''ملک کسی کاغذ پر بنا کمرہ نہیں ہوتا‘‘ ایسا تاریخی جملہ لکھنا آسان بات نہیں‘ یہ جملہ وہی لکھ سکتا ہے جو اپنی ایک فکری تاریخ رکھتا ہو، جس نے اپنی فکری نہج بھی متعین کر لی ہو اور جسے اپنے لکھے ہوئے کی صداقت اور صراحت پر یقین ہو، یہ ایک مفکر کا ہی جملہ ہو سکتا ہے۔ یہ مشرف عالم ذوقی کا جملہ ہے، جس کے سارے ناول اب اسی پس منظر میں تخلیق ہو رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلم قوم کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اُس آتشِ رفتہ کے سراغ کی کڑی ہے جب اُس کی سوچ کے تانے بانے فکری عظمت سے جڑنے لگے تھے۔ ہندوستان میں پے درپے ہونے والے انہونے واقعات نے اس کو ایک ایسی سوچ کا وارث بنا دیا جو صرف اس کی ہے۔ جو کام وہاں کی مسلم جماعتیں اور لیڈران نہیں کر پائے وہ کام مشرف عالم نے اپنے قلم سے ''ہندوستان ایک حراستی مرکز (Harassment centre) ہے‘‘ کہہ کے کر دیا ہے۔ واقعی ملک کسی کاغذ پر بنا کمرہ نہیں ہوتا اور واقعتاً ملک حراستی مرکز نہیں ہوتے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جہاں تاریخ سے کھلواڑ کیا جائے یا تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی جائے، جہاں گاندھی نہیں گوڈسے کو ہیرو بنایا جائے، جب تاج محل کو ''غیر ہندوستانی‘‘ کہا جائے، وہاں ملک کاغذ پر بنا کمرہ ہی بن جاتا ہے اور کہنا پڑتا ہے ''یہ میرا ملک نہیں‘ یہ کوئی اور ملک ہے‘‘۔ یہ کاغذ پر بنا کمرہ‘ ملکِ ہندوستان ہے، جہاں مسلمانوں کو تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے‘ وہیں اہنسا کے پجاریوں کے منہ پر صدی کا طمانچہ بھی ہے۔ اس کاغذ پر بنے کمرے میں گوڈسے کا مندر بنے گا یا گاندھی کی سمادھی‘ یہ فیصلہ ہندوتوا والوں نے کر لیا ہے کہ گوڈسے کی یادگار کھڑی کرنا گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے سے کہیں اہم ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے تاریخ کے مسترد لوگ اب وہاں ہیرو کا درجہ اور بھگوان کا روپ اختیار کر چکے ہیں۔ اب یہ مسئلہ صرف سیاست سے متعلق نہیں رہا‘ یہ ادب کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ ایک تبدیل ہوتے ہندوستان کی کہانی نہیں‘ یہ ایک ہندوستان کے ختم ہونے کی کہانی ہے۔
2013ء میں شائع ہونے والے ذوقی کے ناول 'آتشِ رفتہ کا سراغ‘ کے سرورق پر ہی مصنف کی جانب سے لکھ دیا گیا تھا کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے، یہ آپ بیتی دردناک ہے اور اس کا انتساب بھی دنیا کے ان تمام مسلمانوں کے نام تھا جو خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں ہو گیا کہ مصنف کی کایا کلپ ہو گئی ہو، مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے‘ اس نے احتجاج کا رخ اختیار کرنا ہی تھا۔ جب ساری مسلم کمیونٹی کو ہی دہشت گرد سمجھا جائے، جب کرتے پاجامے یعنی لباس کی بنیاد پر ناروا سلوک رکھا جا رہا ہو، جہاں مصنف کو لودھی روڈ کے پولیس سٹیشن طلب کر کے اس سے پوچھ گچھ کی جائے اور اسی پر بس نہ ہو اور کہا جائے کہ اس کا نام دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل ہے ‘ (سلام ہے اس بہادر شخص پر‘ جس نے جواب میں یہ کہا ہو کہ میں کہانیاں لکھتا ہوں، لوگ مجھے ملنے آتے ہیں، میں ان سے ملنے سے کیوں انکار کروں؟ یہ کوئی آسان بات یا عام واقعہ نہیں) جب جعلی انکائونٹرز میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہو، جب پیزا ڈلیوری بوائے مسلمان گھروں میں ڈلیوری سے انکار کر دیں‘ وہاں 'مرگِ انبوہ‘ کے مرزا جہانگیر جیسے سسکتے کردار جنم لیتے ہیں، جس کو بتا دیا جاتا ہے کہ تمہاری زندگی کے چند ماہ باقی ہیں۔ جب ان لوگوں‘ جو وہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، جوان ہوئے اور نسل در نسل وہاں دفن ہو رہے ہیں‘ کے سامنے لال کاغذ لہرایا جاتا ہے اور شناخت اور رہائش کا ثبوت مانگا جاتا ہے تو مہمل اور بے زبان کرداروں کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ جہانگیر مرزا کو بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگنا پڑے تو سیاست بڑا موضوع بن جاتی ہے۔ کیا ارون دھتی رائے اور نجیب محفوظ سیاست پر نہیں لکھتے؟ مشرف کے علاوہ جو وہاں بڑے بڑے جغادری لکھاری ہیں اور آئے دن یہاں یاترا پر بھی آتے ہیں‘ انہوں نے زندگی کا حق ادا کیا ہے یا مشرف عالم ذوقی نے؟ جو روزانہ ضحاکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ مودی ضحاک، امیت شاہ اور ادتیا ناتھ یوگی ضحاک۔
تاریخ میں ایک ضحاک بادشاہ بھی ہو گزرا ہے جس کا ذکر فردوسی نے بھی شاہنامہ میں کیا ہے، اس ضحاک نامی بادشاہ کے دونوں کندھوں پر دو سانپ موجود تھے جن کی خوراک انسانوں کا دماغ تھی۔ ضحاک جب چاہتا خود اژدھا کا روپ اختیار کر لیتا، مودی وہی ضحاک ہے اور اس کے ایک کاندھے پر گاندھی نگر سے لوک سبھا کا انتخاب جیتنے والا امیت شاہ ہے اور دوسرے پر ادتیا ناتھ‘ جو یو پی کا وزیراعلیٰ ہے اور تاریخ کو مٹانے اور مسخ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ الٰہ آباد کا نام پریاگ راج کتھا اور آگرہ کو آگروان کہنے سے ہندوستان کی تاریخ مسخ تو ہو سکتی ہے‘ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ تاج محل کو غیر ہندوستانی کہتا ہے تو اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش ہی مشرف عالم ذوقی کا مسئلہ ہے۔ ان ضحاکوں کے کہے کو ردّ کرنا اور اس کے مقابل اپنا تاریخی بیانیہ تاریخ کے حوالوں سے کھڑا کرنا مشرف عالم ذوقی کا اصل کارنامہ ہے، جب کسی قوم کے رہنما اپنی ذمہ داری کے حوالے سے کسی قسم کے عجز کا شکار ہوں تو ادیب اپنا مورچہ سنبھال لیتا ہے، یہی کچھ وہ کر رہا ہے کہ کسی رہنما کو Quote کرنے کے بجائے اسی کو Quote کیا جاتا ہے۔
ایک مشترکہ تہذیب کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کیا جا رہا ہے، نریندر مودی نے پہلے کشمیر کی قانونی حیثیت کو پامال کیا اور اب انسانی حقوق چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ ہے۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ این سی آر اور این آر پی کے تحت مسلمانوں سے ان کی شناخت بھی چھینی جا رہی ہے اور دوسرے مذاہب کی طرفداری کی جا رہی ہے۔ 'موب لیچنگ‘ روز کا معمول بن چکا ہے۔ بنگلا دیش اور دوسرے ملکوں سے ہندو آئیں اور شہریت لیں‘ جو وہاں کے صدیوں سے شہری ہیں، ان سے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی آج کی کہانی نہیں ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ کو کہنا پڑا کہ بہتر ہے کشمیر پر اب چین کی حکومت قائم ہو جائے، یہ کہانی پچھلے ساٹھ برسوں سے جاری ہے۔ رئیس احمد جعفری کو مرار جی ڈیسائی نے سر فرانسس لو (ایڈیٹر ٹائمز آف انڈیا) اور سید عبداللہ بریلوی (ایڈیٹر بمبئی کرانیکل) کے سامنے نہایت تلخ اور درشت لہجے میں کہا تھا ''آپ کی جگہ ہندوستان میں نہیں‘ پاکستان میں ہے، اور جس قدر جلد آپ چلے جائیں، آپ کے لیے بہتر ہے‘‘۔
میں نے مشرف کو مفکر یوں ہی نہیں کہہ دیا کہ فکرمند اور مفکر کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اس نے ناول 'آتشِ رفتہ کا سراغ ‘ میں اپنا روحانی تعلق اپنی عظمت سے بنایا کہ اپنی عظمت کو بھلانا موت کے مترادف ہی تو ہوتا ہے، اس کا تعارف اقبال کے اس شعر سے ہوتا ہے ؎
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو
مشرف عالم ذوقی نے اُس ملک کو ڈیٹینشن کیمپ کہا جہاں تارا دیش پانڈے جیسے کردار ہوں اور جہانگیر مرزا کو موت کا لال فارم ملتا ہو، وہاں فاروق عبداللہ، اجتماعی خود کشی کرنے والے بدھو رام کا خاندان اور گھوٹکی کا نانک رام‘ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ بدھو رام کی موت اجتماعی خودکشی نہیں مرگِ انبوہ بن جاتی ہے۔ جیسے مرار جی ڈیسای کے پاس رئیس احمد جعفری کے سوالوں کا جواب نہ تھا، اسی طرح آج ہندوتوا کا بیانیہ مشرف عالم ذوقی کے مرگِ انبوہ کے سامنے بے بس ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایک نیا ہندوستان تخلیق کر کے دے رہا ہے جو مسلم کمیونٹی کی امنگوں کی ترجمانی بھی کرتا ہے اور فکری رہنمائی بھی، اس کی اسی فکرمندی ہی نے اسے مفکّر بنا دیا ہے۔