انیس جنوری کو نصف رات‘ یعنی ایک بجے وٹس ایپ پر میسج آنا ناگہانی اندیشے میں مبتلا تو کرتا ہے‘ سو صبح وسوسوں کے درمیان ان کے صاحب زادے راشد آغا کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ آغا امیر حسین ہمارے ہی علاقے میں واقع ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس ہسپتال میں وہ پچھلے دو سالوں سے آ رہے تھے‘ چند دن رہتے‘ بھلے چنگے ہو کر گھر چلے جاتے۔ دو دن آرام سے کٹتے پھر معلوم پڑتا کہ افاقہ نہیں ہوا۔پچھلے ڈیڑھ دو سالوں سے ان کا ریگل والا کتب خانہ اور دفتر بھی بند تھا۔ البتہ گرائونڈ فلور پر بزنس چل رہا تھا۔ ان کے ایک پرچے‘ ایک کتاب کے سلسلے پر مبنی ادبی مجلے سپوتنک‘ جو پچھلے پچیس تیس سالوں سے مسلسل چھپ رہا تھا‘ میں بے قاعدگی آنے لگی تھی۔ البتہ وہ کالم لکھتے رہے اور وہ ایک معاصر میں چھپتا رہا۔اس میں بھی کچھ ہفتے تعطل آیا تو ہم تھوڑا گھبرائے، فون کیا تو کہا کہ دھوپ سینک رہا ہوں‘ طبیعت کافی بہتر ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ چند دن قبل جب ہم ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر گئے تب بھی اپنی صحت سے زیادہ اپنے پیشہ ورانہ امور اور اپنے ماہنامہ کے بروقت شائع نہ ہونے کا زیادہ افسوس کر رہے تھے۔ دل تھا کہ مسلسل تشویش میں مبتلا تھا اور کسی انجانے خدشے سے جان لرز رہی تھی۔ کسی پل چین نہیں پڑ رہا تھا کبھی سوچتا کہ راشد آغا سے بات کروں مگر وہ تو ہمیں مسلسل ان کی بگڑتی ہوئی صور حال سے آگاہ رکھے ہوئے تھے۔ بیگم صاحب کی اپنی طبیعت کئی مہینوں سے ناساز تھی۔ شکر ہے کہ رضوان آغا اپنے والد کی بگڑتی صحت کے پیش نظر چار دن قبل غیر ملک سے واپس آگئے تھے۔ تینوں وفا شعار بیٹے اپنے والد کے چوگرد ان کی ہمہ وقت خدمت میں مصروف تھے مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اللہ کا حکم آ گیا، آغا صاحب بیس جنوری کو عشا کے وقت انتقال فرما گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون!
معاشرہ ایک دیانت کے پیکر، جدوجہد کے سمبل، شرافت اور وقار کی خاطر کھڑے رہنے والے اور اپنے موقف کی سچائی پر قائم رہنے والے ایک بیباک صحافی، سوانح نگار، ادیب اور پبلشر سے محروم ہو گیا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔اس میں انہیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور جسمانی اذیتیں بھی برداشت کیں مگر اپنی عزت اور کردار پر حرف نہ آنے دیا۔کتنی دفعہ جیل گئے‘ کتنی بار حوالات میں بند ہوئے مگر وہ بے گناہ تھے اور بے گناہی ثابت کر کے رہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں وقت فیصلہ دیتا ہے ؎
اس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
آغا صاحب کا تعلق مونہہ رسولپور بھارت کی ان سات باغی بستیوں سے تھا جن کو انگریزوں نے 1857ء کی جنگ میں تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ان کا بچپن دہلی میں گزرا۔ دس‘ بارہ سال کی عمر میں پاکستان آئے اور پھر پاکستان کے ہی ہو گئے۔ آخری دم تک پاکستان اور پاکستانیت کی محبت پالی۔ اصل میں وہ اول و آخر پاکستانی تھے۔ برہمن کی مکاریوں سے آگاہ تھے لہٰذا ہر کالم میں ہندووانہ مکاریوں اور سیاسی چالوں کا پردہ چاک کرتے تھے۔وہ کئی عشروں تک اخباروں میں اپنے شذرات پاکستان کے وقار اور استحکام کے لیے لکھتے رہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اور ہندوتوا کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ آغا امیر حسین لیفٹ کے آخری آدمی تھے۔ ہماری دوستی اور محبت میں دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بھی ایک سبب تھا۔وہ تو تھے ہی نظریاتی اول تا آخر نظریاتی۔ کتنی دفعہ کلاسک کو نذرِ آتش کیا گیا‘ ساٹھ کی دہائی سے نوے کی دہائی تک‘ جدوجہد کی کہانی، سچ کی لڑائی، نہ پیچھے ہٹنا سیکھا نہ پیچھے ہٹے۔دوستی ذوالفقار علی بھٹو سے مگر ایک پیسے کے لالچ کے بغیر۔زمانہ ان کی دیانت کی قسم اٹھانے کو تیار۔جگر نے کیا کہا تھا؎
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
پیپلز پارٹی کے قیام سے آخر تک‘ ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی نبھائی۔ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران جب سب نے خموشی میں عافیت جانی تھی انہوں نے مارشل لا کے خلاف قرطاسِ ابیض شائع کر کے سیاسی میدان میں آگ لگا دی۔ جب سارے بھٹو مرحوم کے دوست ان سے الگ ہو چکے تھے‘ آغا صاحب نے کئی ممالک کے چیف جسٹس صاحبان کو مدعو کر کے یہاں بھٹو ٹرائل سیمینارمنعقد کروایا۔ذوالفقار علی بھٹو کی تمام کتب کا سیٹ دیدہ زیب انداز میں شائع کیا۔خود پیپلز پارٹی کے بانی اراکین سے تھے پیپلز پارٹی کو خیرباد ضرورکہا مگر دوستی کا بھرم کیسے رکھا جاتا ہے‘ کوئی ان سے سیکھے۔
فاروق لغاری نے اپنی پارٹی بنائی۔ آغا صاحب کو بھی بلایا۔ صاف کہا : نقب بھی لگائی ہے تو اپنی ہی پارٹی میں۔بھٹو صاحب کئی بار ان کے ادارے میں آئے۔ دو دفعہ ان کی کتابوں کے ادارے کو نذرِ آتش کیا گیا مگر یہ بھاری پتھر کسی سے نہ ہلا۔بڑے بڑے پھنے خانوں کے کس بل نکالے۔ را ئورشید مرحوم پنجاب پولیس کے سربراہ تھے‘ آغاصاحب پر جھوٹے کیس بنائے گئے۔ گوالمنڈی تھانے میں بند کر دیے گئے ذہنی کوفت کے لیے وہیں رات کو گھوڑا بھی باندھ دیا گیا۔ اگلے دن ہتھکڑیوں سمیت پیدل مال روڈ سے گزارا گیا۔ تب پنجاب پولیس کا سربراہ سیکرٹریٹ میں بیٹھتا تھا۔ وہاں وہ بڑی مجلس لگائے بیٹھے تھے‘ یہ پولیس کی حراست میں کمرے میں داخل ہوئے تو سربراہ گویا ہوئے: اس کا دماغ دیکھ ٹھیک ہوا کہ نہیں؟آغا صاحب کا رسول پور دہلی کا سادات خون جوش میں آیا تو ایک دنیا نے دیکھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن راوی ہیں کہ یہ ساری کارروائی پیپلز پارٹی کے ہی ایک لیڈر کے کہنے پر ہورہی تھی۔ضمانت کے بعد وہ اپنے دفتر واقع ریگل چوک میں بیٹھے تھے کہ وہی سربراہ ان کے دفتر میں آئے اور معاملہ حل کرنے کی بات کی جو اس سربراہ کی معذرت تک پہنچی۔آغا صاحب نے کہا معذرت ایسے تو قبول نہیں ہو گی‘ تحریری معذرت قبول ہو گی۔پھر ایک تحریری معذرت موصول ہوئی۔یہ معذرت نامہ حکومت پنجاب کی طرف سے جاری ہوا تھا۔اس سربراہ نے ان کو رام کرنے کے لیے روپے پیسے کی کی بھی آفر کی جو انہوں نے کہاں قبول کرناتھی۔
انہوں نے زندگی کے 75 برس اس شہر میں گزارے‘ وہ لاہور کی چلتی پھرتی ادبی، سیاسی اور سماجی تاریخ تھے۔ادبی دوستیاں سعادت حسن منٹو، منو بھائی، حنیف رامے، ظہیر کاشمیری، آغا گل، خیال امروہوی، فخر زمان اور سید افضال حیدر جیسے لوگوں سے تھیں۔ سیاسی دوستیاں ذوالفقار علی بھٹو، مبشر حسن، بے نظیر بھٹو، معراج خالد، معراج محمد خان اور گورنر سروپ خان جیسے زعما سے تھیں۔
سیلز مینی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اپنی ذاتی محنت اور جدوجہد سے ایک کامیاب پبلشنگ ہائوس اور وہ بھی شہر کے عین مرکز میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے۔آغا صاحب کو کتابوں سے عشق تھا‘ لاکھوں کتابیں شائع کیں۔ مکتبہ فرینکلن سے معاہدے کے تحت بڑے بڑے مغربی ادیبوں کی کتب ترجمہ کروائیں اور شائع کیں جن میں لورن ایزلے جیسے مفکر انشائیہ نویس بھی شامل تھے۔سپوتنک کا ہر شمارہ ایک کتاب شمارہ ہوتا تھا‘پچھلے پچیس تیس سالوں سے ہر ماہ ایک کتاب قارئین کو فراہم کی جاتی رہی۔
آغا صاحب کمٹمنٹ کے آدمی تھے۔ لالچ، جبر، دھمکی اور دھونس کو پر کاہ کے برابر اہمیت نہیں دیتے تھے۔ انہیں اپنے سچ کے مقابلے میں اپنے پبلشنگ ہائوس کی بندش کی بھی پروا نہ تھی اور ایسی دھمکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے مگر دل میں کسی قسم کی رنجش نہیں پالتے تھے۔ ارادے اور ہمت کے پہاڑ تھے۔ محنت کر کے اپنا مقام بنایا، بڑے بڑوں سے ٹکر لی مگر ان کے پائے استقلال کو کوئی متزلزل نہ کر سکا۔ مگر جب ان کی بیٹی نغمہ شمیم کا اچانک انتقال ہوا تو صبر و استقلال کا یہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ پہلی دفعہ میں نے ان کو آبدیدہ دیکھا۔ لگتا نہیں تھا یہ وہی آغا امیر حسین ہیں۔ نہیں! تب وہ صرف باپ تھے ایک مرحوم بیٹی کے سوگوار باپ۔