دادرس

سائل تھے مگر سائل لگتے نہیں تھے۔ عدالت تھی مگر عدالت کا دیکھا بھالا ماحول نہیں تھا کہ کہیں کوئی کٹہرا نہیں تھا، کہیں کوئی حلف کے لیے آگے نہیں بڑھا کہ کہو: جو کہوں گا سچ کہوں گا‘ سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا، نہ کوئی اہلکار، نہ وکیل، نہ منشی۔ یہ کیسی عدالت ہے؟ کیا یہ اپنا ہی ملکِ عزیز پاکستان ہے؟
کہیں پر کوئی اسٹیمپ پیپر بیچنے والا نہیں، پچاس کا دو سو اور سو کا پانچ سو میں بیچنے والا، کسی کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔ سائلان ایسے سکون سے بیٹھے تھے جیسے ان کو یقین ہو کہ آخر انہیں وہ مجاز اتھارٹی مل گئی ہے جہاں ان کی درخواست کی شنوائی بھی ہو گی اور اس پر عمل بھی کروایا جاے گا۔ انتظار گاہ ایئر کنڈیشنڈ‘ کشادہ لفٹ کا عمدہ انتظام، آرام دہ اور خوشگوار ماحول، جہاں نہ کسی دھونس کاخطرہ نہ کسی کے دبائو کی گنجاش۔ سائل اور محکمہ یا محکمے کا فوکل پرسن آمنے سامنے۔ سامنے کی کرسی پر ایڈوائزر کہہ لیجیے‘ کنسلٹنٹ کہہ لیجیے‘ اور دونوں فریق ساتھ ساتھ۔ دونوں کو اپنا اپنا مؤقف پیش کرنے کی آزادی۔
ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل کے تحت کے درخواست کی وصولی کے بعد اس پر کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ درخواست کیا موصول ہوتی ہے‘ کائونٹ ڈائون شروع ہو جاتا ہے۔ صرف پینتالیس دنوں میں اس پر فیصلہ بھی ہونا ہے اور عمل بھی ہونا ہے۔ یہ نہیں کہ تاریخ پر تاریخ‘ اور انہی تاریخوں اور پیشیوں کے دوران سائل سوئے عدم سدھار جائے۔ یہ کون سا دفتر ہے؟ یہ کون سی عدالت ہے؟ یہ وفاقی محتسب کا ریجنل آفس لاہور ہے، یہ وہ عدالت ہے‘ جہاں ایک اصول کی حکمرانی ہے کہ کسی کو اس کے جائز حق سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ پنجاب میں چار اور جگہوں‘ فیصل آباد، ملتان، بہاولپور، گوجرانوالہ اور دوسرے صوبوں میں کراچی، حیدر آباد، سکھر، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور کوئٹہ میں ایسے ہی ریجنل آفس ہیں تاکہ دور دراز کے لوگوں کو داد رسی ان کے گھروں کے نزدیک ممکن ہو۔
وفاقی محتسب کے اختیارات تو وہی ہیں جو ایک عدالت کے ہیں اور جو اختیارات آئین عدالت کو تفویض کرتا ہے؛ کسی شخص کو طلب کرنا اور اس کے مسائل کا حل یا شکایت کی دادرسی مگر اس ادارے اور عدالتوں کے ایک طرح کے اختیارات کے باوجود زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ آئینی ادارہ 1983ء میں قائم ہوا۔ ادارے اپنے بانیوں سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ کوئی بھی نیا ادارہ ہو، محکمہ ہو، اعلیٰ تعلیم کی درسگاہیں ہوں‘ یہ ان کے بانی مبانیوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس ادارے کے پہلے سربراہ جسٹس سردار اقبال کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اپنی ذاتی لیاقت اور محنت کے بل بوتے پر اپنا نام بنایا بھی اور کمایا بھی۔ اس ادارے کو بہت بڑے بڑے لوگ ملے جنہوں نے اس کو مضبوط بینادوں پر کھڑا کیا اور ایسے دوررس فیصلے کیے جن کی جتنی بھی تحسین کی جائے‘ کم ہے۔ جسٹس بشیر احمد جہانگیری نے اپنے دور میں سائل اور محکمے کے فوکل پرسن پر لازم کر دیا کہ وہ اپنی دادرسی کے لیے کسی وکیل کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ سرکاری محکمہ جات کے جن ملازمین کی دادرسی مقصود تھی‘ وہ وکیل کی فیس ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ یہاں ذاتی طور پر اور انفرادی طور پر‘ اپنی شکایت درج کروانا ہوتی ہے۔ اب اس میں مزید یہ آسانی ہو گئی ہے کہ درخواست آن لائن بھی بھیجی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی عام سادہ کاغذ پر اپنے متعلقہ علاقے میں درخواست دی جا سکتی ہے۔ اس ادارے کے کئی ایسے کام ہیں جن کی پذیرائی ضروری ہے۔
اس میں دو چیزیں بہت اہم ہیں اولاً یہ کہ درخواست کی وصولی کے بعد ہی کائونٹ ڈائون شروع ہو جاتا ہے اور شکایت کا ازالہ یا دادرسی پینتالیس دنوں سے ساٹھ دنوں میں لازم کی گئی ہے۔ انہی دو ماہ کے دوران فیصلہ ہونا ہے۔ جب وقت کی کوئی حد مقرر نہ ہو تو کیس سالوں سال چلتے رہتے ہیں۔ اور بسا اوقات تو کیس اگلی نسل کو وراثت میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس درد ِ سر کا علاج اسی صورت ممکن ہے جب ایک معینہ مدت میں فیصلہ کرنا لازم ہو۔ثانیاً یہاں فیصلے کے بعد اپیل صرف صدرِ پاکستان کو ہو سکتی ہے۔ یوں یہ آئینی ادارہ ملک عزیز کا واحد ادارہ ہے جس میں وصول کردہ درخواستوں پر فیصلوں کی شرح 99 فیصد ہے۔ مثال کے طور پر اس لاہور آفس میں جنوری تا ستمبر 13ہزار 978 درخواستیں موصول ہوئیں اور ساٹھ دنوں کی معینہ مدت میں 12ہزار 608 درخواستوں کی شنوائی ہوئی اور ان پر فیصلے کیے گئے۔ یہ شرح ہر لحاظ سے نہ صرف قابل قدر ہے بلکہ اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے‘ کم ہے۔ عام ملازمین کے لیے‘ جنہیں آئے دن پنشن اور اپنی عمر کی کمائی کی ادائیگی میں پس و پیش کی جاتی ہے‘ یہ ادارہ سب سے بہترین فورم ہے جہاں جلد انصاف ملتا ہے اور شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے۔
اس وقت اس ادارے کی باگ ڈور سید طاہر شہباز کے سپرد ہے اور وہ اس کو مزید فعال بنانے میں مصروف ہیں۔ پچھلے سال مقررہ ساٹھ دنوں کی مدت میں 74869 نہ صرف فیصلے کیے گے بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کرایا گیا ہے۔ ہر شکایت کا فیصلہ وفاقی محتسب کے دستخطوں سے جاری ہوتا ہے جو اس ادارے کی جانفشانی اور کمٹنٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں یہاں سب سے زیادہ شکایات لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے خلاف ہوتی ہیں جس میں اوور بلنگ کی شکایات عام ہیں۔ نچلی سطح پر ان کمپنیوں میں جس طرح کی کرپشن اور فرائض میں کوتاہی برتی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سوئی گیس کی شمالی اور جنوبی کمپنیوں کی کارکردگی پر بھی لوگوں کی نظر میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ زراعت کے حوالے سے قائم ایک بینک میں ملازمین کے ساتھ سلوک بھی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے ۔ ملازمین کی عمر بھر کی کمائی پر دن دہاڑے ڈاکے ڈالنے والوں کو علم ہونا چاہیے کہ وفاقی محتسب کا ادارہ انہیں مناسب ہدایات بھی جاری کرنے کا مُجاز ہے۔ وفاقی محتسب اپنے احکامات پر عمل کرواتا ہے اور احکام کی عدم تعمیل پر اس کو صدرِ پاکستان کے ذریعے چارج شیٹ بھی کروا سکتا ہے۔
یہ ادارہ ہر محکمے کے خلاف درخواست سننے کا مجاز ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے ہر ادارے کے خلاف جائز شکایات یہیں درج ہوتی ہیں اور اگر کوئی محکمہ اس ادارے کی ہدایات پر عمل نہیں کرتا تو اس محکمے کو چارج شیٹ کرنے کے لیے صدرِ پاکستان سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی سالانہ رپورٹ صدرِ مملکت کو پیش کی جاتی ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہاں زیادہ تر شکایات ایسی ہوتی ہیں جیسے بیوائوں کو پنشن نہ ملنا، ملازمین کی عمر بھر کی جمع پونجی کی ادائیگی میں التوا اور بجلی اور سوئی گیس کے صارفین کے مسائل۔ اس سلسلے میں چاہ سمندری والا ملتان کی ایک خاتون کی درخواست محتسب کی آفیشل سائٹ پر موجود ہے جس میں اس خاتون کو اپنے مرحوم خاوند کی انشورنس کی رقم چار سال کی مدت گزرنے کے باوجود ادا نہ کی گئی تھی اور اس ادارے نے پانچ سماعتوں پر ادائیگی کروا دی تھی۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے اگر ایسے چند اور ادارے ہوں‘ جو فرض کو فرض بلکہ عبادت سمجھتے ہوں تو عین ممکن ہے اس فرسودہ سسٹم کی کایا ہی پلٹ جائے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں