انگریزی میں کہتے ہیں:Show me a hero and I'll write you a tragedy۔بعینہٖ معاملہ ہمارے ممدوح محمد پکتھال کا ہے جنہوں نے قرآن مجید کا ایسا ترجمہ کیا جس کی ایک صدی گزرنے کے بعد بھی کوئی مثال موجود نہیں۔ یوں تو قرآن پاک کا عربی سے دوسری زبانوں میں ترجمہ بعض روایات کے مطابق دور ِنبویؐ میں ہی شروع ہو گیا تھا کہ بعض کتب کے مطابق حضرت سلمان فارسیؓ نے سورۃ الفاتحہ کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، اسی طرح اموی خاندان کے دورِ حکومت میں عمرؒ بن عبدالعزیز کی ہدایت پر سندھی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا گیا تھا، اس کے علاوہ بھی دنیا کی دیگر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوتا رہا مگر انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ خاصی دیر بعد ہوا کہ یورپ میں اس وقت تاریک عہد کا راج تھا۔
جارج سیل نے 1734ء میں کلامِ پاک کا انگریزی ترجمہ کیا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب مغرب میں نیا معاشرہ کروٹ لے رہا تھا، بادشاہت اور کلیسا کے گٹھ جوڑ پر کاری ضرب لگ چکی تھی اور یہ دونوں ادارے اپنے تنزل کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ مشرق سے علم وہاں منتقل ہو چکا تھا اور مشرق کی علمی روایت قریب المرگ تھی‘ آج اس کی تدفین کو سات صدیاں ہو چکی ہیں اورزمانہ مغربی علوم و فنون کا پرچم تھامے کھڑا ہے۔ جب جارج سیل نے ترجمہ کیا اس وقت مسلم امہ پانچ براعظموں پر حکومت کر رہی تھی مگر مسلم امہ پر کہولت کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے تھے۔ مسلم قوم کا زوال پوری دنیا میں تقریباً ایک ساتھ ہی شروع ہوا۔
جب جارج سیل برطانیہ میں تراجم کر رہے تھے‘ اس وقت مسلم دنیا کے تین طاقتور مراکز تھے، ہمارے یہاں ہندوستان میں اورنگ زیب کی وفات ہو چکی تھی اور مغلیہ سلطنت شہزادوں اور وزرا کی باہمی چپقلش کی وجہ سے کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ اورنگ زیب کا ایک بیٹا جہان دار شاہ تان سین کی پڑپوتی کی زلف کا اسیر تھا اور کنور لعل اور اس کے سازندے و رشتہ دار امورِ مملکت چلا رہے تھے۔ ایران میں افشاریہ خاندان کی حکومت بن چکی تھی اور نادر شاہ دلّی پر حملے کی تیاری کر رہا تھا؛ البتہ تیسرے مرکز قسطنطنیہ میں سطنتِ عثمانیہ میں ابھی دم خم تھا اور وہ روس اور آسٹریا سے جنگ جیت کر امن و سکون سے کام کر رہی تھی مگر وہاں چھاپہ خانے کو ممنوع قرار دے رکھا تھا۔
محمد مار ماڈیوک پکتھال(1875-1936) بنیادی طور پر ادیب اور ناول نویس تھے، ان کا ایک ناول 1921ء میں پہلا پہر(Early Hours) شائع ہوا تھا۔وہ سیّاح بھی تھے اور سیلانی طبیعت کے مالک تھے‘ یہی سیلانی طبیعت انہیں فلسطین لے گئی جہاں ایک ڈولنگ نامی انگریز برطانوی سفارت خانے میں کام کرتا تھا، بس یہیں سے پکتھال کی زندگی میں وہ انقلاب برپا ہوا جو پایانِ کار ان کے مسلمان ہونے پر منتج ہوا۔ وہ عرب علاقوں بالخصوص Levant کے علاقوں میں مقیم رہے، خود مسلمان ہو گئے مگر بیگم عیسائیت پر قائم رہیں۔ ایامِ جوانی میں یہ جوانِ رعنا فوسٹر اور ڈی ایچ لارنس کا دیوانہ تھا مگر دینِ اسلام سے ان کی محبت نے برصغیر کے مسلمانوں کو بالخصوص اور مغرب میں بالعموم دوبارہ زندگی دی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسلام اور ترقی پسندی پر بہت سارے لیکچر دیے۔
محمد پکتھال کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے اور ان کی وجہ شہرت بھی یہی ہے مگر یہاں وہ پوری طرح متعارف نہیں ہوئے اور ان کا قرآن پاک کے ترجمے کے علاوہ کام‘ عام آدمی کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ان کا بنیادی تھیسز وہی ہے جو اقبال کا ہے اور جسے اقبال نے اپنے فلسفۂ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں ایک مربوط شکل میں پیش کیا ہے اور نثر میں علامہ صاحب کا وہ کام اپنی معراج پر پہنچا ہوا ہے۔ پکتھال اور علامہ صاحب کا اسلام کو سمجھنے کا انداز ایک ہی طرح کا تھا جس کی بنیاد اس دین کی ازلی سچائی سے اٹھائی گئی ہے۔ ان دونوں شخصیات نے اپنے لیکچر جنوبی ہندوستان میں ہی دیے۔ خود پکتھال کی زندگی کا بیشتر حصہ حیدر آباد دکن میں گزرا اور وہیں وہ ایک سکول میں پرنسپل متعین رہے۔ ان کی علمی قابلیت اور استعداد کا اظہار سر راس مسعود کے ان الفاظ میں بھی ہوتا ہے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت ہندوستان میں علمی صلاحیتوں سے مملو آدمی پکتھال سے بڑھ کر کوئی نہیں اور ان کی عمر میں رعایت بھی کی۔ ویسے اس وقت (یعنی ایک صدی قبل) ریٹائرمنٹ کی عمر پچپن سال تھی، جس میں رعایت دی گئی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی پستی کا بغور مطالعہ کیا اور اس نکتے پر پہنچے کہ مسلمان قومیں جہالت، قصص، روایات اور توہمات میں غرق ہو چکی ہیں البتہ من گھڑت عقائد اور رواجوں کا کمزور نظام فراستِ مومن کی ذرا سی آنچ سے جل کر خاکستر ہو سکتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان کی سوچ اور علامہ کی سوچ میں کس قدر مماثلت ہے، علامہ صاحب انہی محرکات پر غور کر رہے تھے اور یہ نکات ان کی نظر سے قطعاً اوجھل نہیں ہوں گے اور یہی نقطہ نظر انہوں نے اپنے فلسفۂ شعر میں بھی بیان کیا۔ ان دونوں کی اس مماثلت نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نیا ولولہ اور جذبہ دیا جو اصل معنوں میں تخلیق ِپاکستان کا سبب بنا۔پکتھال نے اپنے آٹھ لیکچرز میں ملاّ اور ملائیت پر شدید تنقید کی ہے مگر یہ وہ ملاّ ہیں جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور اپنے جامد نظریات کے قیدی ہیں۔ ان کے بنیادی تھیسز کی پہلی اینٹ ہی یہ ہے کہ سب سے پہلے فکری راہ کا معین ہونا بنیادی شرط ہے اور اپنے نقطہ نظر کی صراحت پر یقین ہونا ہے۔
