مسئلہ وہی ہے جس کی جانب سید محمد جعفری نے اشارہ کیا ہے
جاجا جعفری غا غریب ہے تتا تمغہ اس کو نہ دیجیے۔ (جعفری غریب ہے لہٰذا اسے تمغہ نہ دیجیے )
کسی کے اپنے کام سے کام رکھنے کی کوئی وقعت نہیں اور خاموشی سے اپنے فرائض انجام دینے والے کی کوئی عزت نہیں۔ بس ''ہٹو بچو‘‘ اور ''دے مار ساڑھے چار‘‘ کی آواز آئے تو وہ کامیاب منتظم ہے۔ کبھی نقارہ بجے اور منادی ہو کہ سونے کے ذخائر دریافت ہو گئے ہیں قوم کی قسمت بدلنے ہی والی ہے‘ شادیانے بجانے والوں کی فوج ظفر موج ساتھ ہو اور کامیابیوں کی الف لیلہ سنانے کو بیتاب۔ میر باقر علی داستان گو کی طرح‘ جو جامعہ مسجد کی سیڑھیوں پر داستان چھیڑتا تھا تو سماں باندھ دیتا تھا‘ بس ایسے ہی درجنوں میر باقر کیا کیا نکتہ آفرینیاں کرتے کہ ترقی کی رفتار بہت تیز ہے۔ خود نعرہ زن ہوتے ''بدلا ہے پنجاب‘ اب بدلیں گے پاکستان‘‘۔ بس وہ دھول اڑتی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ اب وہ سونے کے ذخائر کی کہانی ماضی کے قصوں میں دفن ہو گئی ہے۔ مگر نہ سونا نہ سونے کے ذخائر!
کسی کے اچھے کام اور کام کی لگن کی تعریف کبھی اس لیے نہ کریں فقط اس لیے کہ وہ پہلی بار وزیر اعلیٰ بنا ہے یا اس کا تعلق کسی بڑے شہر سے نہیں یا کوئی اور بھی وجہ ہے ؟ اب سارے بزرجمہر اکٹھے ہو کر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ''ججا جعفری‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر ان کی اصل خوبی کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔
پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ وزارتِ عظمیٰ سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک صوبہ نہیں ایک ملک ہے‘ یورپ کے کئی ممالک کے برابر۔ سو اس ملک نما صوبہ کا جو بھی حکمران بنتا یا بنایا جاتا ہے‘ وہ خبط ِ عظمت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور تو اور مرحوم غلام حیدر وائیں بھی اپنی شخصیت کے مغالطے میں مبتلا سے ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ کہنے لگے: مجھ میں اس قدر خوبیاں تھیں اس کا تو مجھے خود پتا نہیں تھا۔ دوم، یہاں جو بھی یہاں برسراقتدار آیا اس نے مرکز کے خلاف بغاوت ضرور کی‘ سوائے پرویز الٰہی کے۔ ہائے ان چودھریوں کی سی وضع داری کوئی کہاں سے لائے۔ مرکز کے خلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی بغاوت سے یہ سبق سیکھا کہ یا تو وزارت اعلیٰ گھر میں رہے یا غلام حیدر وائیں جیسے آدمی کے پاس، تیسری کوئی آپشن نہیں۔ مگر پچھلے دس سالوں میں تو انہوں نے ایسے تجربے سے بھی گریز کیا ہے۔
دو سال پہلے مال روڈ کیسے کیسے اشتہاروں سے بھری ہوتی تھی‘ روزانہ نئے اور طرح طرح کے اشتہارات، درختوں پر اور سڑکوں کے کنارے پر دکھائی دیتے تھے۔ بزدار حکومت Pep Talk پر نہیں‘ عمل پر یقین رکھتی ہے۔ کام تو اب بھی ہو رہے ہیں مگر اپنی وضع سے۔ موجودہ حکومت نے اقلیتوں کے تعلیمی نصاب میں بھگوت گیتا، بائبل اور گرو گرنتھ صاحب کو شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کرتار پور کوریڈور کے بعد سکھوں کے تاریخی مقامات کو دوبارہ محفوظ بنانے کا کام شروع ہوا ہے۔ ارفع کریم ٹاور کے قریب سات ارب سے ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہسپتال، ریلوے سٹیشن سے شیرانوالہ دروازے تک اوورہیڈ برج کے لیے ساڑھے چار ارب، ایل ڈی اے سٹی میں کم آمدنی والوں کے لیے چار ہزار اپاٹمنٹس، اس کے علاوہ آٹھ ہزار کنال پر پینتیس ہزار اپاٹمنٹس مزید تعمیر کیے جائیں گے۔ ٹھوکر پر جدید ترین بس ٹرمینل، گرین الیکٹرک بس منصوبہ اس کے علاوہ ہے بند روڈچوک بابو صابو سے آنے اور نکلنے والی ٹریفک کو رواں دواں اور ٹریفک کا لوڈ کم کرنے کے لیے ایک انڈر پاس سمن آباد تک بنانے کا منصوبہ ہے جس کے لیے فنڈز الاٹ ہو چکے ہیں۔ شہر کی تین سڑکوں مال روڈ، جیل روڈ اور فیروزپور روڈ کو ریڈ زون قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک ہزار بدمعاشوں کے اسلحہ لائسنس منسوح کیے گئے ہیں جو شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔ قبضہ مافیا پر ہاتھ ڈالا ہے‘ لاہور کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے سے انتظامیہ اور پولیسنگ کی مدد سے امن و امان کی صورت بہتر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
اقربا پروری کئی عشروں تک سیاسی حکمرانوں کے صرف گھر کے افراد تک محدود نہیں تھی بلکہ اس حمام میں کیا سیاستدان اور کیا آس پاس پھرنے والے بیوروکریٹس‘ سب خوب نہاے اور مَل مَل کے سات نسلوں کی میل اتاری۔ تب کہتے کہ کرپشن نہ ہو تو ترقی کیسے ہو۔ چند دن پہلے برازیل میں چی گویرا کی پوتی نے ایک میچ کے دوران فلسطینی پرچم لہرا دیا تھا‘ یہ برازیل نہیں پاکستان ہے۔ یہ چی گویرا کا نہیں یہ اور قسم کے انقلابیوں کا پاکستان ہے یہاں روپے پیسے کا جھنڈا ہے اور جھوٹ کی مشعل ہے جو مریم اور بلاول ایک دوسرے کے حوالے کرنے کی مہم پر ہیں۔ یہ انقلاب کے داعی ہیں مگر اس انقلاب کا چی گویرا سے کچھ لینا دینا نہیں۔
مخالفت بھی ہو رہی ہے کہ لانگ مارچ اور استعفوں کی بات ٹھنڈی پڑنے لگی ہے۔ پیغام رسانی کا جو کام شروع ہوا تھا بغیر نتیجے کے اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ ایک پرانا کردار چند دن قبل کوٹ لکھپت جیل کے باہر پریس کانفرنس کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک سو سال پراناواقعہ یاد آ گیا، ہم نے بہت پہلے کسی سے یہ واقعہ سنا تھا کہ ایک مفت خوروں کا قبیلہ تھا اور وہ مستی کی کیفیت میں رہنے کے عادی تھا۔ اس کے ایک بڑے کے پاس انگریز حکومت کا اہلکار اس غرض سے ملکہ کا پیغام لے کر پہنچا کہ جنگ میں آپ کو بھی نوجوان مہیا کرنے چاہیے۔ وہ قبیلہ تو مزے کا کھانا کھانے کے لیے بیتاب ہورہا تھا‘ بڑے دنوں کے بعد پورے اہتمام سے ہنڈیا پکی تھی۔ وہ سارے نوجوان رالیں ٹپکا رہے تھے اور کھانے کی مہک انہیں بے چین کر رہی تھی۔ اس قوم کا مکھیا ہنسا اور ذرا بے تکلف ہو کر اہلکار کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا کہ بات اگر ہمارے نوجوانوں کی جنگ میں شمولیت تک آ گئی ہے اور ہمارے نوجوانوں نے ہی ہٹلر سے مقابلہ کرنا ہے تو میری بات مانیں‘ ہٹلر سے صلح کر لیں۔ عجیب منطق ہے کہ ٹھنڈا پانی میری آنتوں میں تو ہضم ہو جاتا ہے دوسرے کی آنتوں میں جا کر جم جاتا ہے۔ پاور تو سیٹ کی ہوتی ہے‘ ساری کرامت طاقت کی ہوتی ہے۔
عمران خان صاحب کو لاکھ برا کہیں‘ ان کی نااہلی کی بات کریں یا ان کے دوستوں کے سچے جھوٹے قصے بیان کریں‘ اس بات کا ان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کا ووٹر بددل ضرور ہوا ہے مگر وہ ان کے ساتھ اب بھی کھڑا ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاست کی موٹر وے پر گہری دھند ہے اور حدِ نگاہ زیرو میٹر ہے۔ وہ کسی وقت بھی کسی گاڑی سے ٹکرا سکتے ہیں اور ان کا ادھ پچدھ کیا ہوا سفر کھوٹا ہو سکتا ہے۔ یہ سارے آزمائے ہوے لوگ ہیں‘ اگر یہ لوگ ہی اس ملک کو بہتر گورننس اور عوام کے لیے سہولتیں، بہتر مستقبل اور اچھی اقتصادی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے نکلے ہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ حضور! یہ ملک آپ نے ہی تباہ و برباد کیا ہے۔ بڑے کیا اور چھوٹے کیا ‘سب صوبوں میں آپ کی ہی کی حکومتیں رہی ہیں۔ عمران خان کے وزرا اور ووٹر نظامی گنجوی کے شعر کی اب بھی مکمل تفسیر ہیں کہ
کہ مغناطیس اگر عاشق نبودی
بداں شوق آہنی را چوں ربودی
(اگر مقناطیس عاشق نہ ہوتا تو کسی لوہے کو اس اشتیاق سے کیسے کھینچتا؟ )
بزدار صاحب نے نہ ہمیں دھوکے میں رکھا نہ اپنے لیڈر کو دھوکا دیا۔ ہم تو عثمان بزدار کو ''غغا ریب‘‘ نہیں سمجھتے بلکہ اسے ''تتا تمغے ‘‘کا حقدار سمجھتے ہیں کہ صرف چھ ووٹوں کے فرق سے اڑھائی سال حکومت کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اب سینیٹ کا مرحلہ درپیش ہے‘ اس پل صراط سے اگر وہ بخیر و خوبی گزر گئے تو اگلے ڈھائی سال بھی عثمان بزدار کے۔