حویلی

یہ قطب مینار کا احاطہ نہیں‘ کسی مسلمان نواب کی حویلی لگتی تھی۔ گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی دوسرے ملک میں آئے ہوئے ہیں۔ وہی قلعہ، وہی داتا دربار کے ارد گرد سا علاقہ، وہی مزار، وہی قبریں، وہی مسجدیں اور وہی پیش امام۔ بڑے دروازے سے ہم اندرداخل ہوئے تو لگا جیسے اپنے ہی علاقے اور اپنی ہی راجدھانی کا کوئی حصہ ہے۔ اپنی تاریخ کا کوئی اقتباس ہے اور اپنی ثقافت کی کوئی نشانی۔یہ احساس ہی نہیں ہو رہا تھا ہم واہگہ بارڈر سے چار سو کلومیٹر اندر‘ ایک غیر مسلم ملک میں موجود ہیں۔ کہیں کوئی اجنبیت نہیں تھی۔ ہر چیز اپنی سی لگ رہی تھی دروازے سے اندر جاتے راستے کے دونوں طرف تاریخ بکھری پڑی تھی مگر قطب مینار کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی۔سامنے ہی مسجد قوتِ اسلام تھی جسے لکھ بخش ایبک نے بنوایا تھا‘ آس پاس اور عمارات بھی تھیں مگر لوگ قطب مینار کے پاس جمع تھے۔پھر التتمش اور فیروز شاہ تغلق نے اس کو مکمل کیا۔کسی نے کہا تھا کہ منارہ، لاٹ اور ماذنہ کی چوٹی دیکھنے کی کوشش کریں تو ٹوپی گر جائے اور وہاں چوٹی پر پہنچ کر دیکھو تو انسان چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں سے دکھائی دیں۔ ایک روایت ہے‘ اسے علاء الدین خلجی نے بنوایا تھا۔یہ سرخ اینٹوں کا ایک اونچا سا مینار ہے اس کی پانچ منزلیں ہیں۔ اب اس کی خستگی کو دیکھتے ہوئے اوپر جانا بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے چاروں اطراف میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں جن کی عبارت کا اپنا سحر ہے۔ کچھ الفاظ سمجھ آئے‘ کچھ سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ تھیں یہ خط کوفی میں لکھی ہوئیں مگر ان پر بھی وقت کی گرد جمی پڑی تھی۔
یہ دہلی کا جنوبی ضلع ہے۔ اس شہر کے کل گیارہ ضلع جات ہیں۔ ایک ضلع دریا گنج بھی ہے جہاں ایبٹ آباد سے ہجرت کر کے آنے والے نریندر سوز کی کتابوں کی بڑی دکان ہے۔ ہم اسے کوچۂ بہرام خان میں سمجھتے رہے مگر نریندر سوز کے بیٹے نے ہمیں بتایا: یہ سرسید روڈ ہے۔ مگر ہم اس وقت جہاں موجود تھے‘ یہ کسی سیٹھ کی سرائے سے منسوب علاقہ ہے۔ یہ اس کی ایک تحصیل ہے‘ اسے مہرئولی کہتے ہیں ایک اور تحصیل حوضِ خاص ہے اور قطب مینار روڈ پر واقع ہے۔ ٹکٹ لے کر آپ اندر جا سکتے ہیں‘ ٹکٹ گھر سڑک کی دوسری جانب ہے۔ وہاں ہماری اور ٹکٹ دینے والے کے درمیان دلچسپ گفتگو ہوئی؛ ہم نے کہا کہ ایک ٹکٹ دیجیے۔ ایک صاف، دُھلے ہوئے لباس میں ملبوس شخص نے اپنے کیبن کے اندر سے تھوڑا سا آگے جھک کر پوچھا: لوکل یا غیر ملکی۔جب اس سے لوکل اور غیر لوکل کے بارے میں استفسار کیا گیا تو اس نے جواب دیا لوکل کے لیے ٹکٹ دس روپے اور غیر ملکی کے لیے دو سو روپے کا ٹکٹ ہے۔ ہم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اور بوجھل دل کے ساتھ کہا : غیر ملکی(اگرچہ دلّی ہمارے اندر تاریخ کی جگمگا رہی تھی)۔ تب اس نے پوچھا: پاکستانی؟ ہم نے کہا :ہاں۔ تو اس نے لوکل ٹکٹ کے پیسے لیتے ہوئے کہا: لوکل ہی ہوئے نا!
