اہلِ غزہ

وہ یہودی تھا اور زارِ شاہی کے روس میں پیدا ہوا تھا۔ جو کچھ غزہ کے مظالم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ انسانی المیہ ہے‘ یہ آزادی کی جنگ ہے‘ یہ جینوسائیڈ ہے‘ غزہ کی پاکیزگی سے بھری گڑیا کہہ رہی ہے: ہم سب مرنے جا رہے ہیں۔ ایسی باتیں صرف اس یہودی رافیل لیمکن پر اثر کر سکتی تھیں۔ وہ ہوتا تو کہتا: یہ جنگی جرائم ہیں، یہ وار کورٹ کا کیس ہے۔
1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایک پاکستانی اخبار میں ایک کارٹون چھپا تھا‘ وہ ہمارے ذہن میں ایسے چپکا ہے کہ کسی صورت بھولتا نہیں۔ کارٹون کی تبصرہ جاتی تصویروں کے طنز و مزاح میں وہی اہمیت ہوتی ہے جو غزل میں بیت الغزل کو حاصل ہوتی ہے۔ بیت الغزل وہ شعر ہوتا ہے جو پوری غزل پر بھاری ہوتا ہے‘ یا اسی سے غزل کا سارا حسن اور بھرم قائم ہوتا ہے۔ اساتذہ کو اپنے اس شعر کی خوبصورتی کا پتا ہوتا تھا اس لیے اساتذہ وہ شعر پڑھنے سے پہلے کہا کرتے تھے بیت الغزل پیشِ خدمت ہے۔ کارٹون میں ایک عربی ڈپلومیٹ اپنے عربی لباس میں نظر آتا ہے جو بہت سی فائلیں بغل میں دبائے کسی کانفرنس ہال سے باہر نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ کارٹونسٹ نے کیپشن دیا: اسرائیل جب تک حملے کرتا رہے گا ہم بھی مذمتی قرادادیں پیش کرتے رہیں گے۔ ان قراردادوں سے نہ پہلے کچھ ہوا نہ اب ہو گا۔ اس کے برعکس جو ظلم اسرائیل غزہ میں ڈھا رہا ہے وہ کسی صورت جنگ نہیں‘ حملہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اہلِ غزہ کی نسل کشی ہے۔ بہت ہو چکا! اس کی کوئی حد ہے بھی یا نہیں۔ یہ محض مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں‘ یہ عربوں کے خلاف جنگ نہیں‘ یہ نسل کشی ہے‘ یہ Genocideہے‘ یہ صرف اہلِ غزہ اور حماس کی نسل کشی ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ غزہ کا کوئی فلسطینی کسی یورپی ملک یا امریکا میں چلا جاتا ہے‘ تو کیا اسرائیل اس کے خلاف بھی جارحیت کرے گا؟ نہیں! ہرگز نہیں! فرض کرتے ہیں محمود درویش مرحوم اگر اپنے گائوں (البروہ جو 1948ء کی جنگ میں تباہ ہو گیا تھا) سے بیدخل ہو کر اس وقت غزہ میں آ جاتے تو اسرائیل حملہ کر کے انہیں ہلاک کرنے کی خواہش ضرور رکھتا۔ وہ اپنے گائوں البروہ‘ جو اب اسرائیل کے قبضے میں ہے‘ سے نکل کر امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہنا شروع کرتے ہیں تو نیتن یاہو یا کسی وزیر یا صہیونی جنرل کو ان سے کوئی غرض نہیں‘ وہ نہ ان پر حملہ کرے گا نہ ان کے گھر کو تباہ کرے گا‘ نہ اس ہسپتال پر بمباری کرے گا جہاں سے وہ علاج کروا رہے ہیں‘ نہ وہ اس میڈیا ہائوس یا چینل پر حملہ کرے گا جہاں بیٹھ کر وہ فلسطین کی آزادی کے لیے نظمیں سنائیں گے۔ اک خاص علاقے کے لوگوں پر اور خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ہی نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ درویش اگر رملہ میں رہنا شروع کر دیتے تب بھی اسرائیل کو ان کی جان لینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ وہ تو 2007ء میں اسرائیل جا کر اپنی نظمیں بھی سنا آئے تھے۔ Yaron Dekelنے ریڈیو پر محمود درویش کی نظمیں بھی پیش کی تھیں‘ وہی درویش اگر غزہ میں ہوتے تو نہ ان کی نظم چلتی نہ ان کی سانس۔
نسل کشی کے کیا محرکات ہیں اور بذاتِ خود اس نسل کشی کو روکنے کی جدوجہد کیا ہے‘ اس پر غور کرنے کی بھی ضروت ہے۔ پولینڈ کے ایک وکیل تھے جن کا نام Rapheal Lemkinتھا۔ انہوں نے لفظ Genocideتخلیق کیا تھا۔ وہ روس میں پیدا ہوئے تھے مگر پولینڈ میں انتقال ہوا۔ انہوں نے عربوں کے ساتھ مل کر الجزائر کی نسل کشی میں ملوث فرانسیسی افراد کے خلاف کیس بنانے کی از حد کوشش کی۔ کوئی ہمت کرے تو اسی بنیاد پر جنرل اسمبلی کی کلاز 290 کے تحت اسرائیل کے غزہ میں ملوث افراد کے خلاف نسل کشی کا فٹ کیس بنتا ہے۔ غزہ میں اس وقت ایک سے دو ہزار تک عیسائی رہتے ہیں۔ البتہ مغربی کنارے میں ان کی تعداد چالیس ہزار سے اوپر ہے۔ ان عیسائی لوگوں کو اسرائیلی افواج نشانہ نہیں بناتیں۔ مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان وہ ممالک ہیں جو ایک ایک کر کے عالم اسلام کی متفقہ پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل کے لیے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ اہلِ غزہ سے بھی انہیں کوئی سروکار نہیں۔
