مُور کی آخری آہ ہو (غرناطہ میں وہ جگہ‘ جہاں آخری مسلمان حکمران ابوعبداللہ نے ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ مُڑ کر اپنی سلطنت کو دیکھا تھا)، اسما بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کا جرأت بھرا جملہ ہو، اکہتر کی شکست کے وقت کمانڈو سلیمان شکوہ کا ہتھیار ڈالنے کا حکم نہ ماننا ہو یا میمن سنگھ کے نوجوان کے ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سجاد حسین کو اغوا کرنے والے الفاظ ہوں۔ خنجر ہیں کہ سینے میں ترازو ہو ہو جاتے ہیں۔
پتا ہی نہیں چلا کہ مشرقی پاکستان کا یہ زخم سہتے سہتے پچاس سال ہو چلے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم اس عہد میں پیدا ہوئے جن کی قسمت میں یہ سانحہ دیکھنا لکھا تھا۔ یہ سقوطِ غرناطہ کے بعد سب سے بڑی شکست تھی جو چھ سو سال بعد ہوئی اور اس کے شاہد ہم تھے۔ وہ زخم جو بچپن میں لگے‘ کوئی وہ کیسے بھول سکتا ہے؟ ہم جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت ہیں‘رقبہ اور آبادی‘ ہر دو کے لحاظ سے۔ ساڑھے نو لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی وسیع سلطنت۔ جرمنی سے بڑا، روس سے آدھا‘ اب بھی دنیا کا تینتیسواں بڑا ملک۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ملا کر پچیسواں ملک۔ شکست کھائی اور دو ٹکڑے ہو گیا۔ اپنوں کی غلطیاں، بیگانوں کی سازشیں، لوگوں کے حقوق کی پامالی کوئی ایک دکھ کوئی ایک کسک۔ کیسی ٹیس ہے جو دل سے اٹھتی اور وہیں دب جاتی ہے۔ کون چارہ گر اور کیا چارہ۔
چھبیس مارچ 1971ء سقوطِ ڈھاکہ، جب ریڈیو پاکستان چاٹگام سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا‘ غرناطہ کے سقوط کے وقت جب بادشاہ وقت وہاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوا تو اس نے غرناطہ کو ایک دفعہ مڑ کر اشکبار آنکھوں سے دیکھا تو اس کی ماں نے کہا تھا کہ جس سلطنت کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہ کر سکے‘ اس کے لیے عورتوں کی طرح رونے دھونے سے کیا حاصل؟ اے اے کے نیازی کی شکست ہمارے ضمیر میں ایسی خلش بن چکی ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر ادھار کھائے بیٹھی ہے‘ کب یہ ادھار اتاریں، ایک دن اتاریں گے۔ دشمن کو ہماری صلاحیت کا اندازہ بھی ہے اور یہ بھی علم ہے کہ اکہتر کا سال تاریخ میں ایک بار ہی آنا ہوتا ہے۔ فقط ایک بار اور آخری بار۔
زبیر بن عوام اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے‘ حضور کریمﷺ کے پھوپھی زاد، عشرہ مبشرہ صحابی کے بیٹے عبداللہؓ کی حکومت کا عرصہ محض پانچ سال۔ وہی عبداللہؓ جن کا جسد شہر میں حجاج نے عبرت کے لیے لٹکائے رکھا تھا۔ انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کی بیعت تو کی تھی مگر بعد میں یزید کی بیعت نہ کی۔ یزید نے آپؓ کو عاذ اللہ کہا کیونکہ آپؓ نے خانہ کعبہ میں پناہ لے رکھی تھی۔ حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال پر آپؓ کعبہ سے نکلے‘ اہل مکہ نے آپ کی بیعت کر لی۔ عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم۔ یہ ان چار عباد اللہ (عبداللہ کی جمع) میں شامل تھے۔ جب شہادت کا وقت آیا تو حضور نبی کریمﷺ کے اولین بیعت گزار اور خلیفۃ الرسول کی بیٹی اسماؓ نے کہا کہ اگر تیرا مطلب دنیا ہے تو تُو بہت برا آدمی ہے کہ اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ان اصحاب کو بھی ہلاکت میں ڈالا جو تیرے ساتھ لڑ رہے ہیں اور اگر تو حق پر ہے تو اللہ کا دین کمزور نہیں ہے اور تم کتنے دن اور زندہ رہو گے‘ اس سے قتل ہو جانا بہت بہتر ہے۔
