گزشتہ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار کے روز جو کچھ ہوا‘ وہ میں نے بھی دیکھا‘ اور آپ نے بھی دیکھا‘ اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے پہلی دفعہ نہیں دیکھا۔ گزشتہ 77برسوں میں متعدد بار ایسا ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سیاست اسی کو کہتے ہیں؟ کیا دوسرے ممالک میں بھی سیاست اسی طرح ہوتی ہے؟ کیا دوسری قومیں بھی اسی طرح چائے کی پیالی میں طوفان اٹھائے رکھتی ہیں اور پھر یہ طوفان چائے کی پیالی کا طوفان ہی ثابت ہوتا ہے؟ اس زمینی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برسرِ اقتدار ہر حکومت کا حق ہوتا ہے کہ وہ نئی قانون سازی کرے اور پہلے سے موجود قوانین کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے اور اسے اس حق سے کسی طور محروم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن قانون سازی کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی اٹھے اور ایک نیا قانون بنانے کے عمل کا آغازکردے۔ پہلے آپس میں مشورے کیے جاتے ہیں‘ پھر ایک ڈرافٹ تیار ہوتا ہے۔ اس ڈرافٹ کو کئی حوالوں‘ زاویوں اور جہتوں سے پرکھا جاتا ہے۔ اس کے قابلِ عمل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ قانونی ماہرین سے مشورے کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ڈرافٹ یا مسودہ متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کا ہر رکن اس پر آنکھیں بند کر کے آمنا وصدقنا نہیں کہہ دیتا بلکہ ہر فرد اس مسودے کا تفصیلاً مطالعہ کرتا ہے‘ ضروری نوٹس لکھتا ہے اور نئی تجاویز پیش کرتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد اسے کابینہ میں پیش کیا جاتا ہے جہاں اس مسودے پر بحث ہوتی ہے اور اس کے بعد ہی اسے قبول یا مسترد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں کسی قانون سازی کے لیے یا کسی آئینی شق میں ترامیم کے لیے طریق کار کا باقاعدہ ایک سلسلہ ہے‘ جس پر عمل کرنے سے ہی قانون سازی اور آئینی شقوں میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ایک ہی دن میں مسودہ پیش کیا جاتا ہے‘ اسی روز کابینہ مسودہ پاس کرتی ہے اور اسی روز وہ قانون بھی بن جاتا ہے۔ بلکہ ایک دن میں کئی کئی قوانین منظور ہوتے بھی مشاہدے میں آتے رہے ہیں۔ ایسی اور اس طرح کی قانون سازی ہو گی تو ظاہر ہے اس کے اثرات بھی ایسے ہی ہوں گے‘ جیسے ظاہر ہو رہے ہیں کہ کسی شعبے کا کوئی معاملہ اور کوئی حصہ مؤثر طریقے سے کام کرتا نظر نہیں آتا اور جس بھی شعبے کا ذرا گہرائی تک جائزہ لیا جائے‘ وہاں پر کرپشن‘ اختیارات کا ناجائز استعمال‘ بدمعاملگی اور ابتری ہی نظر آتی ہے۔
ہمارے ہاں سیاست کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اب یہ نظریاتی اور اقداری نہیں رہی بلکہ اقتداری بن چکی ہے۔ اس غیر نظریاتی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس میں آج ایک پارٹی کا وفادار رہنما آنے والے کل میں کسی دوسری پارٹی کے ساتھ بھی اتنی ہی وفاداری کا ثبوت دیتا نظر آئے گا۔ سیاست کے نظریاتی نہ رہنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کو الیکشن کے دوران درست اور غلط امیدوار کے انتخاب میں اب زیادہ مشکل پیش آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ خود سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ ایک پارٹی چھوڑ کر ان کا حصہ بننے والا سیاسی رہنما ان کے ساتھ مخلص بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ اگر وہ وفادار ہے تو پتا نہیں کتنی دیر تک وفادار رہے گا۔ ایسے سیاسی رہنمائوں کو جب موقع ملتا ہے اور جہاں زیادہ فائدہ نظر آتا ہے‘ فوراً وہاں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ میرے خیال میں سیاست ہوتی ہی وہ ہے جو نظریات پر مدار کرتی ہو۔ آج ہمارے ملک کی سیاست خود کو اگر بار بار کسی نہ کسی نئے دوراہے پر کھڑا پاتی ہے تو اس کی وجہ سیاست کا غیر نظریاتی ہو جانا ہی ہے۔ وہ سیاست ہی کیا اور وہ سیاستدان ہی کیا جس کا کوئی نظریہ نہ ہو‘ جس کے پاس کوئی آئیڈیالوجی نہ ہو۔
