''پوربو پاکستان، پچھمی پاکستان، اسلامی چھاترو شنگھو، شونار بنگلہ اور خوشی ٹھیکو‘‘ یہ الفاظ مجھے بچپن میں ازبر ہو گئے تھے ۔ شونار بنگلہ کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے ریڈیو پاکستان سے دو زبانوں میں خبریں نشر ہوتی تھیں؛ ایک اردو اور دوسری بنگالی زبان ۔ کچھ الفاظ میں نے گھر میں سنے تھے کہ میرے بڑے بھائی اس وقت پوربو پاکستان میں زیر تعلیم تھے ۔ یہ بنگالی زبان میرے لیے غیر زبان نہیں تھی بلکہ کسی پاکستانی کے لیے بھی یہ اپنی زبان تھی ۔ اس زبان کا اپنا جادو تھا۔ بنگال کا جادو ویسے بھی مشہور ہے۔
مجھے ان الفاظ کے معنی معلوم نہیں تھے؛ البتہ پوربو اور پچھمی پاکستان کا فرق ہمیں ایسے پتا چلا کہ جب بنگلہ میں خبریں نشر ہونا ہوتی تھیں تو انائونسر بتاتا کہ اس وقت پوربو پاکستان میں یہ وقت ہے اور پچھمی پاکستان میں یہ وقت ہے ۔ ہمارے اور پوربو پاکستان کے نظام الاوقات میں ایک گھنٹے کا فرق تھا ۔ اسلامی چھاترو شنگھو اسلامی جمعیت طلبہ کو کہتے تھے۔ یہ سب مجھے اپنے بڑے بھائی کی باتوں سے پتا چلا ۔ شونار بنگلہ ہی بعد میں بنگلہ دیش ہو گیا ۔ ہماری ساری بنگالی کا علم یہاں ختم ہو جاتا تھا لیکن اس زبان کا جادو اور پراسراریت تھی کہ ہمیں پوری طرح گھیرے میں لیے بیٹھی تھی ۔ پوربو پاکستان میرا پیارا مرحوم مشرقی پاکستان تھا ۔ آمی توکے بھالو باشی تو جیسے زبان سے اترتا ہی نہیں تھا ۔ جب میں سکول جاتا تو اپنے کلاس فیلوز پر رعب جھاڑنا ہوتا تو بڑے فخریہ انداز میں کہتا آمی تو کے بھالو باشی تو سارے میری طرف ایسے دیکھتے جیسے میں نے بنگالی زبان سیکھی ہوئی ہے۔
اسی طرح پوربو پاکستان کے شہروں، وہاں کے مشہور مقامات اور پھلوں کے بارے میں تھوڑی بہت شد بدتھی اور وہ بھی ایسے کہ وہ شہر جیسے مجھے جان و دل سے عزیز ہوں ۔ چٹاگانگ، سلہٹ، راجشاہی، میمن سنگھ اور کاکسز بازار تو ایسے عزیز تھے جیسے لاہور اور کراچی ہوں ۔ مسجد بیت المکرم، ڈھاکہ مسجدوں کا شہر، پلٹن میدان، دریائے کرنافلی، ڈھاکہ یونیورسٹی، محسن ہال، کمرہ نمبر 641، مولانا بھاشانی کا سراج گنج اور پوربو پاکستان کے انناس اور ان کی کھٹی میٹھی خوشبو آج بھی مجھے مست کر دیتی ہے ۔
میرا پوربو پاکستان اور مغلوں کا بنگالہ‘ جہاں سے مغل بادشاہوں کی کل آمدنی کا آدھا حصہ آتا تھا ۔مغلوں کے اس بنگالہ اور میرے پوربو پاکستان کی داستان بڑی دلچسپ انداز میں شروع ہوئی اور آخر ہمارے زوال پر ختم ہو گئی۔ شاہ جہان سترہویں صدی کے وسط میں دکن (یہی پنجابی زبان میں دکھن یعنی جنوب ہے )میں مقیم تھا کہ جب اس کی ایک بیٹی کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور نرم و نازک شہزادی کے جسم کا کافی حصہ آگ سے جھلس گیا ۔ بہت سارے شاہی طبیبوں نے علاج کیا، طرح طرح کے نسخے آزمائے مگر افاقہ ان مرہموں سے کیسے ہوتا جو زمانہ قدیم سے یہاں کے اور شمال کے شاہی طبیب جڑی بوٹیوں سے بنا رہے تھے ۔ یہ ایک قسم کا لیپ ہوتا تھا جو سارے جسم یا جسم کے اس حصے پر لگایا جاتا تھا جو جل چکا ہوتا تھا ۔ اس وقت ولندیزی اور انگریز‘ دونوں قومیں یہاں قدم جما رہی تھیں مگر ولندیزی کافی مستحکم ہو چکے تھے ۔
ولندیزیوں کے کیپ گڈ ہوپ تک جانے سے پہلے انگریز اور ہندوستان کے مابین ساری تجارت بحر قلزم (بحر احمر) اور بحر عمان کے ذریعے ہوتی تھی ۔ شاہ جہان نے سورت میں مقیم انگریزوں سے کسی اچھے ڈاکٹر کو طلب کیا۔ اس انگریز ڈاکٹر کے علاج سے شہزادی پوری طرح تندرست ہو گئی ۔ بادشاہ حسب ِ روایت مہربان ہوئے اور پوچھا جو چاہیے بلا توقف بیان کیا جائے ۔ تب اس انگریز ڈاکٹر نے کسی جاگیر یا جائیداد کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ استدعا کی انہیں بنگالہ میں تجارت اور آزاد تجارت کا پروانہ عنایت کیا جائے ۔ بادشاہ سلامت خوش ہوئے اور ہنستے ہوئے کہا: بس یہی یا کچھ اور؟ انگریز اسی عنایت پر بہت خوش تھا ۔ یوں انگریز کو بنگالہ میں تجارت کی ایسی اجازت ملی کہ وہ وہاں کے جیسے مالک ہوں‘ نہ پوچھ گچھ نہ کوئی روک ٹوک ۔ اس کے بعد سراج الدولہ کے علاوہ ان کے سامنے کوئی نہ کھڑا ہو سکا ۔ بقول جگر ؎
اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
لمبے عرصے کے بعد اسی بنگالہ سے ایک نئی صبح طلوع ہوئی جب مسلمانانِ ہند کے لیے بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ایک نئی سیاسی جماعت مسلم لیگ قائم کی گئی ۔ اسی بنگالہ کے صدر مقام ڈھاکہ میں نواب سر سلیم اللہ کے گھر اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کے بارہ بنیاد گزار رہنمائوں میں پانچ اسی پوربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہی پوربی پاکستان کے رہنما تھے جو قائد کے ساتھ تھے ۔ معاہدۂ لکھنؤ 1916 ء کے پیچھے اے کے فضل حق کی کاوشیں تھیں جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے۔ یہ سارے چاند وہیں طلوع ہوئے ۔
یہ مسلم لیگ کی مقبولیت کا سبب تھا کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھی عوامی لیگ اور مولانا بھاشانی نے بھی آل پاکستان عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔ یہاں پچھمی پاکستان میں بھی یہی حال تھا مگر ان کے مقاصد کچھ اور تھے ۔ جب سقوط ِ ڈھاکہ ہوا اور میرا پوربو پاکستان ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہوا تب میرا بچپن تھا ۔ تمام گائوں ہمارے گھر کے صحن میں رات کو اکٹھا ہونا شروع ہو گیا تھا ۔ سب کو پتا چل گیا تھا کہ بھارت نے مغلوں کے بنگالہ، بنگالیوں کے شونار بنگلہ اور ہمارے پوربو پاکستان پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اور وہ اس دکھ کی گھڑی میں ڈھارس بندھانے اور امید دینے کے لیے آئے تھے کہ ہمارے بھائی جو ڈھاکہ میں زیر ِ تعلیم تھے‘ ان کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔
یہ سترہ دسمبر 1971ء کی سرد اور خاموش صبحِ کاذب تھی یا شاید رات کا کوئی پہر‘ یاد نہیں، میری آنکھ کھلی تو ہمارے کچے گھر کا وسیع صحن لوگوں سے بھرا پڑا تھا ۔ ان میں گائوں کے بوڑھے‘ بوڑھیاں، نوجوان، عورتیں‘ مرد، اپنے اور غیر سب اکٹھے تھے ۔ شکست سے ملک بھی ٹوٹا اور لوگ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ۔ ایک ٹرانسسٹر پر ایک خوفناک اور پراسرار دھن چل رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ انائونسر میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی بات کرے ۔ شاید باتوں کا وقت گزر چکا تھا۔ شاید بات کرنے کو کچھ نہیں بچا تھا ۔
میں جاگنے اور نیند کی سی کیفیت میں تھا ۔ پُراسرار دھن نے مجھے جگا دیا ۔ تمام لوگ خاموش تھے جیسے کسی معجزے کے منتظر ہوں شاید ایسے نہ ہو، شاید ایسے ہو۔ قومی ترانے کے بعد یحییٰ خان کی بھاری بھر کم آواز گونجی کہ دشمن نے ڈھاکہ پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے کیا کہا ، مجھے یاد نہیں؛ البتہ یہ یاد ہے کہ گاؤں کے مرد اور عورتیں بے جان بت کی طرح بے حس و حرکت تھے ۔ نہ کہیں پوربو نہ پچھمی پاکستان تھا نہ کہیں آمی تو کے بھالو باشی کی آواز اور مستی تھی۔ سلہٹ، چٹاگانگ، ڈھاکہ‘ سب کچھ کھو گیا تھا۔ ایک انناس کی کٹھی مٹھی خوشبو تھی جو چوگرد پھیلی ہوئی تھی ۔
میرا پوربو پاکستان مجھ سے جدا ہو گیا تھا ۔ تمام گائوں والوں کی زبانیں خاموش اور سر جھکے ہوئے تھے۔ کہیں سے کوئی آواز‘ کوئی ہل جل نہیں تھی ۔ ایک دن قبل ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہمارے جوان ہتھیار ڈال چکے تھے اور نوے ہزار لوگ گرفتار ہو چکے تھے جس میں پندرہ ہزار سویلین تھے ۔ کل وہاں سر جھکے تھے‘ آج ہمارے کچے گھر کا وسیع صحن پلٹن میدان بنا پڑا تھا ۔