پکتھال 1917ء میں مسلمان ہوئے اور قرآن پاک کا ترجمہ انہوں نے 1930ء میں کیا۔ لندن میں اسلام اور ترقی پسندی پر تقریر کے بعد ڈرامائی انداز میں اسلام قبول کیا۔ وہ انگریزی‘ ہسپانوی‘ فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کا ترجمہ نیویارک اور لندن میں ایک ساتھ 1930ء میں شائع ہوا۔ Meaning of Glorious Islam کا ترجمہ میر عثمان علی نظام آف دکن کی مدد سے ہی مکمل ہوا۔ میر عثمان نے پکتھال کو ہر قسم کی سہولت مہیا کی اور اس کام میں دلچسپی لی، اسی لیے پکتھال نے کہا تھا: حیدر آباد پوری دنیا کے مسلمانوں کا دارالخلافہ ہے۔ پکتھال پوری دنیا کے مسلمانوں میں پیدا ہوتی بے چینی کو دیکھ رہے تھے، جنگ کے بعد ترکی کے حالات پر بھی ناخوش تھے۔ ایک وقت تھا کہ ترکی نے ان کو گورنر بنانے کی بھی آفر کی تھی مگر انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کیں۔
ان کا ایک اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے مسلم دنیا کے حالات سے برطانیہ کو آگاہ کیا کہ اصل طاقت کا مرکز اور منبع وہی ملک تھا اور وہی مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے زمینی اختیارات کا مالک تھا۔ جنگ عظیم اول کے بعد انگریز نے جس طرح مسلم ممالک اور مسلمانوں سے سلوک روا رکھا تھا اس کے سب سے بڑے ناقد بھی وہی تھے۔ وہ اپنی مرضی کے مالک تھے اور اپنی رائے کا اظہار کھل کر کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہیں ہندوستان میں ایک انگریزی اخبار کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔اقبال نے اپنا بنیادی فلسفہ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ 1930ء میں پیش کیا جو مدراس اور علی گڑھ میں پڑھا گیا۔ اس تھیسز کی روشنی میں خطبہ الٰہ آباد پیش کیا گیا جس میں ایک باقاعدہ مسلم ریاست کا تصور موجود تھا۔ اقبال کے شہرہ آفاق لیکچر سے پہلے محمد پکتھال بھی اسلام کے مختلف پہلوئوں پر اسی نہج پر لیکچر دے چکے تھے اور اسلام کی حقانیت اور ابدی سچائی پر بہت کچھ کہہ چکے تھے۔
برصغیر پاک و ہند میں فکری علمی اور سیاسی نشاۃِ ثانیہ کے احیا میں جہاں اور بہت سے عوامل ہیں‘ وہاں محمد پکتھال کاترجمۂ قرآن خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ فکری‘ علمی اور سیاسی نشاۃ ثانیہ ایک دوسرے میں مرتکز اور مجتمع ہو کر اور ایک دھارے میں ڈھل کر تخلیق پاکستان کا سبب بنی۔ تخلیق پاکستان اس فکری اور علمی یافت کا ہی نتیجہ تھی۔ اس دور میں اس جذبے کی شدت کے لحاظ سے کسی کی اہمیت کم نہ تھی۔ مسلم قوم کو ایک فکری ژولیدگی سے بچانے میں پکتھال، حسن نظامی، جوہر، اقبال اور دوسرے کئی اکابرین کا بنیادی کردار ہے۔ ان لوگوں نے تو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو نقطۂ عروج تک پہنچا دیا تھا البتہ قیامِ پاکستان کے بعد آنے والی قیادت اس دولت کو سنبھالنے کی اہل ثابت نہ ہو سکی۔ حالانکہ پوری دنیا میں ایک خاص قسم کا پیغام دیا جا سکتا تھا مگر حکمرانوں نے نہ صرف اس سرمائے کی قدر اور حفاظت نہ کی بلکہ چند سالوں میں ہی اس فکری دولت کی راکھ تک اڑا دی۔ اتنی بڑی دولت اور مملکت کی بے توقیری کی سزا بھی ملنا تھی‘ سو ملی اور قوم اب پھر اسی فکری ژولیدگی کا شکار ہے جس کا ایک صدی پہلے شکار تھی‘ جب پکتھال بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے۔ راستہ کھوٹا کرنے اور راستہ کھو دینے کی یہ کہانی بہت عبرت آموز ہے، اس پر بھی بات ہو گی مگر اقبال اور پکتھال کی فکری ہم آہنگی پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