یوں تو دنیا میں ٹیچر ڈے منانے کے لیے مختلف دن مقرر ہیں‘ ہمسایہ ملک میں یہ پانچ ستمبر‘ ایران، بنگلہ دیش اور ہمارے ہاں پانچ اکتوبر کو منایا جاتا ہے مگر دن کے فرق سے کیا ہوتا ہے؟ اصل مقصد تو اس شخصیت کو سلام پیش کرنا ہے جو ایک قوم کی اگلی نسل اور نونہالوں کی شخصیت سازی کرتی ہے۔ ہماری خوش نصیبی کہ زندگی میں یوں تو بہت اساتذہ ملے جن سے ہم نے بہت کچھ پڑھا اور سیکھا مگر ایک ٹیچر کے ذکر پر اب بھی ہماری نظریں احترام سے جھک جاتی ہیں، یہ چند سطور اسی قابلِ احترام استاد کے لیے لکھی جا رہی ہیں۔
ہمارے سکول کے رستے میں ایک گہرا نالا پڑتا تھا‘ اس وقت تو ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ نالا کہاں سے آتا ہے؛ البتہ یہ معلوم تھا کہ یہ نہر لوئر جہلم کے نیچے سے گزر کر دریائے جہلم میں جا گرتا ہے۔ یہ ایک سیم نالا تھا اور بارشوں کا پانی اس کی گہرائی کی وجہ سے اس میں شامل ہو جاتا تھا مگر ہم نے اس کو کبھی بھرا ہوا نہیں دیکھا۔ اس کے بائیں کنارے پر کچی سڑک تھی جو اس نالے کے ساتھ ساتھ نہر لوئر جہلم تک جاتی تھی۔ یہی سڑک ہمارے انٹر سکول ٹورنامنٹ کے دنوں میں سو اور پانچ سو میٹر کی دوڑ کا میدان ہوتی تھی۔ سکول کی عمارت تو مختصر سی تھی‘ اس سے ملحق کوئی کھیل کا میدان نہیں تھا، اس سکول کے مین گیٹ کے سامنے ایک سڑک تھی اور پچھواڑے میں کھلی جگہ‘ جو سردیوں میں ہمارے لیے کمرۂ جماعت بھی تھی‘ دھوپ کھانے کی جگہ بھی۔ والی بال کا گرائونڈ بھی اسی جگہ پر بنا ہوا تھا۔ یہ نالا ہمارے سکول کے رستے میں پڑتا تھا‘ اس پر ایک خستہ اور ناتراشیدہ لکڑی کا پل تھا۔ ناتراشیدہ یوں کہ سمجھیے ایک درخت کا تنا کاٹ کر اس کو پل بنا دیا گیا تھا۔ اسی سے گزر کر درسگاہ تک پہنچا جا سکتا تھا۔ ایک لوہے کا پل بھی تھا مگر وہ آدھ میل دور واقع تھا لہٰذا ہم اس لکڑی کے پل سے ڈولتے ڈولتے نالا کراس کرتے تھے، البتہ کبھی کسی قسم کا کوئی خوف یا خطرہ ہمارے دل میں نہیں ہوتا تھا۔
یہ ایک مڈل سکول تھا جہاں چھٹی سے آٹھویں تک کی کلاسیں ہوتی تھیں‘ پرائمری سکول کی بلڈنگ تھوڑے فاصلے پر تھی اور ان کے ٹیچرز بھی الگ تھے۔ جب ہم یہاں چھٹی کلاس میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے دن ہی پتا چل گیا کہ حسب ِ روایت یہاں بھی چپڑاسی نام کی کوئی چیز نہیں ہے لہٰذا صبح سویرے اور چھٹی کے وقت گھنٹی بجانے کا کام کسی کو بھی کرنے کا حکم صادر کیا جا سکتا ہے۔ دوم یہ کہ چپڑاسی‘ جو خاکروب کے فرائض ادا کرتا تھا‘ کے جملہ کام بھی ہم طلبہ کو انجام دینا پڑیں گے یعنی سکول میں جھاڑو دینا، ٹاٹ بچھانا، اساتذہ کی کرسیاں صاف کرنا اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر کی صفائی وغیرہ۔
