کل ہمارے دیس پنجاب کے وسنیکوں نے جَگت ماں بولی دیہاڑ منایا۔ ماں بولی کے عشاّق چیئرنگ کراس پر جمع ہوئے اپنے حق کے لیے، جائز حق کے لیے۔
کل کی بات لگتی ہے کہ ماں بولی یا مادری زبان کے دن کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ محض دو عشرے پہلے۔ اس دن کو ہر سال اکیس فروری کو منانے کا آغاز 2000ء میں ہوا۔ اس سلسلے کا آغاز ہمارے پنجابی دانشوروں نے بہت پہلے، ساٹھ کی دہائی میں کر دیا تھا۔ چیئرنگ کراس پر اکیس فروری کو ماں بولی کے وہی عشاق اکٹھے ہوئے تھے۔ ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اُس خطے کی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے مگر ہمارے تین صوبے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے طلبہ اس حق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
کہانی تکلیف دہ ہے مگر اس ناانصافی سے ہی شاید نظر انداز ہوتی پنجابی، پشتو اور بلوچی زبانوں کی سرپرستی کا خیال کسی کو آ جائے۔ عالمی ماں بولی کا دن منانے کا آغاز ہمارے ہی بھائی بندوں نے کیا جو کبھی مشرقی پاکستانی اور آج کل بنگلہ دیشی کہلاتے ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم عبدالصمد نے اپنے ساتھیوں سمیت اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ کر کے بتایا کہ پچھلی صدی کے چھٹے عشرے میں ماں بولی کی خاطر کئی طلبہ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ انہی طلبہ کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یہ دن منانے کا آغاز ہوا۔ عبدالصمد بنگلہ دیش کے شہر کمیلا سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیلا کا مطلب ہے کنول کا تالاب۔
اقوام متحدہ ہر سال ان زبانوں کا فہرست جاری کرتی ہے جن کے ختم یا معدوم ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ دنیا میں کل زبانوں کی تعداد چھ‘ سات ہزار کے قریب ہے اور جن کے معدوم ہونے کے امکانات ہیں ان کی تعداد بھی چھ ہزار کے قریب ہے۔ زبان انسان کی اور انسانی تہذیب کی کہانی ہے۔ زبان میں ہی ایک قوم کا تاریخی اثاثہ محفوظ ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں چوہتر کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ خطرہ ہے کہ بڑی زبانوں کے اژدہام اور لوگوں کے باہم میل جول کی وجہ سے بھی بہت ساری زبانوں کو اپنی بقا کی فکر لاحق ہو جائے گی۔
پنجابی ایک قدیم زبان ہے۔ اس کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ یہ خطہ دنیا اور انسان کی سب سے پرانی یا برابر تہذیب کا حامل خطّہ ہے۔ حملہ آوروں سے قبل جو لوگ یہاں آباد تھے وہ ایک عظیم الشان تہذیب کے حامل تھے۔ ان کی مادری زبان بھی بہرحال پنجابی تھی یا پراکرت تھی جس سے پنجابی ظہور پذیر ہوئی۔ کل ہماری جھاڑ کھنڈ (بھارت) کی ریاست میں رہنے والے دوست عبداللہ سے بات ہو رہی تھی۔ وہ اپنی مادری زبان میں بات کر رہا تھا مگر صاف لگ رہا تھا اس زبان پر بھی پنجابی کے اثرات ہیں۔ جھاڑ کھنڈ کا مطلب بذات خود پنجابی زبان کی چغلی کھا رہا ہے۔
ماں بولی کا رومانس بھلا کہیں جا سکتا ہے۔ یہ جھولے سے لے کر موت کے پٹڑے پر گرنے تک ساتھ رہتا ہے۔ کوئی اسے بھول نہیں سکتا، کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟ ماں نے جس زبان میں پہلی بات کی‘ وہ کیسے بھول سکتی ہے؟ بس ویسے ہی ہمارا رومانس بھی اس خطے اور اس خطے کی زبان سے ہے۔ ویسے بھی یہ دنیا کی قدیم ترین زبان ہے کہ اس خطے پر سب سے پہلا حملہ مصر کے دیوتا اُوسیرس نے کیا تھا۔ شمالی جتھے جو کیسپین کے کناروں سے اٹھے اور یہاں حاکم ہوئے‘ انہوں نے یہاں کی آبادی کو ناگی کہا۔ ان کی پہچان ناک سے کی۔ یہ چوڑی ناکوں والے ناگی تھے۔ یہ ناگی جو غلام بنا لیے گئے تھے‘ ان کی یہی زبان تھی یا موجودہ پنجابی کی ابتدائی شکل تھی۔ مہاتما بدھ کا زمانہ بھی ویدک پیریڈ کے اختتام کا ہے۔ یہی کوئی چار‘ پانچ سو سال قبل مسیح۔ مہاتما بدھ کا عروج اِس علاقے میں بھی ہوا اور اس سے آگے کے علاقہ جات بھی‘ جن میں افغانستان وغیرہ کا علاقہ شامل ہے، وہاں تک بودھ مت پھیل چکا تھا۔ مہاتما کی اپنی زبان پالی تھی مگر ان کے پیروکار اس خطے میں وافر تعداد میں تھے۔ سو مہاتما بھی اس زبان کے قتیل ہوئے۔ وفات کے وقت مہاتما کے الفاظ تھے ''اپو دھیپو بَھو‘‘۔ اس جملے کو غور سے دیکھیں تو اس میں ساری پنجابی چمک رہی ہے...آپ دیپ ہو جا۔
انگریزی زبان بھی مختلف زبانوں کے اختلاط سے ظہور پذیر ہوئی جیسے ہمارے ہاں اردو کی موجودہ شکل سامنے آئی۔ انگریزی زبان میں ایسے لاتعداد الفاظ ہیں جو خود ہماری نظر سے گزرے ہیں جو بظاہر اسی پنجابی زبان سے لیے گئے ہیں۔Prato Indian Route وہ حوالہ ہے جس سے ان الفاظ کی نشاندہی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں: Dictionary کا لفظ پنجابی لفظ ویکھن (دیکھنا) سے، New کا نویں سے،Matter( مادہ) ہماری ماں بولی کے لفظ 'ما‘ سے‘Myth اور Mouth‘ منہ سے اخذ کردہ ہیں۔ Nose کا ماخذ ناس‘ Day کا دیہوں‘Brother کا بھرا‘ Daughter کا دھی ہے‘ علیٰ ہذا القیاس! بہت سے اور بھی الفاظ ہیں مگر ہمارا مقصد صرف اشارہ کرنا تھا۔
صوبہ سندھ میں تو اُس خطے کی زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے مگر باقی تین صوبے اس حق سے محروم ہیں۔ سندھ میں ہندوستان کی تقسیم سے پہلے بھی سندھی ہی بنیادی ذریعہ تعلیم تھی۔ یہ کسی پاکستانی حکمران کا کارنامہ نہیں تھا۔ بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بچے اس حق سے محروم ہیں۔ اس حق سے انکار ایسے احساسِ محرومی کو جنم دیتا ہے جو بسا اوقات مہلک بھی ثابت ہوتا ہے۔ بنگالی زبان کا مسئلہ اس کی بڑی مثال ہے۔ صوبہ بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک کے دور میں اس پر کچھ کام ہوا تھا۔ تیسری جماعت تک بلوچی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں مادری زبان میں ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ ریاستِ مدھیا پردیش میں ہندی اور بعض ضلعوں میں مالوی، کیرالہ میں ملیالم، ہماچل پردیش میں ہندی اور ساتھ ہی سنسکرت کا مضمون بھی شامل ہے۔ راجستھان میں ہندی، مقبوضہ کشمیر میں آٹھویں جماعت تک کشمیری اور باقی صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔
یہ تسلیم کرنے میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ماں بولی میں تعلیم بچے کی ذہنی نشوونما میں انتہائی مددگار ہوتی ہے۔ اس کی صلاحیتیں نکھرتی اور یادداشت طاقت حاصل کرتی ہے۔ یہاں بچوں کے لیے کئی نظام ہائے تعلیم نافذ کر کے اور پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں غیر مانوس زبان ذریعہ تعلیم بنا کر نسلوں اور قومیتوں سے ناانصافی کی جا رہی ہے۔ یہ مادری زبانوں کو بالواسطہ مارنے کا ایک طریقہ ہے۔ سترہ کروڑ لوگوں کی زبان سے ایسی ناانصافی!
جَگت ماں بولی دیہاڑ منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ حکومت اس زبان کی حفاظت کرے۔ پوری دنیا کی طرح سرکاری سطح پر بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ جو چند ادارے پنچم، بھلیکھا، لہراں اور سنیہا وغیرہ کام کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بالخصوص دیہی آبادی کے کروڑوں بچوں کی ذہنی صلاحیت کو مرنے سے بچایا جائے۔
خدا پنجاب را معمور دارد
بہ خاک- اولیا منظور دارد
بود آباد دائم شہر- لاھور
وبا و قحط زنجا دور دارد
(شہزادہ دارا شکوہ)
مفہوم: خدا پنجاب کو ہمیشہ بھرا پُرا رکھے کہ جس خطے کو اولیا کرام نے شرفِ سکونت بخشا۔ لاہور شہر تاقیامت آباد رہے اور طاعون، وبائوں اور قحط اس سے ہمیشہ دور رہیں۔