عثمانی خلافت میں یہ علاقے تین حصوں میں تقسیم تھے: ولایتِ بیروت، ولایتِ دمشق اور آزاد یروشلم۔ اسے اتحادی افواج نے 1917 میں اپنے قبضے میں لے لیا۔ ان طاقتوں کی مدد سے اسرائیل قائم ہوا۔ 1967ء کی جنگ سے پہلے یہ مصر کا علاقہ تھا اور مصر اور غزہ کے درمیان بس ایک لکیر ہی تھی۔ 67ء کی جنگ میں غزہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ غزہ بحیرۂ روم کے کنارے پر واقع ہے۔ یہ چاروں اطراف سے بند علاقہ ہے۔ مصر‘ اردن اور اسرائیل کے درمیان لینڈ لاکڈ۔
کہا جاتا ہے کہ فلسطین کا نام بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کا دیا ہوا ہے‘ تب اس نے اسے شام کا ضلع مانا تھا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور سے پانچ صدیاں قبل کی بات ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کا بھی یہی زمانہ ہے۔ روایت ہے کہ وہ بیت المقدس کے پاس سے گزر رہے تھے وہاں سے یہودیوں کے نکل جانے کے بعد القدس غیر آباد ہو گیا تھا۔ بخت نصر سب یہودیوں کو قید کر کے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ انہوں نے کہا: کیا یہ شہر (بیت المقدس) کبھی دوبارہ آباد ہو گا؟ اللہ نے ان کو سو سال کے لیے سلا دیا۔ جب جاگے تو بیت المقدس دوبارہ مکمل طور پر آباد ہو چکا تھا۔ عزیر علیہ السلام کو یہودی اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔
حماس کی ایک منتخب حکومت ہے۔ غزہ میں حماس اور مغربی کنارے میں الفتح کی حکومت ہے۔ رملہ فلسطین کا دارالحکومت ہے جو مغربی کنارے میں واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی یروشلم ہے‘ صرف دس بارہ کلومیٹر کا فاصلہ جبکہ غزہ یروشلم سے تقریباً پچھتر کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مغربی کنارے میں ساڑھے تین لاکھ یہودی آبادیاں ہیں جبکہ غزہ میں کوئی یہودی آبادی نہیں۔ اس وقت حماس اور اہلِ غزہ واحد مثال ہیں جو مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو اسلحہ سپلائی کے راستے بند ہیں مگر وہ مصر سے سرنگوں کے ذریعے اسلحہ غزہ تک لانے میں کامیاب ہیں۔ کہیں سے اسرائیل کی مزاحمت نہیں نہ مغربی کنارے پر نہ الفتح کی طرف سے۔ کئی ممالک میں اہلِ غزہ کے فلسطینی رشتہ دار مقیم ہیں مگر ان کو غزہ میں آنے کی اجازت نہیں۔ اسرائیل کی مرضی ہے کبھی وہ نابلوس، کبھی خان یونس، کبھی صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں، کبھی مغربی کنارے اور کبھی غزہ میں جینا مشکل کر دیتا ہے۔ یہ خالص نسل کشی ہے‘ یہ جنگ نہیں ہے۔ فلسطین ادب کا بہت بڑا موضوع ہے، شاید ہی اتنا کسی اور موضوع لکھا گیا ہو اور اس پر اتنی شاعری کی گئی ہو۔ محمود درویش نے کہا تھا:
جب تم ناشتہ کرنے لگو؍ تو دوسروں کو یاد رکھنا؍ فاختائوں کو چوگ ڈالنا مت بھولنا؍ جب تم جنگ پر نکلو؍ تو ان کو مت بھولنا جو امن چاہتے ہیں۔
کسی نے سوال کیا یہ معاشرہ کب ٹھیک ہو گا؟ بزرگ نے بلاتامل جواب دیا: جس دن تم ٹھیک ہو جائو گے۔ حماس ایک منتخب حکومت مگر بادشاہتوں کی قربانی دینے کا کون حوصلہ رکھتا ہے ؟ کوئی بھی نہیں! آج جنگ بندی ہوئی‘ کل جنگ پھر شروع ہو سکتی ہے۔ نیتن یاہو کے سامنے کون کھڑا ہو؟ اگر رافیل لیمکن اب ہوتا تو شاید وہ کہتا: یہ جینو سائیڈ ہے‘ یہ اہلِ غزہ کی آزادی کی جنگ ہے‘ یہ وار کورٹ کا فِٹ کیس ہے کہ کل ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ کسی وقت بھی دوبارہ اہلِ غزہ کی شہری آبادی کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں