بانی پی ٹی آئی نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا واحد پچھتاوا یہ ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ پر اعتماد کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ نے افراتفری پھیلانے کے لیے جھوٹے بیانیے بنائے تاکہ دوسری مرتبہ مدتِ ملازمت میں توسیع کرا سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں یقین ہے ان کی سزا بھی جنرل باجوہ کی ترتیب کردہ ہے اور وہ کسی اور کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ اس انٹرویو کو سامنے رکھ کر میں عالمی‘ علاقائی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالتا ہوں تو مجھے پچھتاووں کا ایک انبوہِ بے کراں نظر آتا ہے۔ ندامتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے پھیلے نظر آتے ہیں۔ عالمی تاریخ کو ایک طرف رکھتے ہوئے جب میں اپنے ملک کی 77 سالہ تاریخ کا جائزہ لیتا ہوں تو وہاں بھی پچھتاووں‘ شرمندگیوں‘ افسوس‘ پشیمانیوں‘ حسرتوں‘ ملال‘ تاسف اور ندامتوں کا ایک پہاڑ نظر آتا ہے۔
آغاز بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح سے کر لیتے ہیں۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘ تو کیا اسے مملکتِ خداداد پاکستان بننے کے بعد پہلا پچھتاوا کہا جا سکتا ہے؟ وہ کھوٹے سکے کون تھے؟ نہ کسی نے اس وقت اس کا اندازہ لگایا اور نہ اب تک اس راز کا پتا چلایا جا سکا ہے۔ وہ کھوٹے سکے جو بھی تھے‘ چلتے رہے اور آج وطنِ عزیز جن دوراہوں اور چوراہوں پر کھڑا ہے‘ اسی کا نتیجہ ہے۔ کیا ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے بے وقت اور بے موقع قتل کو پاکستان کی قومی زندگی کا دوسرا پچھتاوا قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر کیا ایک ذہنی اور جسمانی طور پر اپاہج اور معذور شخص (ملک غلام محمد) کو گورنر جنرل کے طور پر سامنے لانے والوں کو کبھی کوئی پچھتاوا ہوا؟ یا گورنر جنرل غلام محمد نے دو مرتبہ قانون ساز اسمبلی توڑی اور دو وزرائے اعظم کو فارغ کیا تو کیا انہیں کسی قسم کا کوئی پچھتاوا ہوا؟ قوم تو اب تک پچھتا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گورنر جنرل غلام محمد ہی تھے جنہوں نے فوج کو باقاعدہ طور پر سیاست کے ایوانوں میں آنے کی اجازت دی اور عدلیہ کو اپنی (یعنی غلام محمد کی) مرضی کا فیصلہ سنانے پر مجبور کیا۔ تو کیا غلام محمد کو اپنے ان فیصلوں اور اقدامات پر کبھی کوئی پچھتاوا ہوا؟ تاسف اور پشیمانی کا کوئی قطرہ کبھی اُن کے ماتھے پر جھلکا۔ ان کی جبیں کبھی عرقِ انفعال سے نم ہوئی؟
صدر اسکندر مرزا کو بھی اس بات کا پچھتاوا ہوا ہی ہو گا کہ انہوں نے مارشل لاء لگا کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی کیوں ماری۔ شاید انہیں احساس بھی نہیں ہوا ہو گا کہ یہ کلہاڑی صرف اُن کے پاؤں پر نہیں پڑی تھی‘ اس ریاست اور پوری قوم کے پاؤں پر بھی پڑی تھی‘ جس کا زخم اب تک تازہ ہے۔ نظریۂ ضرورت گھڑنے والوں اور اپنی بالادستی کے لیے ون یونٹ جیسا فارمولا تشکیل دینے والوں کو بھی کچھ نہ کچھ پچھتاوا تو ہوا ہی ہو گا۔ شاید اُن اربابِ بست و کشاد کو بھی‘ جنہوں نے مشرقی پاکستان کے معاملات کو طاقت کے ذریعے ٹھیک کرنے کی ٹھانی تھی۔ جب جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا تو انہیں ذوالفقار علی بھٹو کو آگے لانے پر تاسف ہوا ہو گا‘ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو یہ پچھتاوا ہوا ہو گا کہ انہوں نے کئی جرنیلوں کو سپرسیڈ کر کے ضیاء الحق کو کیوں آرمی چیف بنا دیا۔ ممکن ہے جنرل ضیاء الحق کو سی ون تھرٹی طیارے کے حادثے کے وقت یہ پچھتاوا ہوا ہو کہ انہوں نے ملک کو افغان سوویت جنگ میں کیوں جھونک دیا۔ انہیں غالباً محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنانے پر بھی پچھتاوا ہوا ہو گا‘ جس کے ازالے کے لیے انہوں نے (غیر جماعتی طور پر ہی سہی) ایک منتخب حکومت کو بیک جنبشِ قلم چلتا کیا۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران محمد نواز شریف کو بینظیر بھٹو اور بینظیر بھٹو کو نواز شریف کے سیاسی فیصلوں اور اقدامات پر غصہ آیا ہو گا اور انہیں یہ پچھتاوا ہوا ہو گا کہ فلاں وقت پر فلاں فیصلے کر لیتے تو اچھا ہوتا۔ ممکن ہے کسی مقام پر‘ کسی موقع پر میاں نواز شریف کو یہ پچھتاوا ہوا ہو کہ انہوں نے 'ڈکٹیشن نہ لینے‘ کی بات کیوں کہہ دی کہ اپنی حکومت ہی گنوا بیٹھے۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بینظیر بھٹو کو پچھتاوا ہوا ہو کہ انہوں نے فاروق لغاری کو صدر کیوں بنایا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی طرز پر میاں محمد نواز شریف کو اس بات پر پچھتاوا ہوا ہو کہ انہوں نے کئی جرنیلوں کو چھوڑ کر پرویز مشرف کا بطور آرمی چیف انتخاب کیوں کیا۔ کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ پرویز مشرف جس طرح صدر بنے انہیں اس بات پر کبھی پچھتاوا ہوا ہو‘ یا انہوں نے جو ایمرجنسی لگائی اور جس طرح چیف جسٹس کو اپنے خلاف کر لیا انہیں اس پر کوئی افسوس ہوا ہو یا نہیں‘ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور صرف صدر بننے پر وہ ضرور پچھتائے ہوں گے کہ اس فیصلے کے بعد انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔ 2008ء میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے پر صدر آصف زرداری پچھتائے ہوں گے یا نہیں‘ یہ معلوم نہیں لیکن یہ طے ہے کہ نواز شریف ماضی میں کئی بار دہرائے گئے عمل کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کئی جرنیلوں کو چھوڑ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنانے پر ضرور پچھتائے ہوں گے۔
اب کچھ ایسے ہی پچھتاوے کا اظہار بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں۔ کہاوت ہے کہ غلطیاں ہو جاتی ہیں لیکن ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر ان کو دہرایا نہ جائے تو ان غلطیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے‘ لیکن یہاں تو غلطیوں‘ غلط اقدامات اور غلط فیصلوں کا ایک پورا سلسلہ ہے جو 77 برسوں سے جاری ہے اور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس سارے عرصے میں عوام غالباً یہ سوچ سوچ کر پچھتاتے رہے ہوں گے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے منتخب ہی کیوں کرتے ہیں جو غلطیوں پر غلطیاں کرتے اور پھر خود بھی پچھتاتے ہیں اور ان (عوام) کو بھی پچھتانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے حکمران اب بھی کچھ سیکھیں گے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سیاستدان جب اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں تو ہی غیر سیاسی قوتوں کو آگے آنے اور گورننس کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا موقع ملتا ہے۔ اہلِ سیاست اگر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا چھوڑ دیں تو ممکن ہے پچھتاووں کا یہ سلسلہ بند ہو جائے اور اعتماد کی وہ فضا قائم ہو جو قومی ترقی کے لیے ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ کیا ایسی کوئی فضا کبھی قائم ہو سکے گی‘ دعا تو ہے کہ ایسی فضا قائم ہو جائے لیکن فی الوقت اس کے آثار نظر نہیں آتے‘ اور وجہ ہے ہماری افتادِ طبع‘ خود کو عقلِ کُل سمجھنے کی روش اور ماضی سے سبق نہ سیکھنے کا چلن۔ حالات اس ڈگر تک پہنچ چکے ہوں تو پھر نئے پچھتاووں کا منتظر ہی رہنا پڑتا ہے۔