بحث یہ ہے اور بحث کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ ہمارا نظام‘ خواہ وہ کسی شعبۂ حیات کے متعلق ہو‘ گل سڑ چکا ہے۔ اس میں بااثر کو پکڑنے کی جرأت ہے نہ غریب اور مجبور محنت کش طبقے کو معاف کرنے کا حوصلہ۔ یہ ایک تھیسز ہے جس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ ہزار کوئی معمولی رقم نہیں‘ ایک محنت کش کی ایک ہفتے کی بامشقت محنت کا عوضانہ ہیں پانچ ہزار۔ ملتان شہر میں ایک محنت کش کو جرمانہ ہوا ہے اور وہ بھی پانچ ہزار۔
پنج ہزاری مغلوں کے زمانے میں عہد ِ شاہی کا منصب ہوتا تھا۔ پنج ہزاری کو چار صدیاں پہلے چوبیس ہزار روپے ماہوار ملتے تھے۔ کام ان پنج ہزاریوں کا یہی تھا کہ کوئی بغاوت نہ کرے‘ کوئی ٹیکس، محصول دینے سے انکار نہ کرے، اپنے گھوڑے اور سپاہی تیار رکھے، کسی جوتے پالش کرنے والے کو اگر پانچ ہزار جرمانہ ہوا بھی ہے تو ترت وصول کرے۔ ایک عہدہ ہفت ہزاری بھی ہوتا تھا‘ وہ شاید سات ہزار وصول کرتے ہوں گے۔ بہادر شاہ ظفر کے استاد محمد ابراہیم ذوق نے اس پر ایک شعر بھی کہہ رکھا ہے ؎
فصلِ گل آج ہے وہ سلطنت آرائے طرب
کہ ملا باغ میں بلبل کو ہزاری منصب
صائب تبریزی عظیم فارسی شاعر کو ایران میں ملک الشعرا بھی کہا جاتا ہے۔ وہ شاہجہان کے دور میں کافی عرصہ قیام کر کے بعد واپس ایران لوٹ گئے تھے۔ یہاں انہیں ہزاری منصب عطا ہوا تھا۔ یہ علم و فضل اور شاعری میں بلند پایہ ہونے کے بعد ملا تھا۔ ویسے اس وقت مستعد خان جیسے خطاب بھی ہوتے تھے۔ اب منصب اور خطاب نہیں‘ جرمانہ پانچ ہزار ہوتا ہے۔ اسے پنج ہزاری جرمانہ کہنا چاہیے۔ ملتان کے ایک محنت کش کو پنج ہزاری کا خطاب ملنا چاہیے کہ ضلعی پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نے اسے مبلغ پانچ ہزار سکہ رائج الوقت جرمانہ عائد بھی کیا اور ستم یہ کہ موقع پر وصول بھی کر لیا۔ اس گلے سڑے سسٹم کی اس سے بڑی کوئی شہادت ہو نہیں سکتی۔ ملتان کے چار تحفے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں ؎
چہار چیز است تحفۂ ملتان
گرد، گدا، گرما و گورستان
اب ان میں ایک اور تحفہ ان میں شامل ہو گیا ہے، اس کا ذکر آخر میں آئے گا۔
ملتان ترقیاتی ادارے کے تھڑے پر کام کرنے والے سیف الرحمن کی کہانی تو جیسے ہٹ ہو گئی ہے۔ سیف الرحمن کون ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟ کہاں ہوتا ہے ؟ کیا ذریعۂ رُوزگار ہے ؟ جنگل میں آگ کی طرح اس کے بارے میں خبر پھیل گئی۔ سیف الرحمن پر مہربان روڈ سے ایک دفتر کی جانب جاتے ہوئے ایک آدمی کی نظر کیا پڑی کہ اس کی کہانی ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔ سچی بات ہے ہم لوگ خود جو مرضی کرتے پھریں‘ کسی سے زیادتی کرتے پھریں‘ مگر کسی کی کہانی سن کر وہ آنسو بہاتے ہیں کہ ہمدردی کا سیلاب امنڈ امنڈ پڑتا ہے۔ ہم نے نہیں دیکھنا سچ کیا ہے؟ اصل ماجرا کیا ہے؟ ذمہ داروں کی صلواتیں سنائی جاتی ہیں، بات ذمہ داروں سے ہوتے ہوئے ملکی حکمرانوں سے چل کر مسلم امہ کے زوال تک جائے بغیر ختم نہیں ہوتی۔ آخری بات یہ ہوتی ہے کہ چھوڑو جی! اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
خبر تھی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ملتان‘ جو پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے طور پر بھی فراض انجام دیتے ہیں‘ نے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ایک جوتے پالش کرنے والے محنت کش سیف الرحمن کو جرمانہ کیا ہے۔ ہمارے دوست علی عباس زیدی نے کہا تھا ؎
برف دلوں کی عدالت میں کیا نالش کرتا پھرتا ہے
اک بچہ جو سب کے جوتے پالش کرتا پھرتا ہے
ہمیں سوشل میڈیا سے معلوم ہوا تو وٹس ایپ پر سیف الرحمن کی خبر اور کہانی ڈپٹی کمشنر ملتان کو بھیج دی۔ یہ بھی کہا کہ سیف الرحمن سے زیادتی ہوئی ہے‘ اس کا ازالہ کیسے ہو گا؟ مجھے بلا تاخیر ان کا وائس میسج موصول ہوا۔ ان کے میسج سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس واقعے سے باخبر تھے۔ انہوں نے اس واقعہ کی اصل کہانی بھی بتائی مگر ہم کہاں ماننے والے تھے‘ یہی سمجھے کہ وہی بیوروکریسی کا پرانا سسٹم کہ اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دینا۔ واقعے کو ایسے بیان کرنا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا واویلا ہے‘ جھوٹ ہے‘ جس میں حقیقت تو ہونی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ انتظامیہ کی اپنی گھڑی ہوئی کہانی ہے۔ ضرور اس ڈپٹی کمشنر نے نیچے سے سنی سنائی کہانی ہمیں سنا دی ہے۔ وائس میسج میں یہ بتایا گیا تھا: کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک شوز سٹور کھلا تھا‘ یہ جرمانہ اس شوز سٹور کے مالک کو کیا گیا ہے کہ اس نے حکومتی لاک ڈائون کے احکامات نظر انداز کر کے دکان کھول لی تھی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ جرمانہ جوتے پالش کرنے والے کو نہیں ہوا تھا۔ ہم ابھی اس بظاہر چھوٹے اور غیر اہم واقعے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ ہمیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مزید دو وڈیو کلپس موصول ہوئے۔ اس میں بظاہر ایسے لگ رہا تھا کہ معاملہ حل ہو گیا ہے۔ انتظامیہ نے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر محنت کش کو پانچ ہزار بلکہ دس ہزار واپس کرنے کی آفر بھی کی۔ اس سے ایک بات تو ظاہر و باہر ہو گئی کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی کہانی کلی صداقت پر مبنی نہیں تھی‘ اس میں بہر حال مبالغہ تھا۔
اب وہی مسئلہ درپیش ہے کہ مقطع میں یہ سخن گسترانہ بات آ پڑی ہے کہ آخر جرمانہ اس غریب کے نام پر کیوں کیا گیا؟ اس کے نام کی رسید کیوں جاری کی گئی؟ کیا دکاندار کے نام جرمانہ نہیں ہو سکتا تھا ؟انتظامیہ کا زور چلا بھی تو اسی جوتے پالش کرنے والے پر؟ وہ دکاندار وہ شوز سٹور کا مالک بھی اتنا بااثر نکلا کہ اپنے نام پر جرمانہ بھی نہیں ہونے دیا؟ مشکل یہ بھی ہے کہ اگر انتظامیہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کو کوئی مانتا ہی نہیں۔ پہلے جھٹکے میں ان کے ورژن کو مسترد کر دیا جاتا ہے‘ ساری ہمدردی اب سیف الرحمن سمیٹ رہا ہے‘ ایس او پیز پر عمل درآمد کی کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔
اس سارے قضیے اور اس نالش میں‘ اگر سرخرو ہوئی تو ضلعی انتظامیہ ملتان اور ڈپٹی کمشنر ملتان۔ انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر کو سیف الرحمن کے پاس بھیجا اور جرمانے کی رقم واپس کرنے کی آفر کی۔ یہ تسلیم بھی کیا کہ انتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انتظامیہ نے اس کے بدلے دس ہزار ادا کرنے کی بھی آفر کی۔ سیف الرحمن نے رقم تو وصول نہیں کی البتہ وہ ضلعی انتظامیہ کا شکر گزار ضرور ہے۔
مغل عہد کے خطاب پنج ہزاری کے بجائے محنت کش سیف الرحمن کو دس ہزاری کا خطاب ملنا چاہیے کہ اس نے دس ہزار روپیہ وصول کرنے سے انکار کیا۔ آدمی وہ جی دار لگتا ہے۔ جی داروں کے لیے مغل بادشاہوں نے سب سے پہلا خطاب 'خان‘ عطا کیا تھا۔ سیف الرحمن کا والد خود تحقیق خان ہے۔ اس کا خطاب از خود نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ موسیقاروں کو ان کے سازوں کے نام کے ساتھ خطاب ملتے تھے جیسے سر گیان خاں اور سرمنڈل خاں۔
بعض لوگ خطابات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ کام ہی ان کا انعام اور خطاب ہوتا ہے۔ خان منگول بادشاہوں کا خطاب تھا۔ امیر تیمور نے منگولوں کا تیاپانچہ تو کر دیا مگر ان کا خطاب خان اپنے ساتھ نہیں لگایا بلکہ امیر لگایا۔ ڈپٹی کمشنر ملتان بھی اہلِ ملتان کے لیے آفیسر نہیں بلکہ ایک تحفہ ہیں کہ انہوں نے سیف الرحمن سے کی گئی کوتاہی کا ترت ازالہ کیا۔ ملتان کے چار تحفوں کا ذکر اوپر ہو چکا‘ یہ ڈپٹی کمشنر اہلِ ملتان کے لیے پانچواں تحفہ ہے۔