مسجد قوت ِ اسلام ہمیں اپنی جانب کھینچ رہی تھی‘ ساتھ ہی تو تھی، اس کے سامنے ہی تو کھڑے تھے۔ یہ مسجد اب ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت ہے اور عظمت کی نشانی یا یادگار ہی رہ گئی ہے۔ ہمیں وہ ستون دیکھنے کی تمنا بے تاب کر رہی تھی جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جو شخص اپنے بازو پیچھے کر کے اس کو اپنے کلاوے میں لے سکتا ہے‘ اسے دلّی کی بادشاہی مل جاتی ہے۔ وہ ستون ہمارے سامنے تھا‘ ہم نے اپنے بازو پھیلائے تو علاء الدین خلجی کا بارعب سراپا ہمارے سامنے تھا جس نے یہ مسجد مکمل کی تھی۔ جس نے اپنے چچا اور سسر جلال الدین خلجی کو قتل کرایا تھا، اسی پر بس نہیں کیا تھا‘ جلال الدین خلجی کے بیٹے ارکلی خان کو‘ جو ملتان کا گورنر تھا اور سندھ کا سارا علاقہ جس کے ماتحت تھا‘ کو خاندان سمیت اندھا بھی کرا دیا تھا۔ اگرچہ شیخ رکن الدین کے کہنے پر ملتان کا محاصرہ اٹھا لیا گیا تھا اور ان کی جان بخشی کر دی تھی مگر دلّی لے جاتے ہوئے ان کو ہانسی میں قید کر دیا۔ خواتین کو اِسی دلّی میں نظر بند کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے علاء الدین اس ستون کو اپنی بانہوں میں بھر سکتا تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے کوشش کی مگر ہماری نظر سامنے ایک خستہ ساڑھی میں ملبوس خاکروبہ پر پڑی جو ایک مزار پر جھاڑو دے کر فارغ ہوئی تھی۔ ہم اس مزار اور ساڑھی والی عورت کی طرف چل دیے۔یہ امام ضامن کا مزار ہے۔ ہم نے یہ تو سنا تھا کہ امام ضامن ایک دعا ہے جو تعویذ کی طرح بازوئوں پر باندھا جاتا ہے مگر یہاں تو صاحبِ مزار کا نام ہی امام ضامن تھا۔ وہ مسلمان بوڑھی خاکروبہ غربت کی ایک چلتی پھرتی تصویر تھی یا مسلمانوں کی تاریخ کی‘ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ اس کی چہرے بازوئوں، کہنیوں اور ہاتھوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں ماضی کا نہیں حال کا نوحہ بیان کر رہی تھیں۔ ہمارے پوچھنے پر بوڑھی اماں نے بتایا کہ وہ کارپوریشن کی ملازم ہیں اور پندرہ سو روپے لگے بندھے ملتے ہیں۔ نہ اور کوئی ذریعہ، نہ پنشن، بس برسوں سے یہی روزگار ہے۔ بوڑھی اماں کو جھاڑو دینے سے سروکار تھا، اس نے اپنی ساڑھی کے پلّو سے قبر کا تعویذ صاف کیا اور کہا: انہی کے سہارے اپنا دانہ پانی لگا ہوا ہے۔ امام ضامن ترکمانستان سے ہجرت کر آئے تھے اور ان کی قبر کا قطب مینار کی دوسری عمارات سے علیحدہ رنگ روپ تھا۔ خود قطب مینار کی بظاہر شکل بھی اسلامی طرزِ تعمیر سے جدا ہے۔ اس پر مقامی اثر غالب لگتا ہے؛ البتہ مسجد واقعی اسلام کی طاقت اور شکوہ کا مظہر لگتی ہے۔جب باہر نکلنے کے لیے واپس مڑیں تو بائیں جانب التتمش کا مزار ہے۔ اس کے سامنے باغات کا ایک سلسلہ ہے اور ان باغات کے اندر رہائش گاہیں ہیں۔ان رہائش گاہوں میں کوئی بلا کی خاموشی تھی۔ شاید اس وجہ سے بھی کہ ان کے دروازوں کے عین سامنے التتمش کا مقبرہ ہے، جس کی بیٹی رضیہ سلطانہ تھی اور جس کا نانا اُس شہر کی خاک میں آسودہ ہے جہاں سے ہم چار سو کلومیٹر کا سفر کر یہاں پہنچے ہیں۔ قطب الدین ایبک‘ جس کا اصل نام مبارک خان خلجی ہے جس کی نواسی رضیہ سلطانہ ہے‘ جس نے ایک روایت کے مطابق‘ اس قطب مینار کی بنیاد رکھی تھی۔وہاں رہائشی کالونی میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ اس مسجد میں جانے کا اتفاق نہ ہو سکا؛ البتہ اس مسجد کے نوجوان پیش امام سے سرِراہ ملاقات ہو گئی جو اس کمپلیکس کے احاطے میں داخل ہو کر اسی مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ ہم نے انہیں روکا تو انہوں بہت محبت بھرے لہجے میں کہا: نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ وہاں سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا مگر ایک تو ہم اکیلے تھے اور رات کو درگاہ نظام الدین اولیا کی زیارت کا بھی پروگرام تھا لہٰذا ایک ہشاش دل کے ساتھ وہاں سے نکلے جیسے یہ جگہ ہم نے ہی فتح کی تھی‘ ایک سرشاری کا عالم‘ ایک مستی کی کیفیت۔ 
عصر کے وقت جب ہم اپنے کمرے میں پہنچے تو ہمارے روم میٹ گم سم بیٹھے تھے یا ہمیں ایسا لگا کہ وہ کچھ خاموش سے لگ رہے ہیں۔ دوپہر سے قبل ہم ان کو بتا کر گئے تھے کہ اپنا ارادہ آج تاریخ کے جھروکوں سے دہلی شہر دیکھنے کا ہے۔ آئیے! چلیں اکٹھے چلتے ہیں۔ مگر وہ تو جیسے بھرے پڑے تھے۔ ہم نے ان سے کہا: چلو پہلے کھانا کھا کے آتے ہیں، شاید آپ کا موڈ تھوڑا ٹھیک ہو جائے۔ بھلے مانس آدمی تھے‘ مان گئے۔ سیڑھیاں اترتے اور اپنی دھوتی سنبھالتے ہوئے کہنے لگے: یہاں ہم پاکستانیوں کی ذرہ برابر عزت نہیں۔ ہم سے زیادہ عزت تو یہاں سری لنکا اور بھوٹان کے لوگوں کی ہے۔ پھر خود ہی بات بڑھا کر کہنے لگے: ہم انصاری روڈ پر گئے تھے، وہاں سے ہم نے کسی سے دریا گنج کا راستہ پوچھا تو جواباً ایسے گھور کر دیکھا اور توہین آمیز انداز میں ہاتھ کے اشارے سے جیسے کہا: چل پھوٹ! اس سے بہتر تھا ہم آپ کے ساتھ چلے جاتے آپ بھی تو بتائے بغیر غائب ہو جاتے ہیں۔ کوئی اتا پتا دے کر جاتے۔ آپ کو معلوم تو ہے یہاں ہمارے پاس موبائل نہیں ہیں۔ وہ کھانا اپنی ٹرے میں رکھتے جاتے تھے اور ہمیں جھاڑتے جاتے تھے۔ آخر تنگ آ کر کہنے لگے: کچھ بولیے۔ہم تو مستی سے بھرے بیٹھے تھے ایسے لگتا تھا اپنی ہی سلطنت سے ہو کر آ رہے ہیں، اپنی جاگیر کی سیر سے واپس آئے ہیں۔ ان کو سارے دن کی کتھا سنائی اور بتایا: جب ہم علائی دروازے سے ہوتے ہوئے باہر نکلے تو سامنے سڑک کی دوسری جانب وہی ٹکٹ گھر تھا جہاں ہم سے پوچھا گیا تھا لوکل کہ غیر ملکی‘ اسی ٹکٹ گھر کی طرف دیکھ کر سوچا؛ اگرچہ یہاں ہم غیر ملکی ہیں اور سات دن کے ویزے پر مہمان بن کر آئے ہیں مگر ایسے لگتا ہے ہم کسی پرانے عہد کے نواب ہیں اور یہ ساری مہرئولی بلکہ ساری دلّی ہماری ہی قدیم حویلی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں