اُس کے باپ نے بتایا کہ وہ ڈیڑھ ماہ سے استنبول میں مقیم ہے اور اس نے ترکی کا بارڈر کراس کر کے یونان پہنچنا ہے مگر اس کی آخری منزل فرانس ہے‘ اس کے دو چچا ئوں نے یہی رستہ اختیار کیا اور کسی نہ کسی طریقے سے یورپ پہنچ گئے تھے۔ باقر 2007ء میں پیدا ہوا تھا یعنی اِس وقت وہ تیرہ برس کا ہے اور ڈیڑھ ماہ سے ترکی میں ایک رحم دل اجنبی کے گھر ٹھہرا ہوا ہے۔ تین‘ چار مرتبہ بارڈر کراس کرنے کی کوشش کے بعد وہ ایران سے ترکی کے شہر استنبول میں پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کے پاس نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ نہ کوئی ایسی دستاویز جس سے اس کی شناخت ہو سکے کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس کے بارے میں صرف لے جانے والے جانتے ہیں کہ اس وقت وہ کہاں ہے ؟ اسے اب کتنے پیسوں کی ضرورت ہے ؟ ترکی کراس کرنے کے لیے اسے مزید کتنی رقم ادا کرنا ہو گی؟ یہ بھی اسی ایجنٹ کو علم ہے۔ باقر نے یہ سارا سفر پیدل کرنا ہے چونکہ اس نے غیر قانونی طور پر یونان داخل ہونا ہے‘ اس لیے اس نے یہ سفر ''ڈنکی روٹ‘‘ اختیار کر کے کرنا ہے۔اس وقت پہاڑوں پر برفباری ہو رہی ہے‘ اس لیے وہ وہاں رکا ہوا ہے مگر اس برفباری سے پہلے وہ تین دفعہ ترکی کا بارڈر کراس کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور اسے ہر بار واپس بھیج دیا گیا۔ اب تک خوش قسمتی اس کا ساتھ دے رہی ہے وگرنہ اس کے ساتھ جانے والے باقی ستر لڑکے مختلف بارڈرز پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تو بچ گئے مگر انتہای بری حالت میں مختلف ایجنٹوں کو یہاں سے رقم بھجوا کر واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔جن اکہتر لڑکوں کے ٹولے کے ساتھ وہ یہاں سے روانہ ہوا تھا‘ ان میں سے ایک وہی استنبول پہنچا ہے اور فی الحال ایک رحمدل اجنبی کے گھر رکا ہوا ہے۔
اگر آپ ضلع منڈی بہائوالدین یا اس سے متصل کسی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ نے ڈنکی لگانے کا نام بھی سنا ہو گا اور اس کے نتائج کو بھی بخوبی جانتے اور سمجھتے ہوں گے۔ البتہ جو دوسرے اضلاع ہیں یا ملک کے دیگر علاقوں سے ہیں‘ وہاں شاید لوگوں نے نہ سنا ہو کہ 'ڈنکی لگانا‘ کیا شے ہے اور اس کا مطلب بھی شاید وہ نہ جانتے ہوں۔اس ضلع میں یہ ٹرم Human Trafficking سے وابستہ لوگوں نے ایجاد کی ہے۔اس ضلع کے ہر گھر یا ہر کنبے کا کوئی نہ کوئی فرد ڈنکی لگانے کی اصطلاح سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ہر کنبے کے کسی نہ کسی بچے‘ کسی نہ کسی فرد کو ڈنکی لگانے کا تجربہ بھی ضرور ہوا ہے۔ جو لوگ غیر قانونی طور یورپ پہنچنے کے خواہشمند ہیں وہ بذریعہ روڈ مختلف ممالک کی سرحد غیرقانونی طور پر ایجنٹوں یا ان کے کارندوں کی زیر نگرانی میں کراس کرتے ہیں۔ اسی کو ڈنکی لگانا کہتے ہیں۔ اصل میں یہ ڈنکی رُوٹ ہے جس کو اب صرف ڈنکی لگانا کہا جاتا ہے۔ ڈنکی لگانا بذریعہ سڑک پیدل اور غیر قانونی طور پر ملکوں ملکوں ہو کر براستہ یونان یورپ پہنچنا ہے۔
اس ضلع کا Overall پنجاب کے امیر ترین ضلعوں میں شمار ہوتا ہے مگر مائیکرو لیول پر یہ ضلع پسماندگی اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔معاشرتی عدم مساوات، سماجی ناانصافی اور مواقع کی عدم دستیابی سے تنگ آئے ہوئے اس ضلع کے کئی معصوم بچے ڈنکی لگاتے ہوئے یا ڈنکی روٹ اختیار کر کے اٹلی، سپین اور فرانس جیسے یورپی ملکوں میں پہنچنے کی خاطر ایران ترکی، یونان، سپین، بوسنیا اور کئی دیگر ممالک کی سرحدوں پر جان گنوا بیٹھتے ہیں اور والدین اور عزیز و اقارب نے کئی ماہ کے انتظار کے بعد اپنے پیاوں کی میتیں وصول کی ہیں۔ کئی بیچارے ایسے بھی ہیں جو کسی ملک کی سرحد پار کرتے سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے اور میت تک واپس اپنے ملک نہیں لائی جا سکی۔آئے دن اس قسم کے واقعات اخباروں میں بھی رپورٹ ہوتے ہیں مگر ہوسِ زر کہیے یا افلاس‘ تاریک مستقبل یا بے روزگاری‘ نہ صرف لوگوں نے غیرقانونی طور پر غیر ممالک جانا ترک نہیں کیا اور بہت سارے اسی طرح ڈنکی لگا کر اب بھی یورپ پہنچ جاتے ہیں۔