انگریزی اس وقت چھٹی جماعت سے پڑھانے کا آغاز ہوتا تھا۔ اس وقت چودھری امان اللہ کے ذمہ یہ فرض شامل تھا، ہم سارے طلبہ دیہی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ساتویں جماعت میں پروموٹ ہوتے ہی سکول میں ایک اَن دیکھی کھلبلی سی محسوس ہو رہی تھی، ایسے لگ رہا تھا کہ تبدیلی آنے والی ہے۔ طلبہ تو اس تبدیلی سے بے خبر تھے مگر چاروں استاد بلاناغہ اکٹھے بیٹھتے، آہستہ آہستہ باتیں کرتے، جیسے کچھ ایسا ہونے والا تھا جو ان کو قابلِ قبول نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب ہماری قسمت تبدیل ہونے والی ہے اور قدرت ہمارے مستقبل کی راہیں متعین کرنے کا انتظام کر رہی ہے۔ بالآخر ایک دن دھماکا ہو ہی گیا، صبح دس بجے کے قریب ایک شخص چمکتی دمکتی سائیکل پر کریم کلر کی شرٹ اور سفید پتلون پہنے سکول میں داخل ہوا۔ سارے سکول کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ چاروں استاد بیک وقت کھڑے ہو گئے اور اس شخص کے استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ معلوم ہوا کہ پہلے ہیڈ ماسٹر صاحب کا تبادلہ ہو گیا ہے اور نئے ہیڈ ماسٹر تشریف لے آئے ہیں۔ ان کا نام بشیر احمد احسن ہے اور تعلیم بی اے‘ بی ایڈ ہے۔بی ایڈ کا لفظ بھی ہم نے پہلی دفعہ سنا تھا۔ ان کا سکول میں آنا ایک نئے عہد کی ابتدا تھی، وہ ابتدا جس نے ہمارے مستقبل کی راہیں متعین کرنا تھیں۔اب جب کبھی استاد اور پسندیدہ استاد کا ذکر مقصود ہو تو ہماری نظریں ان کے احترام میں جھک جاتی ہیں۔
بشیر احمد احسن اسم بامسمیٰ تھے، چھوٹی چھوٹی ہلکی ہلکی ڈاڑھی، چہرے پر ایک خاص مسکراہٹ، چھریرا جسم، مگر ان کے اندربلا کا سکون تھا۔ کبھی انہوں نے اونچی آواز میں کسی کو ڈانٹا نہیں مگر کیا ہم اور کیا چاروں استاد کرام‘ کسی کو مجال نہ تھی کہ ان کے کام میں مداخلت کرے۔ عین وقت پر سکول تشریف لاتے اور عین وقت پر سکول سے رخصت ہو جاتے‘ نہ شور نہ تحکم کا شوق‘ نہ لالچ اور دھونس کا ڈر۔ انہوں نے چارج لیا اور ساتھ ہی موسم ِگرما کی چھٹیوں کا آغاز ہوگیا۔ چھٹیوں سے ایک دن پہلے وہ ہماری کلاس میں تشریف لائے، انہوں نے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ لکڑی کے پل کا راستہ آج سے بند، کوئی لڑکا اس رستے سے نہیں گزرے گا، آدھ میل اوپر جو لوہے کا پل ہے‘ وہ آپ کا رستہ ہے اور اسی رستے سے آپ نے آنا جانا ہے، ''میں جو کہتا ہوں اس پر عمل کرواتا بھی ہوں‘‘۔
موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد سکول کھلا تو ہمارے منہ کھلے رہ گئے، سکول تھا کہ صاف ستھرا، دھلا ہوا احاطہ اور پچھواڑہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے پودوں کا سرسبز باغ، سکول کی دیواریں وائٹ واش ہو چکی تھیں اور گیٹ کے سامنے والے کمرے کے دروازوں کے اوپر ہمارے سکول کا نام جگمگ کر رہا تھا۔ معلوم ہوا یہ خطاطی گجرات میں تعینات ایک استاد موحد گجراتی کے موقلم کا نتیجہ تھی۔موسم ِ گرما کی چھٹیوں کے بعد ہماری تعلیم جو پسنجر ٹرین کی طرح ہر سٹیشن پر رک رہی تھی‘ یکایک جیسے مین لائن پر آ گئی تھی اور کالے کوئلے والے انجن کی جگہ تیز رفتار انجن نے لے لی تھی۔ صبح سویرے اسمبلی میں بشیر احمد احسن نے اس شخصیت سازی پر توجہ دینا شروع کی جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اخبار بینی لازمی کر دی گئی۔ اگرچہ سکول میں لائبریری تو نہیں تھی؛ تا ہم اخبار کے مطالعے نے ہمیں ایک ایسی دنیا سے روشناس کرایا جو نئی بھی تھی اور دلچسپ بھی۔اس زمانے میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہو چکی تھی اور اخبار میں شیخ مجیب الرحمن، عبد الحمید بھاشانی، مصطفی کمال اور مکتی باہنی کے نام چھپتے تھے جو ہمارے لیے نامانوس تھے۔پاکستان میں یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، محمود علی قصوری، غوث بخش بزنجو اور ایسے دوسرے قومی رہنمائوں کا نام یا بشیر احمد احسن کی تقاریر میں سنا تھا یا اخبار کے ذریعے سے معلوم ہوا تھا۔اب بشیر احمد احسن نے ایک اور مہربانی کی کہ ہمیں اخبار گھر لے جانے کی اجازت دی لیکن اگلے دن اخبار واپس کرنا بھی ضروری تھا۔ان مذکورہ لیڈران کی اخبار سے تصاویر کاٹ کر ہم نے ایک خوبصورت نوٹ بک بنائی تھی جسے دیکھ کر ہمارے عظیم استاد بہت خوش ہوئے اور ہمیں شاباش دی۔ اسی دوران مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم اور پنجاب میں غلام مصطفی کھر گورنر بن گئے۔ اسی زمانے میں جب پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کی تو استاد صاحب نے تمام طلبہ کو اکٹھا کیا اور ایک خوبصورت تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا وزیر اعظم دن میں بیس بیس گھنٹے کام کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ وہیں اپنے دفتر کے باہر انہوں نے ریڈیو پر گورنر کھر کی تقریر بھی سنوائی۔ نام تو کھر صاحب کا ہم نے سنا ہوا تھا مگر ان کی آواز قطعاً بارعب نہیں تھی اور بھاری بھی نہیں تھی، بس باریک سی آواز تھی۔ ہڑتال بہر حال ختم ہو گئی اور وہ شیرِ پنجاب کے نام سے مشہور ہو گئے۔
انہی بشیر احمد احسن صاحب سے ہم نے سنا کہ مصر میں جمال عبدالناصر کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے سوگ میں چھٹی ہے۔ گولڈا میئر اور موشے دایان (اسرائیلی رہنمائوں)کا ذکر بھی انہوں نے کیا (موشے ایک آنکھ سے نابینا تھا اور سیاہ عینک ایک مخصوص طریقے سے استعمال کرتا تھا) اور بتایا کہ موشے دایان جس گائوں میں پیدا ہوا تھا‘ عثمانی دور ِ حکومت میں اس کا نام اُم جونیح تھا۔ یہ پہلی بستی تھی جو یہودیوں کے لیے آباد کی گئی۔ یہ ساری باتیں ہماری دل کی لوح پر ان استاد صاحب نے جیسے کندہ کر دی تھیں اور آج تک پوری تفصیل سے یاد ہیں۔ میرے عظیم استاد آپ کو سلام! بہت محبت بھرا سلام!