باپ بھی اردو میں گولڈ میڈلسٹ‘ بیٹا بھی گولڈ میڈلسٹ۔ باپ بھی پی ایچ ڈی‘ بیٹا بھی پی ایچ ڈی۔ باپ بھی اورنٹیئل کالج سے فارغ التحصیل بیٹا کی بھی مادرِ علمی وہی۔ ایسا کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے مگر امرِ واقع ایسے ہی ہے۔ یہ مجید امجد اور منیر نیازی کے ہم محفل الف۔ د۔ نسیم اور ان کے بیٹے سعادت سعید کی کہانی ہے۔ باپ نے اورنٹیئل کالج سے دوسری پی ایچ ڈی کی۔ اردو کی پہلی پی ایچ ڈی ڈاکٹر وزیر آغا نے ''اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘ کے نام سے کی۔ بنیادی طور انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کیا تھا مگر اردو میں پہلی پی ایچ ڈی کا اعزاز انہی کے حصے میں آیا۔ الف۔ د۔ نسیم اورنٹیئل کالج کے پہلے طالبعلم تھے جنہوں نے سید عبداللہ کی نگرانی میں اپنا تھیسز مکمل کیا۔انہوں نے ''اردو شاعری کا مذہبی اور فلسفیانہ عنصر‘‘ کے موضوع پر اپنا پہلا کام مکمل کیا۔ اس کے بعد تو گویا طبیعت بھی رواں ہوتی چلی گی اور ان کا قلم بھی۔ اردو شاعری کی مذہبی اور صوفیانہ اصطلاحات، اردو فکشن مشرقی اقدار کی روشنی میں، اردو کی قدیم مذہبی اور صوفیانہ مثنویاں، خاندانِ شاہ ولی اللہ کا اردو کی ترویج میں حصہ، اردو شاعروں کے معاشقے، خاندانِ میر حسن اور اردو، اردو کے چند مرثیہ نگار، دہلی کا شاعرانہ ماحول (اٹھارہویں صدی)جیسی اور کئی اہم تحقیقی کتب تصنیف کیں۔
ساہیوال میں مجید امجد اور الف د نسیم اور کہیں اکٹھے ہوتے یا نہ ہوتے ہوں‘ مکان شریفی صاحب کے ہاں دونوں فیوض و برکات کے لیے ہم محفل ہوتے تھے۔ حضرت منظور حسین شاہ نقوی مکان شریفی کے آستانے پر جو روح پرور محفلیں منعقد ہوتی تھیں ان میں دونوں اکٹھے شریک ہوتے تھے۔ حضرت منظور حسین شاہ نقوی جن کے بارے میں مجید امجد نے نظم لکھی۔
میں نے دیکھا...
اس نے اپنی اس اک عمر میں جتنی زندگیاں پائی تھیں
یہ نظم بھی اسی قبیل کی ہے جس طرح کی مجید امجد کی نظم منٹو ہے مگر نفسِ مضمون الگ ہونے کی وجہ سے یہ نظم کلیات میں دب سی گئی ہے۔اب سید منظور حسین نقوی صاحب کے بارے میں کچھ سن لیجیے وہ رتڑ چھڑ گورداسپور سے تھے اور تقسیم کے وقت ہجرت کر کے ساہیوال آگئے۔ مہجور تخلّص تھا۔ حضرت علیؓ کی اولاد سے تھے۔یہاں عشاق اور پروانوں کا وہ ہجوم اکٹھا ہوا کہ ہمہ وقت ان کا گھر ذکرِ الٰہی سے منور رہتا۔ صبح کیا شام کیا‘ کیا رات اور کیا فجر۔جس مکان کو رہنے کے لیے عزت بخشی اس مکان کی قسمت دیکھیے وہ بھی مکان شریف ہو گیا۔مرزا غالب کا کہا ایک دفعہ پھر سچ ہوا کہ
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
دیکھیں اسی شرف میں شریف ہے اب وہ ساری نسل ہی مکان شریفی کہلاتی ہے اور اسی نام سے معروف ہے۔ وہاں مجید امجد بھی ہوتے تھے اور ہمارے ممدوح بھی۔ ن م راشد کا بھی مکان شریفی صاحب کے ہاں آنا جانا ہوتا تھا۔ ن م راشد کی ایک بہن کی شادی ساہیوال میں ہوئی تھی سو وہ جب بھی وہاں آتے‘ اپنے بہنوئی کے ہمراہ یہاں حاضری ضرور دیتے۔ان کی زندگی پر ہمارے دوست افتخار شفیع کی بیگم نظیر افتخار نے ایک اعلیٰ کتاب لکھی ہے جو جلد اشاعت کی منتظر ہے۔
الف د نسیم نے اپنی عملی زندگی کا آغاز فیروزپور شہر سے ایک تار گھر میں ملازمت سے شروع کیا تھا۔ اورنٹیئل کالج کے پہلے سیشن میں داخلہ لیا۔ سید عبداللہ سے تلمذ کیا، گولڈ میڈل حاصل کیا اور منٹگمری شہر کے ہو گئے۔ وہیں اپنی بھرپور زندگی گزاری۔ منیر نیازی، مجید امجد اور بشیر احمد بشیر سے ملنا ملانا جاری رکھا۔ سجاد میر، طارق عزیز اور مجیب الرحمن شامی سے شفقت اور محبت کا سلسلہ بڑھایا۔بنیادی طور پر الف د نسیم ہوشیار پور کے رہنے والے تھے‘ وہی ہوشیار پور جہاں منیر نیازی کا طلسم کدہ خان پور تھا اور اشفاق احمد کا مسکن تھا‘ مگر منٹگمری‘ جو1969ء میں ساہیوال ہو گیا‘ کے ہو گئے۔ ساری زندگی وہ اور گورنمنٹ کالج ساہیوال یک جان دو قالب ہو گئے۔اگر فیض احمد فیضؔ کے ساتھ شام منانی ہو پھر بھی اسرار زیدی، سلیم وحید، سلیم میر تسخیر، مجید امجد اور الف د نسیم اکٹھے، مکان شریفی صاحب کے ہاں کوئی محفل ہو تو بھی یہ دونوں وہاں موجود۔
وہ اردو کے واحد ادیب ہیں جنہوں نے مذہب اسلام کے بارے میں بہت ساری کتب لکھیں جن میں سیرتِ نبویﷺ پر دو کتابیں حیات النبیﷺ، نورِ مجسمﷺ بھی شامل ہیں۔ ان کا نعتیہ مجموعہ اس کے علاوہ ہے جس کا نام نسیمِ طیبہ ہے۔ان کا اصل کام اقبالیات کے متعلق الگ ہے جن میں اقبال کا فنِ شعر مسجد قرطبہ کی روشنی میں، اقبال ہمہ جہت شخصیت، اقبال اور ارکانِ اسلام، اقبال اور مسئلہ وحدت الوجودجیسی تصنیفات شامل ہیں مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ان کا اصل انفراد اقبال کے سارے فارسی کلام کی تشریح و توضیح ہے۔ اقبال نے زیادہ لکھا بھی فارسی میں سو اس کلام کی معرفت ہمارے جیسے اردو دان طبقے کے لیے اور ضروری تھی۔ اقبال کی کوئی ایسی فارسی کتاب نہیں جس کی تشریح انہوں نے نہ کی ہو۔انہوں نے تمام فارسی کلام کا ترجمہ بھی کیا اور ساتھ مطالب بھی لکھے۔
جاوید نامہ اقبال کا ماسٹر پیس ہے جس کے بارے میں خود انہوں نے فرمایا تھا کہ اس تخلیق نے مجھے خشک کر دیا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے الف د نسیم نے اس کے مطالب لکھ کر اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ ترجمہ و مطالب پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، ترجمہ و مطالب پیام مشرق، ترجمہ و مطالب ارمغانِ حجاز اس پر مستزاد ہے۔اس سارے کام کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کلاسیکی علمی شخصیت تھے اور مشرقی فکر شناسی ان کی دلچسپی کا مرکز تھی۔وہ الگ مضامین میں بھی ایک ایک نظم کے پس منظر کے بارے تفصیلات مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اقبال کے اردو کلام کی شرح و مطالب بھی لکھے ہیں۔ بانگ درا اور بالِ جبریل پر بھی جم کر لکھا ہے۔ایسے نابغے کم کم جنم لیتے ہیں مگر جب ان کا اس ادبی دنیا میں ظہور ہو جاتا ہے تو ہما شما کی ساری کمیاں کوتاہیاں پوری کر دیتے ہیں۔ جتنا کام نسیم نے کیا ہے یہ اپنی نوعیت میں ایک ادارے کا کام ہے جو انہوں نے تنِ تنہا انجام دیا۔
الف د نسیم کی کل سینتیس تصانیف ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اپنی عملی تدریسی زندگی میں وہ ہر سال ایک کتاب لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ بذاتِ خود باعثِ توصیف امر ہے اور جتنا بھی کام کیا وہ اپنی جگہ بہت وقیع ہے۔ ایسے نابغوں پر کام کیا جانا چاہیے جن کی اردو اور ملک عزیز سے محبت قابل تقلید ہے۔ جنہوں نے اقبالیات کو نئے زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی۔ اقبال کے اصل پیغام کو آسان اور واضح لفظوں میں متعارف کروایا۔ سر دست اس وقت جو دو مسودے مقتدرہ اور انجمن ترقی اردو کے کتب خانوں محفوظ ہیں ان کو ڈیجیٹلائز کیا جائے اور ان کی وقفے وقفے سے مگر تواتر سے اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔علم کی شمع جو انہوں نے روشن کی تھی اب وہ ان کے صاحبزادے کے ہاتھ میں ہے۔ سعادت سعید اس عہد کا ایک اہم علمی اور ادبی نام ہے جس کی ادب سے کمٹمنٹ بھی کسی لالچ اور دنیاوی منصب سے بلند ہے۔ ساہیوال میں حضرت مہجور صاحب مکان شریفی کے مکان کی اپنی الگ شان ہے مگر حالی روڈ ساہیوال میں نسیم کے گھر ہونے والی روزانہ محفلوں کا نشہ بھی اب تک وہاں جانے والے جوئیانِ علم کو نہیں بھولا۔