باقر کو اس کے باپ اور ماں نے رو کر، دھمکا کر اور ڈرا کر بھی بہت سمجھایا مگر باقر کی ضد کے سامنے مجبور ہو گئے۔ تیرہ سالہ لڑکا اور اتنا لمبا سفر‘ جس میں ہر دن نئی آزمائش اور ہر رات ایک نئی مصیبت پیش آنی ہو‘ ماں باپ نے کس طرح دل پر پتھر رکھ کر اجازت دی ہو گی اس کا تصور کرتے ہوئے جسم کا رواں رواں کانپ جاتا ہے۔باقر کو یہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا سفر کیوں پسند تھا اور وہ کس وجہ سے اس نوخیزی میں بھی وہ اتنا بڑا فیصلہ کر بیٹھا‘ یہ کوئی مشکل سوال نہیں۔اس کا باپ ایک سٹور پر چوکیدار ہے۔ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ سارے خاندان کا بوجھ اٹھا سکے اور ان کی کفالت کر سکے۔ باقر کے سامنے اپنا تاریک مستقبل تھا‘ نہ وہ کالج جا سکتا تھا نہ اس کا باپ کالج اور اس کی تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتا تھا۔ بس جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے وہ دو وقت کے کھانے کا بندوبست کر سکتا تھا۔ اس سے زیادہ اس کے بس میں نہیں تھا مگر اس علاقے اور آس پاس کے ہزاروں لڑکے یہی راستہ اختیار کر کے بالآخر یورپ کے کئی ممالک میں پہنچ چکے تھے اور اکثر کچھ سال غریب الوطنی میں مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد ان ممالک کی شہریت لینے میں بھی کامیاب ہو چکے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہیں اورمحنت اور مشقت کے کر کے کئی اپنا مقام بھیبنا چکے ہیں اور یہاں پاکستان میں بھی کئی افراد خوبصورت محل نما گھر بنا چکے ہیں۔ اس ضلع کی کسی سڑک سے گزریں‘ ہر جگہ دیدہ زیب اور دو دو کنال کے بنگلے نظر آتے ہیں۔ ان کے والدین اوربھائیوں کی جدید ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔ وہ لوگ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بھتیجوں کو بھی وہاں سیٹل کرا چکے ہیں۔ ایک دو سال بعد وہ پاکستان آتے ہیں تو ان کا معیار ِ زندگی بہت بلند ہو چکا ہوتا ہے۔ ان کا ملنا ملانا علاقے کے رئیسوں اور سیاسی رہنمائوں سے ہوتا ہے۔ ان کی شادیاں امیر گھرانوں میں ہوتی ہیں۔ ان کے بچے ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں‘ بہت سارے لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں‘ ان میں اور باقر کے درمیان ایک بسیط فاصلہ حائل ہوجاتا ہے۔ ان کی دوستیاں اور رشتے داریاں باقر جیسے بچوں کے ماں باپ سے باقی نہیں رہتیں۔ نئی دوستیاں قائم ہوتی ہیں اور نئے رشتے بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ باقر جیسے بچوں سے دیکھا نہیں جاتا‘ اس عدم مساوات پر کڑھتے ہوئے وہ ایسا فیصلہ لے لیتے ہیں کہ ماں باپ کی کوئی بات سننے کے رودار تک نہیں رہتے۔
ان کا روٹ یہاں کوئٹہ، کوئٹہ سے تفتان، تفتان سے تہران ‘وہاں سے ماکو پہاڑی کراس کر کے یہ ترکی میں داخل ہوتے ہیں۔ ترکی سے ڈنکی روٹ کے ذریعے یونان میں داخل ہوتے ہیں۔ اس میں تقریباً دو سے اڑھائی ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ابھی ایک نوجوان حسیب بوسنیا میں ہلاک ہوا ہے‘ اس نے اٹلی داخل ہونے کی متعدد کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کی میت پاکستان لانے میں جو پریشانی اس کی ماں اور چچائوں کو اٹھانا پڑی‘ اس کی اذیت وہی جانتے ہیں۔اس کے پاس اس کا پاکستانی شناختی کارڈ تھا جس کی وجہ سے اس کی میت کو پاکستان پہنچانے کا انتظام ہو گیا مگر جو تیرہ سالہ بچہ استنبول میں بیٹھا ہے اور اس آس پر زندہ ہے کہ وہ ڈنکی لگا کر یونان پہنچ جائے گا۔ اس کے پاس کوئی کاغذ ‘کوئی دستاویز‘ کچھ بھی نہیں۔
اس معاشی عدم تفاوت کی بھینٹ چڑھتے ہوئے ایسے بھی ہوا ہے کہ ایک بھائی کی میت وصول کرنے کے باوجود اگلے مہینے دوسرا بھائی اسی ڈنکی روٹ پر موت کے سفر پر نکل جاتا ہے۔