ہمارا مذہب ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ کہا گیا کہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ بگڑ جاتا ہے‘ لیکن ہم سنوار دینے والا راستہ چھوڑ کر دو انتہاؤں کو پہنچے ہوئے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں‘ یعنی ''نہیں‘‘ تو بالکل ''نہیں‘‘ اور اگر ''ہاں‘‘ تو پھر سو فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ 'ہاں‘۔ یہ انتہائیں ہر شعبۂ زندگی میں نظر آتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی اس ملک اور قوم کو دو انتہاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک انتہا پر ہمیں بانی پی ٹی آئی نظر آئے جنہوں نے آئی ایم ایف کو خط لکھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (IMF) پاکستان میں نئی حکومت کے ساتھ مالی پیکیج طے کرنے سے پہلے گڈ گورننس سے متعلق اور دیگر شرائط رکھے‘ علاوہ ازیں دو ہفتوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 30فیصد نشستوں کا آڈٹ یقینی بنانے کا تقاضا کرے۔ یہ خط اس زمینی حقیقت کے باوجود لکھا گیا کہ پاکستان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اسے معیشت کو سہارا دینے اور اس کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ایک اور پیکیج کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگر یہ پیکیج حاصل نہ کیا جا سکا تو پاکستان کے ڈیفالٹ کی نہج کو پہنچ جانے کا خطرہ اور خدشہ بڑھ جائے گا۔ یہ خود غرضی اور خود پرستی کی انتہا ہے جو ملکی اور قومی مسائل کو نظرانداز کرنے کا باعث بنی۔ میانہ روی اور اعتدال کو ایک لمحے کے لیے چھوڑ بھی دیں تو حب الوطنی کے تقاضے کیا ہوئے؟ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے نام پر ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ سراج الحق صاحب نے ٹھیک کہا ہے کہ عالمی اقتصادی ادارے کو اس طرح کی بات کہنا چوراہے پر کپڑے دھونے کے مترادف ہے۔ اس کی دوسری انتہا پر وہ لوگ کھڑے ہیں جو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ایک بڑی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں اور قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بے لوث کوششوں پر یقین رکھتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک انتہا چند روز قبل لاہور کے اچھرہ بازار میں نظر آئی جہاں ایک خاتون کے لباس پر لکھے الفاظ کو بنیاد بنا کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ شعوری‘ تعلیمی اور اخلاقی لحاظ سے جمود‘ سکوت اور رجعت کے شکار معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک میں ایسے واقعات اب عام ہوتے جا رہے ہیں جن میں حساس معاملات کو بنیاد بنا کر کسی پر کوئی بھی الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔ اس جمود کی دوسری انتہا پر اے ایس پی شہر بانو نقوی جیسے لوگ ہیں جو سوچ سمجھ رکھتے ہیں‘ عقل سے کام لیتے ہیں‘ منطق کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ٹھیک وقت پر ٹھیک فیصلے کر سکتے ہیں۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم میں کون سی چیز مسلمانوں والی ہے؟ مذہب ہمیں کہتا ہے کہ پورا تولو لیکن ہم نہیں تولتے۔ کچھ عرصہ پہلے واٹس ایپ پر ایک تصویر کسی دوست نے ارسال کی تھی جس میں ایک کلوگرام والا ایک لوہے کا باٹ ایک ڈیجیٹل ترازو پر رکھا گیا تھا اور ڈیجیٹل سکیل 970گرام وزن دکھا رہا تھا۔ ساتھ لکھا ہوا تھا: یورپ میں اور ہم میں فرق یہاں سے شروع ہوتا ہے۔
دین ہمیں کہتا ہے کہ کوئی چیز بیچو تو اگر اس میں کوئی نقص ہے تو خریدنے والے کو بتا کر بیچو تاکہ اُسے نقصان نہ پہنچے‘ لیکن یہاں کون ایسا کرتا ہے؟ ریڑھی والے سے پھل خریدیں تو طے کردہ پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود گلے سڑے اور ناقص پھل آپ کو دے دے گا۔ ہمارے پیارے نبیﷺکی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ روزمرہ کے معاملات میں خود کو ملاوٹ سے کتنا بچا پاتے ہیں؟ ملاوٹ کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے‘ لیکن دیکھ لیں گلی محلوں میں جو وافر دودھ فروخت ہو رہا ہے‘ اس میں کتنا خالص ہوتا ہے اور کتنا مشینوں کا تیار کردہ۔ زندگی کی کوئی ڈگر‘ کوئی روش‘ کوئی شعبہ‘ کوئی ایشو‘ کوئی معاملہ ایسا نہیں جس میں ہم دینِ فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوں‘ لیکن کسی خاتون کے حروفِ تہجی والے لباس سے ہمیں دین خطرے میں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور ہم اس کو قتل تک کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ بھی دین ہی کا حکم ہے کہ (مفہوم) جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘ اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔
زندگی کی بے یقینی سے نکلنے اور معاملات کو اعتدال پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دو انتہاؤں پر کھڑے ہونے کے بجائے دو انتہاؤں کے درمیان میں آ جائیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لینے سے ہم کبھی معتدل نہیں بن سکتے۔ ہر بندہ اللہ کا بندہ ہے۔ ہر بندے نے دنیا میں کیے گئے اپنے اعمال کا روزِ قیامت جواب دہ ہونا ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم دوسروں کو نیک بنانے کے بجائے خود اچھا بننے کی کوشش کریں اور دوسروں کے معاملات کو ان کے اور پروردگار کے درمیان رہنے دیں۔ اگر ہم ایسا کر سکیں ‘ ایسا بن سکیں تو یقین کریں ہماری زندگیاں آسان ہو جائیں گی اور خود بخود اعتدال کے راستے پر چل پڑیں گی۔ آئیے انتہاؤں کو چھوڑیں اور میانہ روی اختیار کریں کہ یہی ہمارے دین کا ہمارے لیے حکم ہے۔
یہاں مجھے ایک اور بات بھی کرنی ہے اور اس کا تعلق بھی انتہاؤں سے ہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے ایک غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیا ہے‘ جس پر اُن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے‘ انہیں شاباش بھی ملنی چاہیے‘ لیکن یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ انہوں نے بہرحال اپنی ڈیوٹی پوری کی ہے‘ اپنا فرضِ منصبی ادا کیا ہے۔ پولیس کا کام ہی لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے۔ اسی کی وہ سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں۔ اب اس معاملے کو اتنا بڑھانا اور اتنا ہائی لائٹ کر دینا بھی تو انتہا ہی ہے۔ یہ بھی تو انتہا ہی ہے کہ ایک خاتون باقاعدہ ان کا ہاتھ چوم رہی ہیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اچھائی اور اچھے کاموں کا اتنا فقدان ہو چکا ہے کہ معمول کے فرائض کی انجام دہی بھی غیرمعمولی محسوس ہونے لگی ہے؟ اس حوالے سے معیار میں ہم اتنا زوال پذیر ہو چکے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے واقعات بھی ہمیں غیرمعمولی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے رکنے اور یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیتِ مجموعی ہم اس حوالے سے بھی کسی انتہا کی جانب تو گامزن نہیں۔