ہمارے ملک کی سیاست کا ایک اور بڑا مسئلہ منطق اور دلیل کا ختم ہو جانا ہے۔ اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی حکومتیں اپنے مخالفین کو منطق اور دلیل کے ہتھیار سے قابو کرنے کے بجائے نیب جیسے اداروں اور جھوٹے‘ سچے مقدمات کے ذریعے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان مقدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں تشدد در آیا اور پارٹی کا پارٹی پر اور سیاستدان کا سیاستدان پر اعتماد ہی اٹھ گیا۔ عدم اعتمادی کی انتہا یہ ہے کہ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی حکمران پارٹی کے تحت الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ نگران سیٹ اپ کے ذریعے انتخابات کرائے جائیں جبکہ نگران سیٹ اپ حکمران اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتفاقِ رائے سے قائم کیا جائے۔ حیرت یا پھر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کوئی پارٹی نگران سیٹ اپ کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ موجودہ صورتحال ہی کو لے لیں۔ آٹھ فروری کو ایک نگران سیٹ اپ نے الیکشن کرائے لیکن کوئی بھی اس کے نتائج کو دل سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جو ہارے وہ بھی اور جو جیتے وہ بھی۔ میرے خیال میں سیاست میں مخالفین کو سبق سکھانے اور تابع فرمان بنائے رکھنے کا سلسلہ خاصا آگے نکل چکا ہے‘ بلکہ اگر درست بات کی جائے تو یہ سلسلہ اب حدیں پار کر چکا ہے۔ اس قدر آگے نکل چکا ہے اور اس قدر متجاوز ہو چکا ہے کہ اب مخالفین کو دبائے رکھنے کے لیے آئین میں ترامیم ہونے لگی ہیں۔ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا‘ اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ اس بارے میں کوئی پیش گوئی بھی نہیں کی جا سکتی کہ سیاست کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ اور اپنے ہی طور اطوار اور تیور ہوتے ہیں۔
جمعہ کے روز سیاست کی پیالی میں اٹھایا جانے والا طوفان تو فی الحال تھم چکا ہے اور جلد اس کے دوبارہ طوفان بننے کے امکانات کم نظر آتے ہیں کیونکہ پیر کے روز سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں مجوزہ آئینی ترامیم کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کی آزادی کے منافی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف آئینی ترامیم کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کو عدلیہ کی آزادی کے خلاف اور آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم آئینی ترامیم سے روکا جائے۔
فرانس کے سابق صدر Charles de Gaulle نے ایک دفعہ کہا تھا:
I have come to the conclusion that politics are too serious a matter to be left to politicians.
یعنی (اپنی تمام تر سیاست کے بعد) میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیاست ایک ایسا سنجیدہ معاملہ ہے جس کو سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ البتہ میرا خیال سابق فرانسیسی صدر سے کچھ مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاستدان ہی چلا سکتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کی سنجیدگی مفقود ہو چکی ہے۔ سنجیدگی ہی نہیں‘ سیاست صبر وتحمل بھی سکھاتی اور اس کی متقاضی ہے۔ ہماری سیاست‘ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں میں برداشت ہی نہیں‘ صبر وتحمل کی کمی بھی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ صبر وتحمل کے نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا کوئی ایک بھی وزیراعظم آج تک اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر سکا۔ ملکی سیاست میں کیا کچھ ہوتا رہا‘ آپ میں سے بہت سے لوگوں کے علم ہو گا۔ سیاسی حکومتوں کے ٹوٹنے بننے کے معاملات کا جائزہ اگلے کالم میں۔ یہ بھی کہ اس ٹوٹ پھوٹ میں کتنا قصور سیاستدانوں کا تھا اور کتنا اُن قوتوں کا جن پر طالع آزمائی کا لیبل لگایا جاتا ہے۔