تم خود کو منٹو کا مرید کہتے تھے‘ اسی لیے منٹو کے پاس چلے گئے۔ تم دونوں میں مماثلت بھی تو بہت تھی۔ دونوں معاشرے کا پوسٹ مارٹم کرتے۔ تم دونوں کا نشانہ منافقت بھرا معاشرہ اور منافقت کے مارے لوگ تھے۔ جو معاشرہ منٹو کو ملا وہاں زندگی گزارنا اور سچ کہنا آسان تھا‘ ایک آدھ کیس بنا، ضمانت ہو گئی جان چھوٹی۔ منٹو کو نیا افسانہ مل گیا۔ ذوقی! میری جان تمہارا معاملہ کتنا مختلف اور کتنا مشکل تھا‘ جس طرح تم نے ایک ہیرو کی طرح اپنے معاشرے کا، ریاست کے ظلم کا، دہرے معیار کا اور فاشسٹ رویوں کا مقابلہ کیا۔ کتنا مشکل تھا وہاں زندگی گزارنا، خود کو حوصلے میں رکھنا، بھابی تبسم اور بیٹے ساشا کو چھتر چھائوں مہیا کرنا، دوست احباب سے دوستی قائم کرنا، ان کے الزامات تک کو ہنس کر قبول کرنا، سیاسی مکروہ چالوں کا تیا پانچہ کرنا اور سب سے بڑھ کر مسلم تشخص کو برقرار رکھنے کی آرزو پالنا‘ یقینا یہ آسان کام نہ تھا۔ ذوقی تم آرہ میں کتنے خوش خوش زندگی گزار رہے تھے‘ چھوٹا سا شہر آرہ اور افسانہ لکھنے کی خواہش۔ وہیں جب ایک لڑکی نے تمہیں اپنا افسانہ دکھایا تو نہ صرف تم نے اس کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اپنی بائیک پر لمبے لمبے بال لہراتے‘ بالوں کو سنبھالتے آرہ جیسے چھوٹے شہر میں شام کو اس کے گھر جا پہنچے۔ پھر اس کا افسانہ پڑھتے پڑھتے ہیروئن بھی مان گئی اور تم بھابی تبسم کے اور بھابی تبسم تمہاری ہو گئیں۔ زندگی ہموار راستے پر ہو لی۔ پھر زندگی مہربان ہوئی اور ساشا بھی آ گیا۔ گھر میں بہار آ گئی۔ تینتیس سال پہلے تم دلّی آ گئے۔
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
مگر اب یہ حضرتِ دلّی نہیں تھی۔ یہ دلّی کا شہر 1857ء کے بعد وہ نہیں رہا تھا یہ اور قسم کا دلّی تھا جہاں تم نے دو اطراف سے ہونے والے ناانصافی کا مقابلہ کرنا تھا۔ ایک گروہ تو وہ تھا جس کو تمہارے افسانے اور ناول پر اعتراض تھا۔ ادبی میدان میں جدیدیت کا دورہ تھا جو ایسی کہانیاں اور ناول پسند نہیں کرتے تھے جو تم لکھتے تھے، جو بعد میں تمہاری شناخت بنے۔ یہ شناخت بھی ان لوگوں کو پسند نہیں تھی۔ ادب میں سیاسی موضوعات لکھنا بھی ان کو ناپسند تھا۔ ادب میں سیاست چل سکتی ہے اس کی اجازت ہے مگر سیاسی موضوع پر لکھنا تمہارا جرم تھا۔ تمہیں ادبی گرو کیسے مان لیتے؟ تمہاری لائن تو سیدھی سبھائو کمٹمنٹ والی تھی جس میں تمہیں معلوم تھا کہ صرف سچ کا ساتھ دینا ہے، جن کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ان کا ساتھ دینا ہے۔ وقت نے فیصلہ دیا کہ تمہارا موقف سچ تھا۔ تم حق پر تھے۔ تم نے کتنی دفعہ کہا کہ سیاست پر لکھنا کیوں ممنوع ہو گیا؟ تم نے لکھا کہ 1947ء کے بعد فسادات‘ جدیدیت کا خیمہ خاموش رہا۔ 1984ء ہوا، پھر 1992ء، کوئی ہلچل اس خیمے میں نظر نہ آئی۔ جدیدیت کے علمبرداروں کو کوئی غرض نہیں کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔ تمہارا کہنا تھا کیا وکٹر ہیوگو، کیا ارون دھتی رائے، کیا گبریل گارشیا مارکیز، کیا اورحان پاموک، کیا نجیب محفوظ، کیا میلان کنڈیرا‘ سب کے ہاں سیاست پر لکھا جاتا ہے۔ جو زندگی 2000ء کے بعد ہمارے سامنے ہے‘ کیا اس پر نہیں لکھنا چاہیے؟ لکھنا چاہیے‘ تم سچ پر تھے‘ تم سچ پر ہو۔ ذوقی تم نے دنیا‘ ساری دنیا کا فکشن پڑھا، شاعری پڑھی، اردو ادب تو جیسے تم نے حفظ کیا ہوا تھا۔ کتنی آسانی سے تم کسی ناول نگار کو Quote کر سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے ممتاز شیخ کے مجلّے ''لوح‘‘ کے لیے ناول کے دورِ ثانی کا جائزہ لکھتے ہوئے کہا تھا: سجاد ظہیر نے ناول کی متھ کو توڑا تھا اور یہ بھی مانتے تھے کہ اردو کے زیادہ تر نقاد ''لندن کی ایک رات‘‘ کو ناول ہی نہیں مانتے۔ تم نے بھی تو متھ کو توڑا، اپنا اسلوب بنایا‘ ایک نقطہ نظر اپنایا‘ اپنی قوم کی نمائندگی کی۔ جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے‘ اس پر لکھا، جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک روا رکھا جا رہا ہے، اس پر سٹینڈ لیا۔تمہارا مرشد منٹو تو خدا کو سیکولر کہتا تھا جس نے شیطان کی بھی بات مانی اور اسے قیامت تک آزادی دی۔ تم نے خود کو سیکولر کہنے والے ملک میں اس کے سیکولر مخالف رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ذوقی! تم سے آخری رابطہ چوبیس فروری کو ہوا تھا۔ اس کے بعد تمہاری جانب سے خاموشی تھی۔ یہ کیسی دنیا ہے کہ ایک ماہ تک ہمارا آپس میں رابطہ منقطع تھا مگر اس سانحہ کا تو علم کیا‘ گمان بھی نہ تھا کہ تم اور تبسم بھابی کورونا جیسی مہلک وبا کے نرغے میں آ چکے ہو۔ ایک ماہ قبل تک ہم آپس میں رابطہ میں تھے‘ تم نے چوبیس فروری کو اپنا ناول ''مردہ خانے میں عورت‘‘ بھیجا تھا، اس سے قبل تم نے اس ناول کے مجوّزہ نام پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ کئی دوستوں کی طرح ہم نے دوسرے کئی نام چھوڑ کر ''مردہ خانے میں عورت‘‘ کا انتخاب کیا۔
تم کہتے تھے: دہشت گردی، ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی حیثیت اور انصاف مہیا کرنے والی عمارتوں پر زعفرانی پرچم جیسے موضوعات سے پردہ پوشی ممکن نہیں۔ سیاست سے وابستہ ہونا ہو گا‘ سیاست کے تمام اتارچڑھائو کو سمجھنا ہو گا۔ اس جڑ کو بھی‘ جہاں سے نفرتیں پیدا ہو رہی ہیں‘ اور مستقبل کو بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ سلگتی ہوئی آگ کہاں تک جائے گی۔ فسطائی طاقتوں کو لے کر تم نے ایک دوسرے ناول ہائی وے پر کھڑا آدمی کی شروعات کی ہیں۔ یہ وہی ناول ہے جو بعد میں مردہ خانے میں عورت کے نام سے یہاں سے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کیا تھا۔ بھابھی تبسم کے ساتھ ساشا کے ساتھ آنے کا وعدہ، یہاں کے دوستوں سے ملنے کا پروگرام، چند دن‘ چند ہفتے یہاں گزارنے کا کہہ کر تم وہاں چلے گئے جہاں اب ابد آباد تک رہو گے۔ نہ تم دلّی آئو گے‘ نہ لاہور اور نہ آرہ۔ تم خوریجی قبرستان کے مکین ہو گئے۔ خوریجی کا علاقہ بھی دوسرا شاہین باغ ہے جہاں تمہاری مائیں اور بہنیں دھرنا دے کر بیٹھی رہیں۔ اس لحاظ سے تو تم سچے ہو‘ اپنی محبت کی طرح سچے‘ اپنے موقف کی سچائی کی طرح سچے۔ منگل کی شام ذوقی تم نے اپنی بیگم تبسم فاطمہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ ساشا اکیلا رہ گیا۔ ایک بیگانگی کا عالم اور معصوم ساشا۔ بھابی سے اس قدر محبت کہ ایک دن بھی ادھر اکیلے نہ رہ پائے۔ تم نے تو کہا تھا کہ ذرا حالات ٹھیک ہوئے تو لاہور آئوں گا۔ ذوقی تم ناول نگار تو بڑے تھے ہی تم جھوٹے بھی بہت بڑے نکلے۔ جھوٹے وعدے‘ جھوٹے لارے‘ جھوٹے پروگرام۔ تم نے تو کہا تھا کہ تم ہم سب سے ملنے کے لیے بہت بے چین ہو۔ تمہارا یہاں لاہور آنے کو بہت دل کرتا ہے‘ حالات ٹھیک ہوں تو چکر لگائوں گا۔ کتنے جھوٹے تھے تم۔ اتنا بڑا جھوٹ فریبی! لاہور اور پاکستان آنے کے بجائے تم نے عدم میں آباد ہونے کو ترجیح دی۔ تم تو وعدے کے پکّے تھے‘ یار! ایک بار کہنے پر ہر بات مان لیتے تھے مگر ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟ دغا باز کہیں کے۔ وعدہ ہمارے ساتھ اور روانگی کہیں اور۔ دلّی سے لاہور فقط چار سو نو کلومیٹر، چار گھنٹے کا سفر۔ اور تم نے کتنے نوری ارب سالوں کا فاصلہ طے کر لیا۔ چار گھنٹے کا سفر نہ کیا۔آرہ (بہار) سے بہت کم‘ بارہ سو کلومیٹر آرہ اور چار سو کلومیٹر لاہور۔ اتنے جھوٹے‘ اتنے فریبی‘ دغا باز کہیں کے‘ بولو بولتے کیوں نہیں؟
یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ ہمارے ہنس مکھ، خوش گفتار یاروں کے یار، دوست ہم منصب ہم کار محمد نواز گوندل کی رحلت کی خبر بھی آ گئی۔ وہ ہمارے ساتھ ایک بینک میں بھی رہے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی ہماری دوستی کا پینتیس سالہ سفر بھی اختتام کو پہنچا۔ وہ دوستوں کے دوست اور اپنی بات کے پکے آدمی تھے۔ ان کی تدفین ان کے آبای گائوں پنڈی راں منڈی بہاء الدین میں کی گئی۔ ان کی خوش گفتاری اور خوش چہرگی حالات کی ستم ظریفی کے باوجود سلامت رہی۔ جنازے میں ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ اس دوست کی وفات کا صدمہ بہت گہرا ہے‘ کبھی نہ بھولنے والا۔ ذوقی کی وفات کی طرح کا صدمہ۔ بھابی تبسم فاطمہ کی موت کی طرح کا صدمہ۔کورونا سے فوت ہونے والوں کی طرح کا صدمہ۔