولانا صاحب نے انتخابات میں التوا کے لیے خود ہی حملے کی منصوبہ بندی کی ہو‘ حکومت پہلے ہی اس حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کر چکی ہے۔ نگران وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں بھرپور سکیورٹی دی جائے گی تاکہ انتخابات خیر و عافیت سے ہو جائیں کیونکہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انتخابات کو التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ مجھے لگتا ہے الیکشن روکنے کیلئے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا اشارہ اُن ملک دشمن عناصر کی طرف ہو سکتا ہے جو ملک میں استحکام نہیں دیکھ سکتے۔ بہرحال ضروری ہے کہ انتخابی رکاوٹوں کو دور کیا جائے تاکہ جمہوریت کا عمل رُکنے نہ پائے۔
اب بات کرتے ہیں انتخابات کی ساکھ کی۔ ابھی انتخابات کے انعقاد میں ایک مہینے سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اس کی شفافیت پر ابھی سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم ایچ آر سی پی نے نئے سال کی آمد پر ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق اس وقت سب سے اہم مسئلہ انتخابی عمل میں کھلی ساز باز ہے جس میں ایک سیاسی جماعت کو لیول پلینگ فیلڈ فراہم نہیں کی جا رہی۔ مذکورہ تنظیم کی طرف سے اس سارے معاملے پر ریاست کا ردِ عمل انتہائی غیرمناسب اور غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جانا پہچانا طریقہ کاراختیار کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاری‘ ان پر لگائے گئے الزامات‘ پارٹی کارکنان کے پُرامن اجتماع کے حق پر پابندیاں‘ گمشدگیاں‘ پارٹی رہنماؤں کا پارٹی یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا اور ابھی حال ہی میں امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی بڑے پیمانے پر مستردگی اس طریقہ کار کا حصہ ہے۔ کئی دیگر جماعتوں کو بھی کسی نہ کسی طرح اس سے ملتے جلتے مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت یہ ثابت کرنے کیلئے بہت کم شواہد موجود ہیں کہ اگلے انتخابات آزاد‘ شفاف اور غیر جانبدار ہوں گے۔ یہ بات درست ہے کہ اگر ایسے حالات میں انتخابات ہو ئے تو ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا‘ بالخصوص پی ٹی آئی 2013ء کی سیاست پر اُتر آئے گی۔ پہلے تو اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا لیکن اُس نے کنٹینر کی سیاست کی‘ اب تو تحریک انصاف ابھی سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔ ایسے میں انتخابات کے بعد بھی بے یقینی کی کیفیت ختم نہیں ہو گی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اگر غیر یقینی صورتحال ایسے ہی برقرار رہی تو ملکی معاشی نظام پوری طرح تباہ ہو جائے گا۔ عالمی بینک نے تو ہمارے معاشی ڈھانچے کو ناکارہ قرار دے دیا ہے۔ عالمی بینک کے پاکستان میں نمائندے نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے معاشی ماڈل سے متعلق یہ رائے قائم کرتے ہوئے اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات بیان کی ہیں‘ پہلی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود ہیں۔ دوسری وجہ پاکستان کا اپنے علاقائی ممالک سے پیچھے رہ جانا ہے۔ آزاد مارکیٹ‘ مضبوط حکومت‘ برآمدات پر مبنی معیشت‘ کم ٹیکس‘ کاروبار دوست پالیسیاں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ورک فورس بین الاقوامی سطح پر معاشی ماڈل کو جانچنے کے معیارات ہیں۔ معاشی ماہرین جب ان پیمانوں کی روشنی میں پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو انہیں یہ معاشی ماڈل ناکارہ لگتا ہے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کس طرح سے اس کشیدہ ماحول میں آزاد معاشی پالیسیاں بنا سکے گی جبکہ معاشی چیلنجز انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں جنہیں پُر امن ماحول اور ایک آزاد حکومت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات یقینی طور پر دھاندلی زدہ ہوں گے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے ملک میں اتنی زیادہ تعداد میں کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہیں ہوئے ہیں۔اگر سیاسی ہنگامہ برپا رہا تو معیشت کو ٹریک پر چڑھانے کا خواب بالکل بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان میں غیر شفاف انتخابات کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ شاید صرف ایک یا دو انتخابات ہوں گے جن کو مجموعی طور پرصاف شفاف کہا جا سکے۔ دیکھا جائے تو2018ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو آؤٹ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ 2018 ء سے پہلے بھی ایک سے زیادہ بار یہ کوشش ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو بھی الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش پہلی بار نہیں ہو رہی۔ اس سے پہلے متعدد بار یہ کوششیں ہو چکی ہیں۔ بہرحال اگر تاریخ کے تناظر سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ کچھ غیر معمولی نہیں ہے۔ پہلے ہر جماعت سسٹم کی بینی فشری بنتی ہے پھر جب نظام اس سے بیزار ہو کر اس کو سائیڈ لائن کر دیتا ہے تو وہ خود کو مظلوم ثابت کرنے پر تل جاتی ہے۔ جیسا کہ اس بار تحریک انصاف خود کو مظلوم ثابت کر رہی ہے۔ اگر انتخابات کو شفاف بنانا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو آئین اور قانون کی پاسداری کرنا ہوگی جس دن ہمارے رہبروں نے یہ ذہن بنا لیا کہ کچھ بھی ہو جائے‘ وہ محض عوامی ووٹوں پر منتخب ہو کر ایوان میں آئیں گے تو یقین جانیے دھاندلی کا شور ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا اور ملک میں مضبوط جمہوریت اور مضبوط معیشت پروان چڑھنے لگے گی۔