سامعہ سلوحو حسن تنزانیہ کی صدر ہیں۔ انہوں نے انیس مارچ کو صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ زنجبار اور سارے متحدہ تنزانیہ میں انہیں ماں سامعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی مادری زبان عربی ہے، وہاں صدیوں سے عربی بولی اور سمجھی جاتی ہے مگر قومی زبان سواحلی ہے۔ ملک میں چھ سات زبانیں بولی جاتی ہیں‘ محض دو سے ہی ہم سب واقف ہیں یعنی عربی اور انگریزی۔ ہماری شد بد اردو سے ہونے کے ناتے ان کے نام کے لاحقے پر غور کیا تو حیران رہ گئے۔ سواحلی زبان لنگوا فرانکا ہے اور سارے مشرقی افریقہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ جب وہ مشرق کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا مطلب افریقی غاروں کے ریجن والے ممالک ہوتے ہیں جن میں تنزانیہ، کینیا، یوگنڈا، روانڈا، ملاوی غرضیکہ صومالیہ زیمبیا اور کئی دیگر ممالک شامل ہیں۔ سواحلی کا مآخذ وہی ساحل ہے جس کا ذکر کر کے ہمارے شاعر ِ اول و آخر نے امر کر دیا کہ
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اس عالم خاک و باد میں سب سے سست اور دیرپا انسانی زبان ہے جو آہستہ آہستہ اپنا گھر بناتی ہے اور صدیوں بلکہ ہزاریوں تک وہیں مقیم رہتی ہے۔ زبان یا اپنی ماں بولی سے محبت بلکہ حسنِ سلوک روا رکھا جائے تو یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ سواحلی زبان لکھنے میں عربی کی سگی بہن ہے۔ ہم سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ہم ایسے کالم کیوں لکھتے ہیں؟ دور کے ملک تنزانیہ، اس کی صدر سامعہ اور زنجبار سے متعلق۔ کہاں تنزانیہ اور کہاں پاکستان۔ اپنے مسائل کیا کم ہیں جو ادھر افریقہ کے براعظم میں جا دھمکیں۔ سو عرض ہے کہ اس کالم کا اور سامعہ سلوحوکا بھی ہمارے مسائل سے گہرا اور اٹوٹ تعلق ہے۔ تھوڑا سا اور ذکر اور پھر اصل بات کہ اس طرح کے کالم لکھنا کیوں ضروری ہیں؟
ایک تو ان کے اثاثے ہی نہیں ہیں، دوم، ان کے پیشرو جو پچھلے پچیس سال سے اقتدار کی راہداریوں میں رہے‘ ان کی دولت کا اندازہ بھی ایک سے تین ملین پونڈ ہے اور بس۔ جس افسانوی جگہ یعنی سلطنت زنجبار سے ان کا تعلق ہے‘ وہاں عربی ہی اصل اور قدیم زبان ہے۔ وہ عرب ملک نہیں اور ملک کا اکثریتی مذہب بھی اسلام نہیں مگر اسلام وہاں کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ شافعی مسلک کے مسلمان۔ وہاں اسلام غلاموں کی تجارت کے سلسلے میں پہنچا۔ غلاموں کی تجارت کے درجن بھر روٹس میں اس ملک کا نام اہم ہے۔ وہاں ایسی ایسی مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا یہاں کسی نے نام بھی نہیں سنا ہو گا۔ انگلش اور سواحلی ان کی بڑی زبانیں سمجھی جاتی ہیں‘ زنجبار میں عربی ہی بولی جاتی ہے۔ اسی اساطیری جگہ پر انہوں نے بھی جنم لیا‘ اس پٹی کا اثر ان پر بھی ہے اور وہ بھی ایک افسانوی کردار ہی ہیں۔ اس دور میں بھی افسانوی لوگ؟ جی ہاں بالکل!
سامعہ حسن تنزانیہ کی صدر ہیں، وہ 1960ء میں سلطنت زنجبار میں پیدا ہوئیں۔ ان کی افسانوی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ منصبِ صدارت پر فائز ہونے سے پہلے انہیں ''سامعہ ہماری ماں‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انیس مارچ کو انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی تمام اختلافات اور ماضی کی رنجشیں بھلا کر سب کو ایک ہونے کا پیغام دیا۔ وہاں کی سول سوسائٹی کی اہم نمائندہ ماریہ سورنگی نے ان کے انتخاب کو عورت بالخصوص نوجوان خواتین کے لیے ایک روشن امید کا نام دیا ہے۔ ان کے پیشرو کو اپنے مخالفین کی پروا نہ کرنے اور انہیں زیر کرتے چلے جانے کی اندھی خواہش کی وجہ بلڈوزر کہا جاتا تھا۔
زنجبار ساحلی پٹی پر واقع ایک چھوٹا سا علاقہ ہے‘ پہلے خود مختار تھا مگر 1964ء میں اس کی حیثیت ختم ہوئی اور وہ مملکتِ تنزانیہ کا حصہ بن گیا۔ یہ سلطنت کبھی مسلمانوں کی معروف سلطنت تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رقبہ گھٹتے گھٹتے بس نشان باقی رہ گیا۔ یہاں بھی انگریزوں نے قبضہ کیا۔ اس کے آخری سلطان جمشید بن عبداللہ تھے۔ تیرہ بچوں کے والد، ایک مکمل بادشاہ۔ انقلابِ زنجبار تک‘ یہ کئی چھوٹے جزیروں کی سلطنت تھی جوعمان کی ملکیت تھے۔ وہی سلطان قابوس والی سلطنت مسقط و عمان۔ اسی پٹی میں عربی بولی جاتی ہے‘ باقی ہر کہیں سواحلی کا بول بالا ہے۔ زنجبار ایک مِتھ، اسطور کی اہمیت کا حامل ہے۔ مغرب میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک افسانوی جگہ ہے جس کا اصل سے کوئی تعلق نہیں۔ کاسابلانکا کے متعلق بھی یہی سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں کل آبادی بائیس کروڑ کے قریب ہے جس میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی شرح اٹھاون فیصد ہے۔ ایران میں پچاسی فیصد‘ حیرت کا مقام ہے کہ افغانستان میں اوسط شرح تعلیم بھی ہمارے لگ بھگ ہے یعنی پچپن فیصد۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں اس وقت پچھتر‘ نیپال میں اڑسٹھ اور تنزانیہ کی شرح تعلیم اسی فیصد ہے۔ اب بتائیے ہمارے مسائل کا تعلق اس افریقی ملک سے بنتا ہے یا نہیں؟ جب آپ اس افریقی ملک کا نام سنتے ہیں تو ذہن یہی کہتا ہے کہ بہت پسماندہ ملک ہو گا‘ غربت کا مارا ہوا‘ جہالت زدہ‘ تعلیم سے دور اور صحت عامہ کی سہولتوں سے بے بہرہ۔ یہ دنیا کے پندرہ غریب ترین ممالک میں شامل ہے لیکن وہاں فی کس آمدنی گیارہ سو ڈالر کے قریب ہے‘ یعنی ہم سے محض ایک سو ڈالر کم۔ یہ ایک سادہ اور عام سا موازنہ ہے۔ کہنے کو تو ہم ساتویں ایٹمی قوت ہیں‘ دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہیں مگر حالت ہماری ایسی ہے کہ ہمارا تنزانیہ جیسے ملک سے بھی تعلیم کی شرح میں کوئی موازنہ نہیں۔ وہاں خواتین کی شرحِ تعلیم پچھتر اور ہمارے یہاں پچاس فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔
پاکستان دنیا کے دو سو انیس ممالک میں واحد ملک ہے جہاں سربراہ ِ حکومت اور سربراہ ِ مملکت ایک ساتھ کورونا کا شکار ہوئے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بھی اس مرض کے شکار ہوئے تھے، سامعہ کے پیشرو بھی اسی وبا کے ہاتھوں انتقال کر چکے اور قدرت نے سامعہ کو اس ملک کا واحد انتخاب بنا دیا۔ وہ شاید افریقہ کی پہلی سربراہِ مملکت بھی اسی لیے بنی ہوں گی کہ وہاں اچھی اور فلاحی حکومت کا خواب حقیقت بن سکے۔ یہ ہماری آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہے کہ ساری دنیا نے سامعہ سے امیدیں اور توقعات باندھ لی ہیں۔ ہمارے ملک میں لوگوں کا ابھی قدرت اور امتحان لینا چاہتی ہے۔ دوستوں کی محفل میں ہم کہتے ہیں کہ قدرت ہمارا امتحان نہیں‘ ہم سے انتقام لے رہی ہے۔ ملک میں جو حکمران آیا‘ اس نے خوب وعدے کیے اور پھر جی بھر کر ان وعدوں کو پامال کیا۔ جو حکمران‘ اقتدار سے پہلے فقط دو سو روپے‘ جی ہاں! فقط دو سو روپے‘ انکم ٹیکس دیتے تھے، اب ہر براعظم میں اپنی 'مملکت‘ کے مالک ہیں۔ اس مملکت خداداد کو خدا کے حوالے کر کے چلے بنے۔ تف ہے ایسی حکومتوں اور ایسے حکمرانوں پر۔ جان میگوفلی کی (کورونا سے )وفات کے بعد سافٹ سپوکن سامعہ کو تاریخ نے موقع دیا ہے کہ وہ تقسیم در تقسیم ہوتی قوم کو ایک کر سکے۔ Magufulification۔ یہ لفظ اس سابق صدر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ کام جو جان میگوفلی نے شروع کیا تھا‘ وہ اپنی نوعیت میں اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے ایک اعزاز ہے۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک سبق سے کچھ زیادہ ہے مگر ہماری خواتین کے لیے ایک ہی سبق ہے، تعلیم! پہلا اور آخری سبق۔
جو ہم نے انگریزی اوردو زبانوں کی تھوڑی بہت صلاحیت کا جھوٹا سچا بیان کیا ہے‘ اس کا ایک مظہر یہ دیکھیں کہ کسی مذہب یا کسی فرقے یا پارٹی کے لیے ہم مختلف الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ کسی مذہب کو ماننے والے کو پیروکار اور پارٹی کے لیے کارکن کا لفظ استعمال کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر فالورز کا لفظ استعمال ہوتا ہے‘ سو ہم سامعہ کے 'پیروکار‘ ہیں۔ اردو میںفالور کے معنی اور متبادل کے لیے مرید، پیروکار، شاگرد، جانشین، ملازم، چیلا، تابع، معتقد، خدمتی، ہمدرد اور حامی جیسے الفاظ مستعمل ہیں۔ اردو کی وسعتِ دامنی دیکھیے !
جیسے زنجبار کی پٹی افسانوی حیثیت کی حامل ہے ویسے ہی وہاں جنم لینے والی سامعہ بھی اسطوری کردار ہے۔ سب کو جوڑنے والی، تقسیم شدہ معاشرے کو ایک کرنے والی، پکڑو‘ مارو کی سیاست سے بالا۔ اور ہمارے لیڈران موروثیت اور یبوست زدہ، روپے پیسے کے غلام۔