ہمارا بچپن تھا‘ جب ستر کے الیکشن ہوئے۔ گائوں میں کسی میلے کا گمان ہو رہا تھا۔ لوگوں نے کپڑے پہنے‘ خوش خوش پولنگ بوتھ پر گئے۔ ایک ہجوم تھا ایک سرے سے دوسرے تک۔ 1970ء کے الیکشن وہ واحد الیکشنز تھے جس میں میرے والد ووٹ کاسٹ کرنے گئے۔ میں بھی ان کی انگلی پکڑے ووٹ ڈالنے کے وقت ان کے ساتھ رہا تھا۔ اس الیکشن کے بعد تو ان کا سیاست اور سیاسی لیڈروں سے دل ہی اچاٹ ہو گیا۔ کرنل راجہ اکبر خان جو نزدیکی گائوں دتو چوہڑ کے رہنے والے تھے‘ جمعیت علمائے پاکستان کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان کا انتخابی نشان چابی تھا۔ یہ جماعت اس وقت اہل سنت والجماعت کی مستند سیاسی جماعت تھی۔ ان کے علاوہ ہمارے اس حلقے میں باقی امیدواروں میں منظور حسین دھدرا، نواز بوسال (ناصر بوسال ایم این اے کے چچا) اور ولی محمد بوسال امیدوار تھے۔ اس وقت یہ حلقہ نمبر سینتیس گجرات تین تھا۔ تب پیپلز پارٹی کا ایسا سیلاب تھا کہ جس سے پوچھیں اور جس کو دیکھیں‘ بھٹو کا دیوانہ تھا۔ بھٹو پنجاب کے چھوٹے چھوٹے قصبوں تک پہنچے۔ وہ کوٹ مومن، بھابڑہ، پھالیہ، منڈی بہاء الدین، لالہ موسیٰ اور کھاریاں تک طوفانی دورے کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا تھا‘ اس کا ہمیں علم ہی نہیں تھا۔ جو طوفان وہاں سے اٹھ رہا تھا‘ اس کے بارے میں ریاستی میڈیا آنکھیں چھپائے بیٹھا تھا۔ وہاں کی صورت احوال سے تقریباً سارا مغربی پاکستان لاعلم تھا۔ کیا لاوا پک رہا تھا‘ اس کا بھی ہمیں علم نہ تھا۔ مشرقی پاکستان میں‘ آج یہ کہا جاتا ہے کہ‘ شیخ مجیب کی مقبولیت میں کوئی دوسرا حریف ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں دھونس دھاندلی اور عوامی لیگ کے لوگوں نے اور الیکشن کے اہل کاروں نے بیلٹ پیپرز پر جی بھر کے خود ٹھپے لگائے۔ ایک نشست نورالامین نے حاصل کی اور ایک راجہ تری دیو رائے نے۔ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان میں فیئر انتخابات ہوئے۔ خود یحییٰ خان نے شیخ مجیب کو ملک کا وزیراعظم کہا۔
''بنگلہ دیش کا بنگلہ بندھو ہمارا غدار‘‘ سجاد حسین سابقہ وائس چانسلر ڈھاکہ یونیورسٹی کا مقدمہ ہی یہی ہے کہ بنگلہ بدھو نے غداری کی۔ اپنی قوم سے، اپنے ملک سے، اپنے وطن سے اور اپنے لوگوں سے کہ اکثریت تو علیحدگی چاہتی ہی نہیں تھی۔ سجاد حسین ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان دنوں میں وائس چانسلر رہے جن دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی علیحدگی اور سازشوں کا گڑھ بن چکی تھی۔ وہ تین مارچ 1971ء تا بیس جنوری 1972ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کو انیس دسمبر 1971ء کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے گھر سے اٹھایا اور جیپ میں ڈال کر بخشی بازار سے ہوتے ہوئے کیمپس میں لے گئے۔ انہیں شدید زدوکوب کیا گیا۔ چار طلبہ ان کو مار پیٹ کر کے چلے گئے اور ایک بائیس سال کا نوجوان طالب علم‘ جو حفاظت کے لیے وہاں رہ گیا‘ میمن سنگھ کے کسی گائوں سے تعلق رکھتا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی چونکہ اس بغاوت کا گڑھ تھی لہٰذا وہیں سب سے پہلے جناح ہال اور اقبال ہال کو سارجنٹ ظہور الحق اور سوریہ سین کے نام سے منسوب کیا گیا۔
پروفیسر سجاد حسین لکھتے ہیں کہ بہت سارے اور لوگوں کے ساتھ خواجہ خیر الدین بھی ان کے ساتھ جیل میں بند تھے۔1970ء کے انتخابات میں ڈھاکہ سے شیخ مجیب الرحمن کے مقابلے میں وہی امیدوار تھے اور یہ کانٹے کا مقابلہ تھا۔ وہ اگرچہ ہار گئے تھے مگر ان کے ووٹ کم بھی نہیں تھے۔ دوم، عوامی مسلم لیگ نے خوب دھاندلی کی اور بوگس ووٹ بھگتائے۔ اور ''اکثریت نے شیخ مجیب کی فتح پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا‘‘۔ جیل میں ایک اور کردار مجیب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ بھیس بدل کر اگرتلہ (آسام میں واقع ہے جو پاکستان سے علیحدگی کی سازش کے سلسلے میں مشہور ہوا تھا) گیا تھا، وہاں اس نے کالی دیوی کے چرنوں میں باریش مسلمانوں کو ذبح ہوتے دیکھا تھا۔ وائس چانسلر کی نگہبانی کے لیے میمن سنگھ کا جو نوجوان موجود تھا، اس نے وائس چانسلر سے کہا کہ پاکستانیوں کا ہتھیار ڈالنا ان کے لیے حیرت انگیز تھا کہ وہ (باغی) تو مار کھا کھا کر تھک چکے تھے۔ وہ اپنی سوانح عمری ''شکستِ آرزو‘‘ میں لکھتے ہیں اس نوجوان کا کہنا تھا ''وہ تو لڑتے لڑتے ہمت ہار چکے تھے اور فتح کا خیال ہی دل سے نکال چکے تھے‘‘۔