ہماری منزل ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ کے نزدیک ایک گائوں تھا، جہاں سنا تھا کہ ایک سیانا رہتا ہے۔ یہ جو گائوں میں سیانے مشہور ہوتے ہیں وہ کثیر الجہات شخصیت ہوتے ہیں۔ وہ مفتی بھی ہو سکتے ہیں اور عالم بھی کہ لوگ ان سے کوئی شرعی یا فقہی مسئلہ پوچھ سکتے ہیں۔ وہ حکیم بھی ہو سکتے ہیں‘ نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض بوجھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی مریض کسی عذر یا مجبوری کے تحت ان تک نہ آ سکتا ہو تو ان کا کپڑا لتّا سونگھ کر بھی دوا دے دیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ ساری خوبیاں ایک آدمی میں یکجا بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسے ہی کسی آدمی کا نام ماں جی نے سنا تھا کہ وہ فتح جنگ کے قریب کہیں ہڈیوں کے مرض کا علاج کرتا ہے۔یہ تقریباً میرے جیسے ڈرائیور کے لیے کم ازکم چھ گھنٹے کا سفر تھا۔ موٹر وے ابھی نہیں بنی تھی‘ سو یہ سفر جی ٹی روڈ کے ذریعے ہی ہو طے کیا جانا تھا۔ سرائے عالمگیر، جہلم، راولپنڈی سے ہوتے ہوئے کوہاٹ روڈ پر جانا تھا۔ ترنول کے مقام پر اس وقت ریلوے پھاٹک پر بہت وقت لگ جاتا تھا کہ یہاں سے ایکسپریس گاڑیوں نے گزرنا ہوتا تھا۔
جہاں ٹرین کے آنے کے وقت کافی صرف ہو جاتا تھا اگر اس کا آدھ گھنٹہ شامل کر لیں تو سفر سات سے آٹھ گھنٹوں پر محیط ہو سکتا تھا۔ ماں جی نے کہا اس کا مطلب تم دو پہر کو گاڑی چلائو گے۔ وہ آخری وقت تک پہر کے حساب سے وقت کا حساب لگاتی تھیں۔ ایک پہر تین گھنٹوں کا۔ یہ تو بہت لمبا سفر ہے‘ ایسا کرتے ہیں ایک دن راستے میں چھوٹی بہن کے پاس رک کر سیانے کے پاس چلیں گے۔
خود ماں جی کے ہاتھ کا ناشتہ تیار تھا، تازہ مکھن کے پراٹھے۔ اگر ناشتے میں ان کی مشہور برانڈ آلو انڈے کی ڈش نہ ہوتی تو ناشتہ مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ان کے ہاتھوں کا بنا ہوا ناشتہ کر کے ہم نکل پڑے۔ ہم نے ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ پہنچنا تھا۔اب یہ قافلہ تین لوگوں پر مشتمل ہو کے چلا۔ آگے سیٹ پر ماں جی‘ پیچھے بیگم صاحبہ اور میں ڈرائیور۔ اٹک جانے سے چند ماہ قبل ہم ایک آرمی ہسپتال گئے تھے جہاں ایک بریگیڈیئر ڈاکٹر صاحب نے ماں جی کو چیک کیا۔ انہیں کچھ دوائیں لکھ دیں تا کہ درد میں افاقہ ہو۔ ویسے اُنہوں نے بتا دیا تھا کہ گھٹنے تبدیل کیے جانے چاہئیں مگر اس کی کامیابی کے چانسز ذرا کم ہیں لہٰذا اس تکلیف کے ساتھ ہی زندگی گزارنا پڑے گی۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ کیا ماں جی کے لئےKnee Replacement کا آپشن استعمال کیا جائے یا اس کا رسک نہ لیا جائے۔ اس ڈاکٹر نے یہی مشورہ دیا تھا کہ جیسے تیسے کام چل رہا ہے‘ اسے ایسے ہی چلنے دیں۔ بے جی کی عمر کے حساب سے یہ رسک نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔
یہ نوے کی دہائی کا اوائل تھا جب انہوں نے چھڑی کے سہارے چلنا شروع کیا تھا۔ انہیں گھٹنوں کا درد تھا جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا مگر اپنے معمولات میں انہوں نے میں کسی قسم کی کبھی دقت محسوس نہیں کی تھی۔جہاں جہاں ان کے بیٹے اور پوتے مقیم تھے‘ وہاں وہ جاتیں اور کئی کئی ماہ رہتیں۔اس درد کے ساتھ ہی انہوں نے جینا سیکھ لیا تھا یا یوں کہیے اس تکلیف کے ساتھ انہوں نے سمجھوتا سا کر لیا تھا۔ ماں جی نے ایک بھرپور زندگی گزاری جس میں انہوں نے اپنے بیٹوں کا عروج دیکھا‘ ان کی ترقی دیکھی۔ ٹی وی کے کسی چینل پر اپنے بیٹوں کو دیکھتیں تو پھولے نہ سماتیں۔ اپنے پوتوں‘ پوتیوں کی شادیوں میں ٹھسے سے شریک ہوتیں‘ پڑھی لکھی نہ ہونے کے باوجود خود اعتمادی سے بھرپور تھیں اور اپنے کڑماچاری میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں اور وہ احترام کروانا بھی جانتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک بھائی نے ہم تمام بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کی دعوت کی۔ ان کی ساری اولاد‘ پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں اور بہوئیں وہاں موجود تھیں۔ ایک ہوٹل میں بہت بڑا ٹیبل بُک کرایا گیا تھا۔ خاندان کے سربراہ کے طور پر وہ اسی کرسی پر بیٹھی تھیں جو ان کا حق تھا۔ باوقار طریقے سے تزک واحتشام دیکھنے والا تھا۔ اس دعوت میں ہم نے ایک دور شہر سے آنا تھا۔ جی ٹی روڈ پر رش کی وجہ سے کافی دیر ہو گئی۔ اس وقت ابھی موبائل فون نہیں آئے تھے‘ کافی رات ہوگئی۔ سارے بہن بھائی ہم لوگوں کا انتظار کر رہے تھے۔ جب ہم اس ہوٹل پہنچے تو ماں جی اپنی لاٹھی کے سہارے باہر انتظار کر رہی تھیں۔ ہمارے پہنچنے پر ان کا چہرہ کھل اٹھا اور زور سے بلائیں لیں۔ ہم ان سے ملتے وقت دست بوسی ضرور کرتے تھے۔
ترنول سے فتح جنگ اور اس سے آگے گلی جاگیر سے بائیں ہوتے ہوئے ہم کھوڑ میانوالی تلہ گنگ روڈ پر ہو لیے۔ یہ ایک نسبتاً کم ٹریفک والی سڑک تھی۔ وہاں سے ہم نے اس حکیم یا سیانے کے بارے میں پوچھا تو ایک لڑکے نے پوچھا کہ کس کے پاس جانا ہے ؟ ہمیں ان کے نام کا پتا تھا؛ البتہ گائوں کا نام یاد نہیں تھا۔ اس لڑکے نے سارا راستہ سمجھا دیا اور گائوں کا نام بھی بتا دیا جہاں حکیم صاحب ہوتے ہیں۔چھ‘ سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہماری منزل تھی۔
ماں جی اتنا لمبا سفر کر کے بھی باہمت تھیں اور ہم تھے کہ تھکاوٹ سے نڈھال ہو رہے تھے۔ اتنی بیماری اور درد کے باوجود مجھے کہنے لگیں: تھوڑا سا سفر رہ گیا ہے‘ وہاں تم تھوڑی دیر آرام کر لینا۔ہم جھینپ سے گئے کہ الٹا وہ ہمیں دلاسا دے رہی ہیں اور بات کا رخ موڑتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ سڑک میانوالی جا رہی ہے۔ کہنے لگیں: عطااللہ والا میانوالی؟
اتنے بہادر اور بڑے حوصلے والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں۔ظہر کے وقت ہم اس سیانے حکیم کے پاس پہنچے۔ چھوٹا سا گائوں تھا اور خاموشی بھری دوپہر۔ البتہ مریض وہاں کافی جمع تھے جن میں خواتین بھی تھیں۔ یہ سب جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں مبتلا افراد تھے۔ خستہ سے اور کچے پکے دو کمرے تھے‘ ایک میں وہ حکیم صاحب بیٹھے مریضوں کا علاج کر رہے تھے اور دوسرے میں ایک ان کا ملازم ٹوکن دے رہا تھا۔ ہم ماں جی اور بیگم کے ساتھ بغیر ٹوکن لیے سیدھے سیانے کے کمرے میں چلے گے اور ایک دو ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر ہم بیٹھ گئے۔سیانا علاج کا طریقہ بتا رہا تھا اور سیانے کا ایک معاون مریضوں کا ''علاج‘‘ کر رہا تھا۔ سیانا کمزور سا بوڑھا آدمی تھا اور معاون حکیم ہٹا کٹا نوجوان آدمی تھا۔ہم تینوں نے جو منظر دیکھا وہ بہت خوفناک تھا۔ ایک مریض کو معاون ہٹا کٹا گھٹنوں کی پورے زور سے پشت پر مسلسل ضربیں لگا رہا تھا۔ مریض نے ٹھیک کیا ہونا تھا‘ اس کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ایسی چیخیں سن کر ہمارا کلیجہ پھٹا جارہا تھا مگر سیانا صاحب مست تھے، جیسے ان کو چیخوں کی آواز ہی نہ سنائی دے رہی ہو۔ ہم نے سوچا کہ یہاں سے نکلیں‘ ماں جی کے اس علاج سے توبہ۔ ہم نے ماں جی سے پوچھا: اس سیانے سے علاج کروانا ہے ؟ تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور ہمیں وہاں سے چلنے کا کہا۔آدھ گھنٹہ وہاں ہم رکے اور مریضوں کی چیخیں سنتے رہے۔ ہمارے کہنے سے پہلے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور واپس چلنے کا کہا۔انہوں نے دوبارہ بھولے سے بھی نہ اس سیانے کا نام لیا اور نہ کسی حکیم سے علاج کرانے کا سوچا۔ مگر زندگی کے آخری دنوں تک اپنے گھٹنوں کے درد کی بات کرتیں تو ضرور کہتیں کہ اس درد کے علاج کے لیے میرا بیٹا مجھے کہاں کہاں نہیں لے کر گیا۔ بہت دور ضلع اٹک بھی لے کر گیا ہے۔ فوجی ہسپتال میں ایک ''جرنل‘‘کو بھی چیک کرایا مگر اس سیانے کا نام ان کی زبان پر کبھی نہ آیا جو مریضوں کی چیخیں نکلوا رہا تھا۔ماں جی چودہ جنوری2014 ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی باتیں اور شفقت یاد کر کے بے اختیار اقبالؒ کا شعر یاد آتا ہے ؎
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دُعاؤں سے فضا معمور ہے